مثالی گھر

412

تنویر فاطمہ
ثنا اور فائزہ بچپن کی سہیلیاں اور آپس میں چچازاد بہنیں تھیں۔ ثنا کی شادی دور کے رشتے داروں میں ہوئی۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ لندن جا بسی۔ آج بڑی مدت بعد فائزہ کا انٹرنیٹ پر ثنا سے رابطہ ہوا۔
فائزہ بڑے رشک سے ثنا کی قسمت کو داد دے رہی تھی ’’کیا تمہارے نصیب ہیں کہ تم لندن کی فضائوں میں گھوم رہی ہو…‘‘
’’ثنا تم کیا جانو پاکستان سے آنے والی دلہن کو یہاں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے وطن سے جدائی کا دکھ۔ دوست، رشتے دار، شہر، کالج، پھر تم جیسی دوست اور یادیں… درِ دل پہ دستک دیتی ہیں… دوسرا تنہائی۔ میاں صاحب 7 بجے جاب پر جاتے ہیں اور واپسی شام کے 6 بجے ہوتی ہے۔ طویل دن… نہ مہربان، نہ ہمسایہ نہ پاسبان… پھر آتے ہی انگریزی سیکھو، ڈرائیونگ کا امتحان پاس کرو، بینک جائو، سودا سلف لائو، بل جمع کروائو… کھانا پکانا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ باتھ روم اور ٹوائیلٹ بھی صاف کرنا پڑتے ہیں۔‘‘
’’چلو خیر چھوڑو، تم یہ بتائو بھیا کی شادی کیسی رہی۔‘‘
’’فائزہ! الحمدللہ، اللہ نے تمام کام بخیروخوبی کروا دیے۔ ہم نے سادگی اور سنتِ رسولؐ کا بھرم رکھنے کی بڑی کوشش کی…‘‘
’’ہاں ہاں ثنا مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ دوسرے رشتے داروں سے بھی مجھے یہ جان کر کہ تم لوگوں نے شادی میں فضول رسموں سے اجتناب برتا۔ سسرالی اور نند بن کر لڑکی والوں سے جوڑے نہیں اینٹھے، بے حد اصرار کے باوجود بھی انکار کردیا۔‘‘
’’اور کیا، رسم و رواج ہمارے ہاتھوں کے بنے ہیں، انہیں توڑنا ضروری ہے، تمام فضول رسموں کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ لڑکے والوں کو خوش کرنے کے لیے یہ ہدیے دیے جاتے ہیں، یا پھر لعنت ملامت اور مشکلات سے بچانے کی خاطر لڑکی والے اپنی حیثیت سے بڑھ کر نمود و نمائش سے کام لیتے ہیں۔‘‘
’’ثنا تم نے بالکل درست کہا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہوگا تو خودبخود ہماری معاشرت میں سادگی اور پاکیزگی کا عنصر غالب ہوگا اور نمود و نمائش اور فضول رسموں سے چھٹکارا ملے گا۔‘‘
’’ثناء! بھئی رشتے داروں سے مجھے یہ جان کر اور بھی خوشی ہوئی کہ بھابھی اور تم میں بڑا پیار اور انڈراسٹینڈنگ ہے۔ اللہ اس کو ہمیشہ برقرار رکھے۔‘‘
’’دیکھو ثنا! ایک لڑکی اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور عزیزوں کی محبت چھوڑ کر آتی ہے تو اسے نئے گھر میں تلاش کرتی ہے۔ نئے ماحول میں وہ اجنبی ہوتی ہے اور اپنے مستقبل کا خیال کرکے قدرتی طور پر دبی دبی، سہمی سہمی اور اداس رہتی ہے۔ صرف محبت اور خلوص سے ہی اس اجنبیت کو دور کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ ہر آنکھ میں خلوص اور شفقت پائے گی تو نئے گھر کو اپنا گھر، ساس سسر کو اپنے والدین اور بہن بھائی کا نعم البدل سمجھے گی۔ محبت سے جانور بھی رام ہوجاتے ہیں… ظاہری پیار محبت اور آسائش کس کام کی، جب دل میں کینہ، حسد، بڑائی، نخوت اور نفرت ہو… دل میں کسی کے لیے اچھے یا برے جیسے بھی خیالات ہوں، قدرتی طور پر دوسرے کے دل میں ویسے ہی احترام اور نفرت کے جذبے ابھرتے ہیں۔‘‘
’’ثنا تم تو بڑی سمجھ دار نکلیں، ویسے یہ حقیقت ہے کہ بیٹی کے لیے تو ماں کا دل ایسا وسیع اور فراخ ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی گستاخی اور غلطی برداشت کرلیتی ہیں لیکن بہو کی ذرا سی حرکت، سردمہری یا لاپروائی یا نادانی کی بنا پر فوراً گرفت… مہینوں، برسوں معاملہ چلتا ہے۔ چاہے کھلے بندوں نہ سہی مگر جب بھی موقع ملتا ہے بیٹے سے شکایتیں اور لگائی بجھائی ہوتی ہے۔ بہو بے چاری خواہ کتنا ہی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرے، معافی نہیں ملتی۔ جھوٹے، ناقابل قبول اور اپنے وہم و خیال سے اخذ کرکے گلے شکوے کیے جاتے ہیں کہ یہ تو ہمیں خاطر میں ہی نہیں لاتی، اس گھر اور گھر کے سامان کو اپنا نہیں سمجھتی۔ معمولی معمولی بات پر عفو و درگزر اور چشم پوشی کے بجائے نکتہ چینی، حرف گیری، ہنسی مذاق، ذلت آمیز سلوک… جو اپنے دل میں ساس سسر کو ماں باپ اور نند، دیور کو بہن بھائی سمجھنے کا کتنا ہی گہرا جذبہ لے کر سسرال گئی ہو ایسی صورت حال میں اگر وہ انہیں ماں باپ سمجھے گی بھی تو ایسی بناوٹ اور تصنع سے، جیسے اُسے بیٹی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقی چاہت اور احترام کوسوں دور ہوگا۔‘‘
’’فائزہ ویسے مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جس بہو کو وہ لاڈ سے بیاہ کر لاتی ہے پھر اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ شاید ساس صاحبہ کو یہ وہم اور خطرہ لاحق ہوجاتا ہوگا کہ کہیں میرا بیٹا اپنے بیوی بچوں کا ہی نہ ہوجائے۔ پھر جلن اور حسد اپنا کام کردیتے ہیں، حالانکہ ذرا انصاف سے کام لیا جائے اور اپنی پچھلی نئی شادی شدہ زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو اسے معلوم ہو کہ وہ بھی اپنے خاوند کی توجہ اور محبت کی خواہش مند تھی۔‘‘
’’ثنا! بہو کے متعلق ایک عام شکایت یہ بھی ہوتی ہے کہ شوہر کی کمائی سے میکے کو بھرتی ہے، تم خود سوچو یہ کتنی لغو بات ہے۔ جو عورت شوہر کی خدمت اور اس کے گھر کو سنوارنے اور بچوں کی تعلیم اور پرورش میں جان کھپا دیتی ہے وہ کبھی گھر لٹا سکتی ہے؟ اگر اسے گھر میں محبت واحترام ملے تو وہ میکہ بھی بھول جاتی ہے۔ میری دعا ہے کہ تم اپنی بھاوج کو اپنی محبت اور خلوص سے اتنا اپنا سکو کہ وہ میکہ بھول جائے۔ بدظنی، لگائی بجھائی اور غیبت کے بجائے تم حسنِ ظن، صفائیٔ قلب اور خلوص و دلسوزی کے ساتھ اپنے گھر کو دوسروں کے لیے ایک مثالی گھر بنا کر دکھا سکو، آمین ثم آمین۔‘‘
’’اچھا فائزہ، انٹرنیٹ پر باتیں کرتے کرتے کتنا وقت ہوگیا، اب اجازت دو، اللہ تم کو تمہارے گھر رہنا بسنا نصیب کرے، اللہ تمہیں توفیق دے کہ تم بھی اپنی نیک خوئی سے اپنے شوہر اور سسرال والوں کا دل اپنے ہاتھ میں لے سکو، آمین۔‘‘

حصہ