لگن

270

سمیعہ ریاض دعا
(دوسرا اور آخری حصہ)
’’ہاں بھئی فرید احمد کیسے آنا ہوا‘‘
فریدو سر جھکائے کھڑا رہا اس کے ہاتھوں کی لغزش ماسٹر جی سے چھپی نہ رہ سکی۔ پڑھنا چاہتے ہو؟ ماسٹر جی نے فریدو کے سر پے ہاتھ پھرتے ہوئے پیار سے پوچھا۔ فریدو نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ تھوڑی ہی دیر ماسٹر جی نے فریدو کو اسکول میں موجودکچھ کتابیں دے دیں اور ساتھ ہی اسے کاپیاں اور پنسلیں دلوانے کا وعدہ کیا۔ فریدو کی یہ بغاوت اس کے گھر والوں سے زیادہ دن چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ ابا نے ایک دن اسے اسکول سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اسے مارتا ہوا گھر لایا تھا۔ ابا نے اس دن اسے بہت مارا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسے کام چور اور نمک حرام جیسے القابات سے بھی نوازا تھا۔ مگر آج وہ رویا نہیں تھا وہ خوش تھا کہ کسی بھی طریقے سے سہی اس کے گھر والوں کو اس کے بارے میں پتہ چل گیا تھا۔ اسے مزید گھر والوں سے جھوٹ نہیں بولنا پڑتا۔
فریدو کو ذہانت اللہ کی طرف سے ملی تھی تو محنت کرنے کی عادت اس نے ماں باپ سے لی تھی۔ جس وقت تمام بچے کھیل کود میں مگن ہوتے فریدو ایک طرف بیٹھا پڑھتا رہتا۔ بچوں کے کھیل کود اور لڑائی جھگڑوں سے اسے کوئی سروکار نا تھا۔ اس کی یہی عادت چوہدریوں کے بیٹے کو بری لگتی تھی وہ جہاں فریدو کو اکیلا دیکھتا اسے مارتا پیٹتا اور دوسرے بچوں کے ساتھ مل کے فریدو کا مذاق اڑاتا۔ مگر فریدو ہمیشہ اس کو نظر اَنداز کر دیتا۔ آٹھویں جماعت کے امتحانات میں فریدو نے تحصیل بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔
گاؤں کا اسکول آٹھویں جماعت تک ہی تھا مگر فریدو کی ذہانت اور شوق کو دیکھتے ہوئے ماسٹر جی نے اسے میٹرک کے امتحانات کی تیاری کروانے کی ذمے داری لے لی تھی۔ فریدو جانتا تھا محنت لگن اور سچائی سے انسان ہر اچھا مقام حا صل کر سکتا ہے۔ فریدو کی دن رات کی محنت سے وہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور ایک دن ایسے ایک جگہ نوکری مل گئی۔ آفس میں باس کی حیثیت سے آئے اسے کچھ روز ہی ہوئے تھے جب اس کے پاس گاؤں کا ایک لڑکا نوکری کے لیے آیا۔ وہ لڑکا کوئی اور نہیں بلکہ چودھری کا بیٹا تھا جس نے وقت کی قدر نہیں کی اور اپنی نادانیوں کے باعث سے فریدو سے بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اب اسے سمجھ میں آیا تھا کہ زِندگی میں اچھا مقام وہ ہی حاصل کرتا ہے جو ثابت قدمی سے سچائی کی راہ پر ڈٹ جاتا ہے۔

حصہ