مرزا رسا چغتائی بھی تھا یار ہمارا یاروں میں

2247

سیمان کی ڈائری
رساچغتائی کی رحلت پر اہل ِ ادب کے تاثرات
’’یار رسا بھائی کا انتقال ہو گیا ہے‘‘پانچ جنوری کی رات جب اجمل سراج بھائی کا فون آیا تو اس اندوہناک خبر کے سنتے ہی مجھے ایک دم جھٹکا سالگا۔مجھے یقین نہیں آیا کہ کیا واقعی ؟؟ اور پھر اجمل سراج تو کیسے نہ یقین کرلوں۔دل تھا کہ تسلیم نہیں کررہا تھا۔ابھی کچھ ہی دن پہلے کی تو بات تھی کہ رسا بھائی نے بچوں کو ملوانے کا کہا تھا اور ناراض بھی ہو رہے تھے کہ میرے نواسوں اور نواسی کو کب لاؤگے؟ اور میں بچوں کو اُن سے ملوانے لے جا نہیں سکا تھا۔بہرکیف اس افسوس ناک خبر کو دوستوں تک پہنچانے کا مجھ میں حوصلہ تو تھا ہی نہیں لیکن احباب کو آگاہ تو کرنا تھا۔ جیسے تیسے دوستوں کوبتایا۔میری طرح کچھ دوستوں نے یقین نہ آنے پردوبارہ فون بھی کیے۔ تمام رات دکھ اور ملال کی کیفیت رہی۔رسا بھائی سے پہلے دن سے ابتک کی ملاقاتوں کی فلم سی چلتی رہی۔آخری ملاقات اُن سے اجمل بھائی کے گھر پر ہی ہوئی اور ہر دوسرے دن اُن کا اجمل بھائی کے ہاں آنا معمول تھا۔اُس ملاقات میں بھی وہ پہلے سے بہت ہشاش بشاش تھے۔گفتگو کے دوران ہنستے مسکراتے بھی رہے ۔صحت بھی ٹھیک تھی۔پھر یہ سب اچانک کیسے ہوگیا…؟؟ دل کو اس بات کے لیے آمادہ کرنا مشکل کام تھا۔حتٰی کے نمازہ جنازہ سے قبل مسجد میں موجود اُن کی میت کے قریب بہت دیرتک میں ٹہلتارہا اور انھیں دیکھتا رہاکہ پوچھوں رسابھائی اتنی جلدی؟؟لیکن یہ ایک حقیقت تھی …رسابھائی کے نمازِ جنازہ میں اہل علاقہ کے علاوہ اُن کے چاہنے والے ادبی حلقے کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔خواجہ رضی حیدر،صابر وسیم،اجمل سراج ، مبین مرزا،فہیم شناس کاظمی،اقبال خاور،سحرتاب رومانی،عبدالرحمان مومن اور دیگر دوست بھی موجود تھے۔ ہر چہرہ پر ایک ہی سوال تھا اور ظاہر ہے کہ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا، نہ ہے۔کیوں کہ موت برحق ہے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اردوکلاسیکل غزل کے آخری شاعررساچغتائی میرزا محتشم علی بیگ دوستوںاوررفقاء کے کاندھوں پر سوار ہوکرکورنگی پانچ نمبرکے قبرستان میں منوں مٹی اوڑھ کر ابدی نیندسوگئے…اناللہ و انا علیہ راجعون
افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہا ہے کہ نماز جنازہ تو کجا کوئی حکومتی نمائندہ عالمی شہرت یافتہ شاعر رسا چغتائی کی تعزیت کے لیے بھی نہیں آیا۔صدرمملکت کی جانب سے بھی محض دو جملے ٹکرز کے ٹی وی چینلز پر چلوا کر فرض پورا کیا گیا۔بہر حال یہ المیہ ہے ہمارے ملک کا کہ کسی سیاست دان کی اَن دیکھی شادی کی خبریں چینلز کی ریٹنگ کا حصہ بن جاتی ہیں اور کوئی بڑی ہستی انتقال کر جائے تو اس کی پروا کب ہے کہ وہ کون تھا،کیا تھا اور کچھ تھا بھی توہُوا کرے۔یہ ہمارے معاشرے کی غلام قوم کا المیہ ہے۔مجھے وہ دن یاد ہے جب مَیں پہلی بار کورنگی میں رسابھائی سے ملنے گیا تو وہ شدید بخار میں مبتلا تھے اور مجھے لینے بس اسٹاپ تک آئے تھے کہ کہیں مَیں بھٹک نہ جاؤں تو یہ اُن کی محبت کا پہلا ثبوت مجھے اُسی وقت مل چکا تھا ۔اُس پہلی ملاقات میں مجھے انھوں نے اپنی کتاب ’’تیرے آنے کا انتظار‘‘مجھے یہ کہہ کر دی ،’’میاں یہ تمہارے ایک شعرکی نذر جو مجھے بہت پسند ہے اور آتے جاتے رہا کرویہ تمہارا ہی گھر ہے۔‘‘اُس دن سے مَیں اُن کی محبت ،شفقت، سرشاری، سادگی اور درویشی کا قائل ہوگیا۔یوں کہیے کہ اُن کی شخصیت کے اتنے سارے اچھے پہلوؤں نے مجھے اُن کا اسیر کردیا اورپھر یہ تعلق اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔چھوٹی بحروں میں اچھے اور فکری شعر کہنا مَیں نے انھی سے سیکھا ہے۔اپنے کالم میں میری خواہش تو یہی تھی کہ پہلے دن سے ابتک کی جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں اورمَیں نے اُن سے جوکچھ سیکھا ،لکھوں ۔لیکن مضمون اپنے احاطے سے مذیدباہر نکل جائے گا۔ رسا چغتائی ہمارے عہد کے بڑے شاعرتھے اور اُن پر ابھی بہت کچھ لکھا جاناباقی ہے۔معروف شاعرافتخارعارف،جلیل عالی،افسانہ نگار محمد حمید شاہد، شاعر،نقاد ڈاکٹر ضیاالحسن، افسانہ نگار،نقاد ناصر عباس نیر،ایڈیٹرسہ ماہی ’’لوح‘‘ ممتاز شیخ،شاعرلیاقت علی عاصم،فراست رضوی،شاہد رسام، جاوید اختر بھٹی، ڈاکٹرباقررضا،شاہین عباس،باصرسلطان کاظمی،ضیاضمیر،عرفان ستار،معصوم رضوی،افضل خان ، عمران شمشاد،طارق جمیل اورعبدالرحمان مومن نے رسا چغتائی کی رحلت پر اپنے تاثرات دیے ہیں،مَیں انھیں قائرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
افتخار عارف
رسابھائی حضرت میرزا محتشم علی بیگ جدید حسیت اور اردوکلاسیکل غزل کا آخری بڑے شاعرتھے۔ درویشی اور سرشاری ان کی سرشت میں شامل تھی،اوڑھی ہوئی نہیں تھی۔ ایسی نہیں کہ جو لوگوں نے جون ایلیا کی طرح بال لمبے کر لیے اور خود کو فقیر کہنا شروع کردیا ہے۔ رسا بھائی حقیقت میں درویش صفت انسان تھے اور پوری زندگی اسی درویشی اور سرشاری میں گزار دی تھی ۔صاحب جوہر شاعر جنھیں جعلی تنقیدی مافیا نے یکسر نظر اندازکیا ۔ان کے جانے سے بساط ِشعر ویران ہوگئی ہے ۔بیدل،غالب اور یگانہ کے بعد غزل کے آخری میرزا صاحب بھی رخصت ہوئے ۔ہم رسا صاحب سے جونئیر تھے اوروہ ہم سے بہت محبت کرتے تھے۔ میں نے سلیم احمد صاحب کے بعد رسا بھائی کو دیکھا کہ وہ اپنے سے کمزور اور چھوٹوں سے محبت کرتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ابھی پچھلے برس دسمبر میں ہم نے ایک ساتھ ہی مشاعرہ پڑھا تھا۔ان کے ہاں یوں تو بے بہا شعر موجود ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے لیکن معاملات کے حوالے سے میں نے اردو شاعری میں کہیں ایسا شعر نہیں پڑھا:
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا
جلیل عالی
رسا چغتائی اُن گنے چنے شاعروں میں سے تھے جو اردو غزل کی روایت کے گہرے شعور کے ساتھ جدت طرازی کا ہنر جانتے تھے ۔ان کا یہ کمال کسی منصوبہ بندی کا مرہون منت نہیں تھا۔ان کی شخصیت اور مزاج کا زائیدہ تھا۔اسے آپ روایت کے تخلیقی تسلسل کا نام بھی دے سکتے ہیں۔یہ خوبی شاعر کی اپج سے تعلق رکھتی ہے۔اس سے ان کی شاعری میں تہذیبی انسلاکات کے ساتھ رمزو ایمائیت کی ایک دنیا آباد ہوگئی تھی۔اسی اپج نے ان کواپنے شعری ڈکشن سے سرفراز کررکھا تھا۔وہ حقیقی معنوں میں ایک صاحب اسلوب شاعر تھے ۔انفرادیت کی ایسی چھاپ اور اظہارو بیان کا ایسا رچاؤآج کی شاعری میں کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے
ڈاکٹر ضیاالحسن
رساچغتائی استاد محترم ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کے دوست تھے۔ان سے غائبانہ محبت کا تعلق 1985میں استاد محترم کے توسط ہی سے قائم ہوا۔اس زمانے میں زنجیر ہمسائیگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملا ۔باقرصاحب کے بعد میری ان سے جب بھی ملاقات ہوئی مجھے یوں لگا جیسے استاد سے ملاقات ہوگئی۔ رساچغتائی اپنی طرز کے شاعر تھے۔ان کی شاعری جدت اور روایت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوب تشکیل دیتی ہے۔ان کے ساتھ ہی اردوسے اس خاص وضع کی شاعری کا ایک پورا دور اختتام پذیر ہوا۔وہ ایسے شاعر ہیں جن کا ذکر تادیر رہے گا ۔ یوں تو انھیں فنِ شعر پر مکمل دسترس حاصل تھی لیکن چھوٹی بحر کی شاعری میں ان کا جوہر خوب کھلتا تھا۔بلاشبہ وہ استاد شاعر تھے اور اس بے ہنر دورمیں امید کی روشنی ۔ان کے جانے سے ہمارے موجودہ ادبی منظر نامے میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جودیر تک بھرتا ہوا نظر نہیں آتا ۔
محمدحمید شاہد
رساچغتائی سے میں بعد میں ملا پہلے ان کے اشعار سنے تھے۔تب میں اپنے تئیں کڑھتا رہتا تھا کہ غزل کو بدل کر رکھ دینے کی شدید خواہش کرنے والے اس شاعر کی اتباہ کیوں نہیں کرتے کہ یہی تو غزل کا مزاج ہے۔بڑی سے بڑی بات سہولت سے کہہ لینے اور جمال کے چھینٹے اڑا لینے سے جو کیفیت بنتی تھی وہ زبان بدلنے ،اس میں عجب رکھ دینے میں کہاںتو یوں ہے کہ اسی سے اس صنف کایہ مزاج بنتا ہے۔میں نے تب رسا چغتائی کا نام سنا تھا اور جہاں تہاں سے پڑھا ضرور تھامگر نہیں جانتا تھا کہ وہ کراچی میں موجود تھے۔حتٰی کہ مجھے ان کا شعری مجوعہ بھی ملا اور یوں لگا جیسے واقعی کسی نے اپنا نازک گداز ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا ہواور ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ بہا ہو۔
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
زندگی کو اس رخ سے دیکھنا جس رخ سے ہم دیکھتے آئے ہیں مگر عین اسی زاویے سے اسے اپنی شدتوں کے ساتھ اچھال دینا کہ اسے اندر سے وہ حسی علاقے نہاں ہو جائیںجن کی طرف ہمارا دھیان تک نہیں جاتا تھا یہ رسا چغتائی کی غزل کا کمال تھا ۔ جب تک میں کراچی میں انھیں ملا نہیں تھااور ان کی کتاب ہاتھ تک نہ لگی تھی تو نہ جانے کیوں یہ گمان کیے بیٹھا تھا کہ ہو نہ ہو یہ میرؔ کے زمانے کا شاعر ہوگا ۔مگر وہاں دیکھا تو ایک عام سا شخص،غزل کی پوری تہذیب میں ڈھلا ہوا اور اپنی غزل کو اس صنف کی تہذیب میںڈھال کر رکھنے والاتو میں حیران ہوا تھا۔اچھا یہ ہیں رسا چغتائی !…اور ان کی کتاب وہاں سے تلاش کر کے لے آیا تھا ۔جب کبھی غزل پر ایمان ڈانوں ڈول ہوا اس ساحر غزل گو کی کتاب کھول کر پڑھتا رہا۔رساچغتائی کے شعرکی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی فکر یا مشاہدے سے کم کم اور بیشتر احساس کی لطیف سطحوں کو گرفت میں لے کر اپنا پیکر تراشتا ہے شاید یہی سبب ہے کہ پڑھتے ہوئے وہ قاری کے احساس اور حافظے کا حصہ ہو جایا کرتا ہے۔
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
رساچغتائی واقعی ایسے شاعر تھے جن کے نزدیک غزل آکر اپنی پوری تہذیب کے ساتھ زندہ ہو جایاکرتی ہے۔
ناصر عباس نیر
رسا چغتائی نے اردو غزل میں منفردلہجہ اور بڑی حد تک ناقابل تقلیدی اسلوب متعارف کروایا تھا۔کہیں کہیں ان کے اسلوب غزل پر جون ایلیا کے اسلوب سے مماثل ہونے کا گماں گزرتا تھا،مگرغور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کے اسالیب،دونوں کے جداگانہ شعری تصورات اور زندگی ،محبت اور وقت کے بارے میں الگ سے نمو پاتے تھے ۔رسا چھوٹی بحروں میں بڑی شاعری کرنے کا ہنر جانتے تھے۔اگرچہ ان کے مضامین میں تنوع کم نظر آتا تھامگر انھوں نے جن مضامین کو شعر میں ڈھالا ،ان کی جہتیں ایک سے زیادہ تھیں۔رواں،عام بول چال زبان میں غیر مانوس مگر گہرے تجربات پیش کرنا ان کی غزل کا خاصہ تھا۔
فراست رضوی
رسابھائی کی وفات سے کراچی میں اردو غزل کا دور ختم ہوگیا۔وہ ساٹھ کی دہائی کے ادبی گروہ سے وابستہ تھے۔جس میں فرید جاوید، عبیداللہ علیم،اطہر نفیس، جمال پانی پتی اور ساقی فاروقی شامل تھے۔ان کی شاعری ہجرت کے دکھ،صنعتی شہر میں انسان کی تنہائی اور عشق کے والہانہ جذبات سے عبارت تھی۔ان جیسی شعری جمالیات آج کی غزل میں دکھائی نہیں دیتی۔وہ اول و آخر تھے۔انھوں نے سچے شاعر کی طرح زندگی بسر کی اور دنیاوی آرزوؤں کو اپنے دل میں جگہ نہ دی۔وہ کراچی کی نیم کلاسیکل غزل کے آخری شاعر تھے۔تاریخ ِادب انھیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔
جاوید اختر بھٹی
دبستان ِکراچی کی سب سے بڑی دیوار پر رکھا ہوا چراغ آخر بجھ گیا ۔ایک عظیم شاعر نے خود کو موت کے سپرد کردیالیکن وہ اپنی شاعری کی صورت زندہ رہے گا ۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ہمارا جی چاہتا ہے وہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں۔یہ محبت خوبصورت رویے کے بغیر نہیں ملتی ۔رساچغتائی عظیم شاعر تھے وہ شہر ادب کو ویران کرگئے ۔رسا چغتائی اس دنیا سے تنہا نہیں گئے وہ بہت سی محبتیں اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں۔وہ دنیائے ادب کو خوبصورت شاعری دے کر گئے ہیں۔ میں کراچی کی فضا کو سوگوار دیکھ رہا ہوں ۔میں اس شہر کے غم میں شریک ہوں۔
ہجر کس آنکھ کا ستارہ ہے
رقص کرتا ہے آسمان سے دور
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔
لیاقت علی عاصم
میں نے جب بھی غزل میں تغزل کی کمی کا رونا رویا تو مجھے رسا چغتائی بھائی ضرور یاد آئے اور پھر ان کے کئی اشعار اور غزلیں بیک ساعت حافظے میں میری ڈھارس بندھانے آنے آ گئیں اور میں جی اٹھا …قدرت نے انھیں کئی اہم شعری خوبیوں سے نوازا تھا ۔سہل ممتنع،چھوٹی بحر ،بسیط مسلسل فضا اور جمال آفرینی جلال، یہ وہ خوبیاں ہیں جنھیں ان کے انفرادی اسلوب کے عناصرِ اربعہ کہنا چاہیے اور جو عصرِ رواں میں اتنے وفور کے ساتھ کسی اور شاعر میں مجھے دکھائی نہیں دیے۔یاد رہے کہ تنقید نامیرا منصب ہے اور نہ میں اس کا اہل ۔ہوتا تو اوپر کہی ہوئی باتوں کو تفصیل سے بیان کرتا۔البتہ کچھ اشعار پیش کرتا ہوں،ممکن ہے ان میں اوپر بیان کی ہوئی خوبیوں کی کچھ مثالیں مل جائیں:
دل سے آگے کوئی صحرا ہے نہ باغ
تو دبے پاؤں کہاں جاتا ہے
اس جہانِ خراب میں آباد
ہم نہ ہوتے تو کیا خدا ہوتا
ایک بچہ باغ کی دیوار پر
ایک بوڑھا ہاتھ پتھر کی طرف
اور یہ دو شعر جو ان کی قابلِ رشک نمائندہ غزلوں میں سے ہیں
تیغ اس کی ہے شاخِ گل اس کی
جو اسے کھینچتا ہوا لے جائے
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
رسا بھائی نہیں رہے لیکن یقین ہے کہ چشمہ ٹھنڈے پانی کا رہے گااور دشتِ غزل میں آنے والے سیراب ہوتے رہیں گے۔
ڈاکٹر باقر رضا
شکیل عادل زادہ اگر کسی کتاب کی تقریب رونمائی کا انتظام و انصرام کریں اور اس کتاب کی طباعت واشاعت بھی انھی کی نگرانی میں ہو تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ کتنی اعلٰی تقریب ہوگی اور کیسی نادر ونایاب اشاعت ہوئی ہوگی۔ میں جس کتاب کی تقریب رونمائی کو یاد کررہاہوں ، وہ رساچغتائی کے مجموعہ ٔ کلام ’’ریختہ‘‘ کی تعارفی تقریب تھی۔سچ تو یہ ہے کہ رساصاحب کی شاعری اس سے زیادہ کی مستحق تھی۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا تو بھی رسا صاحب کی شاعری میں منوادینے اور سرچڑھ کر بولنے کی جادوئی قوت قدرت کی طرف سے انھیں ودیعت کی گئی تھی۔ رسا صاحب سے بارہا ملاقات کا شرف حاصل ہواجو میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہے۔تاہم ان کی زندگی میں بھی اب جبکہ وہ ہم میں موجود نہیں ہیں میری ملاقات ہمیشہ ’’ریختہ‘‘ کی تقریب والے باریش رسا چغتائی سے ہی رہی اور وہ میری یادداشت میں ہمیشہ اپنے فلمی پوررٹریٹ کی طرح مسکراتے رہیں گے۔ کچھ برس قبل ایک ادبی رسالے کے لیے چند اہلِ علم حضرات کے انٹرویوز کی ٹھانی تھی۔ جس میں سے کچھ شائع بھی ہوئے تھے۔اس سلسلے میں جب میں نے رسا چغتائی صاحب کا انٹرویو کرنے کے لیے اجمل سراج سے مشورہ کیا تو انھوں نے اپنے مخصوص دو ٹوک فیصلہ کن لہجے میں ہمیں سمجھایا کہ آپ اُن سے کیا بات کریں گے؟ وہ تو بولتے ہی کم ہیں۔ رساصاحب سے شعراء، نقادوں اور ادبا کی طرح بولنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ان کی شاعری بولتی تھی اور بولتی رہے گی۔ان کو انٹرویو کی ضرورت نہیں ہے جو ان کی زندگی تھی وہی ان کی شاعری ہے۔یوں توغزل کی مخالفت میں لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔تاہم اردو زبان میں ہر دور میں ایسے شعرا پیدا ہوتے رہے ہیں جو غزل کا جواز فراہم کرتے رہے ہیں۔ رسا چغتائی کی شاعر ی غزل کا مقدمہ نہایت کامیابی سے لڑتی ہے اور غزل کا ہمارے عہد میں ناقابلِ تردید جواز فراہم کرتی ہے۔رسا صاحب کے انتقال پر میں نے ایک قطعہ لکھا ہے اور اسی پر اپنی تحریرختم کرتا ہوں:
دل کی حالت بیان کرنے کے
ہنرِ بے بدل کو پرسا دیں
آئیں مرزا رسا کی رحلت کا
حسنِ اردو غزل کو پرسا دیں
شاہد رسّام
میراخیال ہے کہ شاعری میں صرف شاعر کے احساسات ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ رنگ ہوتے ہیں جس سے معاشرے اور انسانی زندگی کا ایک ایسا پورٹریٹ بنتا ہے جو نظر بھی آتا ہے اور محسوس بھی ہوتا ہے۔ سوال بھی کرتا ہے اور سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ یہی رنگ رسا بھائی کی شاعری کا کمال ہے۔میری رسا بھائی سے نیازمندی کا تعلق تقریباً تیس برس کے لگ بھگ ہے۔ہم ایک ہی محلے میںرہا کرتے تھے۔ کبھی اُن سے پرندوں کی مارکیٹ میں ملاقات ہوتی تو کبھی ہمارے یا اُ ن کے گھر پر۔ہم دونوں کو پرندوں سے عشق تھا۔مَیں ادب کا ایک طالبِ علم ہوں میرا یہ منصب نہیں کہ میں ان کے فن اور ان کی شاعری پر بات کرسکوں۔مگر ان تیس برسوں میں رسا بھائی کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔رسا بھائی ایک بے مثال شاعر ہی نہیں بلکہ فقیر ، درویش آدمی تھے۔ کبھی ان کے منہ سے شکوہ شکایت نہیں سنی اور نہ ہی کسی کی غیبت۔کبھی پی آر کے کاروبار کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کسی نے محبت سے بلا لیا تو چلے گئے اور نہیں بلایا تو بھی خوش۔زندگی کے دکھ دردہنس کرجھیلتے رہے،اس کا ماتم نہیں کیا۔رسا بھائی جیسے کردار اب ہمیں کبھی کہانیوں میں بھی نہیں نظر آتے۔رسا بھائی کا شعر ان کی شخصیت کی تصویر ہے
جوگی سے اور جگ کی باتیں
جوگی کا اپمان ہے سائیں
شاہین عباس
رساچغتائی کا انتقال رواں برس کا بڑا ادبی سانحہ ہے ۔پاکستانی اردو غزل پربالعموم اور کراچی کی غزل پر بالخصوص جون ایلیا اور رسا چغتائی کے اثرات نظر آتے ہیں۔رسا صاحب کا ایک شعر ہے:
سوچیے تو خیال کے اطراف
آئنے گھومنے سے لگتے ہیں
ان کی کلیات میں سے اس معیار اور کیفیت کے درجنوں اشعار جدید اردو غزل کے مقدمے کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔رسا صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فکر کو خیال بنایااور خیال کو احساس کے درجے تک لے گئے۔ایسا ڈکشن اختیار کیا کہ تاریخ وتہذیب شعر کے دو مصرعوں میں یکجا ہی نہیں یکجان بھی ہو گئیں ۔ ان کا شعر ہم کلامی اور خودکلامی کے درمیان سے اپنی جست بھرتا ہواہفت آسمان کو چھونے لگتا ہے ۔
گردوں کا اک ہیولا ہے
نظروں کی جولانی کا
عالمین کے مشاہدے کی یہ وہ منزل ہے جہاں رسا چغتائی کے سامعین کی فہرست محدود رہتی ہے نہ قارئین کی۔یوں لگتا ہے انھوں نے ایسے اشعار ہمارے جیسے خاکیوں کے لیے نہیں لکھے بلکہ ان کی چوپال میں خداکی کوئی اور مخلوق بھی آ جاتی تھی جس سے وہ مخاطب رہے۔انھوں غزل کی روایت کے ساتھ اپنے غیر مشروط تعلق کو بھی نبھایا۔دڑایں یا رخنے ڈالنے والوں کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔وہ روایت کو مسلسل عمل سمجھتے ہوئے اس کی توسیع میں لگے رہے اور یوں انھوں نے ایک ایسے جدید ترپیرائیہ اظہار کو ممکن کر دکھایا جو روایت کے منحرفین کے حصے میں نہ آ سکا۔میرؔتقی میرؔسے لے کر لمحۂ موجودتک قدیم و جدید کی کڑیاں ملاتے ہوئے اردو غزل کی تاریخ لکھنی مقصود ہو تو رساچغتائی کے کام کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ممتاز شیخ
1928 میں متحدہ ہندوستان کی ریاست جے پور(راجھستان) کے خمیر سے اٹھنے والے مرزا محتشم بیگ جو بعد میں رسا چغتائی کے نام سے بہ طور استاد اور شاعربے بدل جانے پہچانے اور مانے گئے بھی ۔ہم سے رخصت ہوئے اور دار الابد میں جا مقیم ہوئے۔وہ بائیس برس کے تھے کہ انہیں پاکستان ہجرت کرنی پڑی اور وہ ۱۵۹۱ آ کر کراچی میں سکونت پزیر ہوئے۔شعر تو جناب رسا چغتائی اوائل عمری سے ہی کہ رہے تھے مگر بھرپور جوانی آنے تک انکے شعر کی خوشبو چار سو پھیل چکی تھی اور زمین شعر و سخن کو معطر کیے ہوئے تھی۔وہ کراچی آ پہنچے تو جہاں غم روزگار ان کے ساتھ تھا، وہاں شعر کہنے کی چنتا بھی ان کو ویران کیے ہوئے تھی ۔ ایک فطری اداسی بھی انکے اندر در آئی تھی کہ وہ صرف اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پاکستان آئے جبکہ انکا بقیہ خاندان ہندوستان میں ہی رہ گیا۔ جلد ہی وہ برسر روزگار ہوگئے اور تقریباً بیس برس کراچی میں ملازمت کرنے کے بعد اس وقت کے معروف اخبار‘‘ حریت’’کا حصہ بن گئے۔ اس دوران جناب رسا چغتائی کا شہرہ پاکستان بھر میں پھیل چکا تھا مگر ان کا کوء مجموعہ کلام اس وقت تک منظر عام پر نہیں آیا تھا حالانکہ وہ شہرت سے زیادہ گوشہ نشینی اور تخلیق پر یقین رکھنے والے شاعر تھے ۔ وہ اپنے ہم عصر شعراء میں ایک ممتاز اور منفرد طرز فکر کے مالک تھے۔جناب رسا چغتائی شعر میں میرؔ کا اسلوب اور غالب کے فلسفے کے قائل محسوس ہوتے ہیں۔ چھوٹی بحر اور مضبوط مگر سادہ الفاظ و بیان ان کے کلام کا خاصہ ہے۔ جناب رسا چغتائی اپنی لازوال شاعری‘ چار مجموعہ ہائے کلام ’ریختہ‘’ زنجیر ہمسائیگی‘’تصنیف ‘اور’ چشمہ ٹھنڈے پانی ‘کا کے علاوہ ’تیرے آنے کا انتظار رہا‘ نامی کلیات اپنے ترکے میں چھوڑ کر کورنگی کے قبرستان میں سپرد خاک ہو گئے ہیں۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ رسا چغتائی صاحب پر لکھنا آسان نہیں کہ وہ جفت جہت شخصیت کے ایک قد آور شاعر تھے جنہیں مدتوں فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ اگرچہ حکومتی سطح پر بھی انکے کام کو سراہتے ہوئے انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا جا چکا تھا مگر انکا اصل اعزاز دنیائے ادب میں انکا شمار استاد شعراہ میں ہوتا ہے اور یہ بلند ترین مقام ہے جس کے وہ بجا طور پر حقدار تھے۔ بہ طور انسان بھی وہ یقیننآ ایک بڑے آدمی بھی تھے۔ چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق کے باوجود انہیں کلاسیکل شعراء میں شمار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئیے۔ جناب رسا چغتائی اپنی ذات میں مکمل طور پر شعری اور ادبی جہان کے حامل شخصیت تھے۔ جہان فانی سے ان کی رحلت کے سبب ایک روایت اور وضعدار دور کا خاتمہ ہو گیا۔انکی آسان فہم اردو میں شاعری ان کے کامل شعر کہنے پر عظیم الشان دسترس عجب نمونہ پیش کرتی ہے ۔انکی شاعری اتنی آسان فہم اور سحر انگیز ہے کہ پڑھنے اور سننے والا عالم تحیر میں جا بستا ہے۔ رسا چغتائی جیسا بڑا آدمی، بڑا شاعر اپنی ذات میں بہت کم گو اور سادہ منش کورنگی کے ایک چھوٹے سے مکان پر ہی قانع رہا۔ان کی شاعری ایک تہذیب ‘ ایک مخصوص تمدن کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے جس سے ان کی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ان کی شاعری میں محبت‘ روایت ‘ بھائی چار گی اور داستانی انداز بھی جا بجا ملتا ہے ۔ان کی شاعری میں تہذیبی استعارے جا بہ جا پھیلے ہوئے ہیں جو بلا تؤقف دل کو چھو لیتے ہیں۔ مورخ جب شعر و سخن کی تاریخ مرتب کرے گا تو مجھے یقین کامل ہے کہ وہ جناب رسا چغتائی کو سراہے بنا نہیں رہ سکے گا۔میرے نقطۂ نظر سے اگر انھیں آبروئے غزل بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ان کی دیگر تصانیف میں ’’ریختہ‘‘’’چشمہ ٹھنڈے پانی کا‘‘اور ’’تصنیف‘‘ شامل ہیں۔
عرفان ستار
رسا بھائی جدید اردو غزل کا ایک بے حد اہم اور معتبر نام ہے مگر بات صرف یہیں تک نہیں رسابھائی نے جس طرح شاعروں کی تین نسلوں کو متاثر کیا اس اعتبار سے انھیں بجا طور پر ایک عہد ساز شاعر قرار دیا جاسکتا ہے ۔جدید اردو غزل میں ایسی مثالیں بہت کم ملیں گی کہ ایک شاعر نے ناصرف اپنا منفرد اسلوب تراشنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ اس اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے اعلٰی ترین شاعری تخلیق کی۔ہم ایسوں کے لیے تو وہ مکمل شاعر کا ایک ماڈل تھے ۔تخلیقی شخصیت کے طور پر بھی اور تہذیبی رویے کی سطح پر بھی ۔ان کا خمیر محبت اور انکسار سے اٹھا تھا ۔نام و نمود سے بے نیاز ،مقام و اعتراف سے لاتعلق ،صرف اور صرف اچھی
شاعری کا متوالا ایک ایسا شخص جو دوسروں کا اچھا شعر سن کر ایسا سرشار ہوتا تھا جیسے کہ یہ شعر اس کا اپنا ہو۔رسا صاحب کا چلے جانا ایک ادبی سانحہ ہے کہ اب
ایسے لوگ نایاب ہیں۔یہ بات بہرحال باعث طمانیت ہے کہ انھوں نے تخلیقی اعتبار سے ایک بھرپور زندگی گزاری اور اردو غزل کی تاریخ میں اپنا نام چند سرفہرست ناموں میں درج کروالیاان کا شعر آئندہ نسلوں تک سفر کرے گا۔اور ان کی شاعری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید اردوغزل کے بہترین نمونے کے طور پر ادبی منظر نامے کا حصہ بنی رہے گی۔میرے ادبی سفر میں جن اکابرین کی شفقت اور رہنمائی شامل رہی ہے ان میں رسا بھائی ہر اعتبار سے اہم ترین ہیں ۔ ان کے اشعار گذشتہ تیس برسوں سے میرے حافظے کا حصہ ہیںاور جب تک حافظہ ہے رسا بھائی کے اشعار سے ایک بڑا گوشہ آباد رہے گا۔
معصوم رضوی
رسا چغتائی قدیم اور جدید شاعری کے درمیان ایک پل تھے یایوں کہیے کہ روایت اور جدت کا حسین امتزاج جو اب ہم میں نہیں رہے۔چھوٹی بحر میں بڑی بات کہنے والے رساچغتائی موجودہ دور میں غزل کے بڑے شاعر اور استاد کا درجہ رکھتے تھے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہمارے عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ فقیرمنش،سادگی،قناعت،خلوص اور وضع داری کا پیکر ،شہرت اور خودپسندی سے دور صرف اور صرف شاعر ،ایک عہد ان کے ساتھ تمام ہوا۔شاعری میں ایسی سلاست اور روانی کم کم ہی نصیب ہوتی ہے جیسی رساصاحب کی پہچان بنی۔یہ سچ ہے کہ رسا صاحب ہم سے جدا ہوئے مگر ان کی شاعری نسلوں کو مسحور کرتی رہے گی۔
ضیاضمیر
محترم رسا چغتائی گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں پیدا ہونے والے اہم شعرا ء میں شامل تھے۔تقریباً ساٹھ دہائیوں پر محیط ان کا شعری سفر ایک کامیاب اور نہ بھولنے والے منفرد شاعر کا شعری سفر ہے۔اپنے ہم عصر ناصر کاظمی کی طرح رسا صاحب نے اپنے شعری اظہار کے لیے غزل اور غزل میں بھی مختصر بحروں کا چناؤ کیا اور بڑی تعداد میں مختصر بحر والی غزلیں کہیں۔جس وقت میں ان کی شعری تربیت ہو رہی تھی وہ دور جہاں ایک طرف روایتی غزل کے آخری مرحلوں کا تھا وہیں ترقی پسند تحریک کے حملوں سے بھی غزل کے خاص طور پر روایتی غزل کے خاموش ہو جانے کے امکانات نظر آنے لگے تھے ۔خاص طور پر اس دور کے نئے لکھنے والے اس تحریک سے بہت مرعوب ہوئے بنا نہیں رہ پا رہے تھے۔رسا صاحب اس تحریک سے فیض یاب تو ہوئے لیکن غزل کے عظیم ماضی کو نکارا بھی نہیںاور دونوں کے بیچ توازن قائم کرتے ہوئے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔رسا صاحب نے جس خاموشی اور بنا کسی نعرے بازی کے شاعری کی وہ حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ان کے ہاں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جدیدیت نظر آنے لگی جو اس بات کا اعتراف تھا کہ وہ پامال رستوں کی مسافت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ان کا جانا ایک عہد کا خاموش ہو جانا ہے مگر ان کا شعری سرمایاہماری تاریک راہوں کو روشن کرتا رہے گا۔ان کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں
باصر سلطان کاظمی
جناب رسا چغتائی کا انتقال اردو دنیاکو سوگوار کر گیا۔ان کی شاعری اور زندگی اہل ادب کے لیے مشعل راہ رہی اور رہے گی۔وہ ان معدودے چند تخلیق کاروں میں تھے جو شہرت اورتوجہ کے حصول سے بے نیاز رہنے کے باوجود مقبول و معروف ہیں۔انھوں نے عمر کاہر دور بڑی آبرومندانہ انداز میں گزارا۔عزت سے جیے ۔باعزت موت پائی اور ہزاروں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے ۔
طارق جمیل
1928میں پیدا ہونے والا ایک سچا عاشقِ میرؔ2018 میں انتقال کر گیا ۔چند روز پہلے ایک ادبی تقریب میں رسابھائی سے آخری ملاقات ہوئی۔یوں تو ہم نے اپنی ’’بزمِ شعروسخن‘‘کے تحت رسا صاحب کو کئی بار مدعو کیا تھا اور اس سال ہونے والے کل پاکستان مشاعرے کی صدارت کے لیے بھی احباب نے رسا چغتائی صاحب کا نام صادر کیا تھا۔ لیکن یہ سوچا بھی نہ تھا کہ رساچغتائی صاحب اتنی جلدی جدا ہو جائیں گے۔میر کی پیرویٔ سخن کرنے والا عاشقِ میر اب میرؔکے پاس دوزانو بیٹھا اپنے محبوب شاعر سے غزلیں سن رہا ہوگا اور اپنے اشعار سنا کر دادِ سخن پا رہا ہوگا۔بقول میرؔتقی میرؔ:
اب ان کو دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
افضل خان
رسا چغتائی صاحب نہ صرف خوبصورت صاحبِ طرز شاعر تھے بلکہ انتہائی نفیس اور شریف النفس انسان بھی تھے ۔ان کے جانے سے ادب کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے ۔ان کی شاعری میں جہاں ہم جیسوں کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے وہیں ان کو پڑھ کر جو قاری پر کیفیت طاری ہوتی ہے یا اس منظر کو قاری کے چاروں طرف بن دینا ،میں سمجھتا ہوں کہ یہ رساچغتائی صاحب کا خاصہ تھا ۔سہل ممتنع کے پیرائے میں رہتے ہوئے انھوں نے گہرے اور کثیر المعنی شعر کہے ہیں ۔یہ چیزیں سب اتنی آسانی سے نہیں مل جاتیں۔ اس کے پیچھے بہت ساری مشق اور بہت سارا کام اور مشقت درکار ہوتی ہے ۔رسا صاحب کی شاعری جب میں پڑھتا ہوں تومیرے اوپر انتہائی رومانی اور سرشاری والی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔رسا بھائی بہت بڑے آدمی تھے۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے ۔ رسا بھائی کا کام رہتی دنیا تک جاری رہے گا اور ہمارے دلوں میں راج کریں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
عمران شمشاد
رسا درویش آدمی تھا۔درویش بھی ایسا جو پوشیدہ ہو۔منصورٹھیک کہتا تھا لیکن کہنا ٹھیک نہیں تھا۔خون جسم میں دوڑے تو پاک،باہر نکلے تو ناپاک۔عجیب سخی مرد
تھا۔کسی کو مصرعوں کے سکے دے دیے،کسی کو تخلیقی فضا کی خوشبو دان کردی اور کسی کو کتابوں کے ڈھیر سے سیر کردیاجو آیا سچائی بھری معصومیت سے استقبال کیا۔
جس نے بلایا، نہ انکار کیا نہ سوال کیا۔جس تقریب میں گیا سرجھکائے بیٹھا رہا۔شعر بھی ایسے سنائے جیسے قرض چکایا۔نہ چائے پی نہ کھانا کھایا۔گھر میں پانی نہیں آیاتو لفظوں سے دریا بہا دیا،پانی کا پرندہ اڑا دیا۔رسا ررویش آدمی تھاجس نے مشکل ترین حالات میں رات سے نکلنے کا طریقہ بتایا’’اس کا بندہ ہوں میں جو بے مانگے پتھروں کو خدائی دیتا ہے‘‘۔
عبدالرحمان مومن
دوست سمجھتے ہیں ان کا میرا استاد شاگرد کا رشتہ تھا۔ دوست بھی ٹھیک ہی سمجھتے ہیں۔ وہ میرے استاد بھی تھے۔لیکن میری یادداشت کے مطابق ان سے میرا تعلق کرکٹ کی وجہ سے استوار ہوا تھا۔ کرکٹ سے دلچسپی میری اور ان کی قدرِ مشترک تھی۔ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا۔ وہ مجھ سے کرکٹ کی باتیں کرتے تھے اور کرکٹ کھیلنے سے متعلق مشورے دیتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ میں شعر کہنے لگا۔ اب شاعری بھی ہماری قدرِ مشترک بن گئی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے۔ میرے تازہ شعر سنتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ مشورہ بھی دیتے لیکن ساتھ ہی کہہ دیتے کہ تو خود دیکھ، تجھے جو اچھا لگے وہ رکھ لے۔ وہ سچے انسان اور اچھے شاعر تھے۔ وہ اردو غزل کی روایت کے اہم شاعر ہیں۔ ان کی غزل روایت اور جدیدیت سے یکساں ہم آہنگ ہے۔ میں ان کی شاعری کا مداح اور ان کی محبت کرنے والی شخصیت کا اسیر ہوں۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے رسا چغتائی کون تھے تو میں کہوں گا محبت اور شاعری کے حسین امتزاج کو رسا چغتائی کہتے ہیں.اللہ رسا بھائی کو سدا خوش رکھے اور مجھے ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔

حصہ