زینب کو انصاف دلانے نکلا سماجی میڈیا

399

ویسے تو ہمارے ہاں سوشل میڈیا پرڈانلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ در ٹوئیٹ اور اُس کے جواب در جواب ہی زیر بحث رہے تھے،اس دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تیسری شادی والا معاملہ بھی خاصا مقبول رہا، نئے اشعار بلکہ نظمیں، کارٹون، لطائف اور طنز و مزاح کا سلسلہ غالب رہا ، تاآنکہ خان صاحب نے ٹوئیٹ کر کے ایک سکوت توڑا کہ وہ کوئی گناہ نہیں کر رہے جو اتنا شور مچایا جا رہا ہے ۔پھر چکوال میں ہونے والے ضمنی انتخابات جس میں مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ، جس پر مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم خاصی متحرک رہی جس نے خان صاحب اور پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا۔اس پورے منظر نامے میں اچانک پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جڑے ہوئے ، بڑی آبادی والے ایک شہر قصور سے دلخراش خبر سامنے آئی اور یکا یک سوشل میڈیا پر تیزی سے جگہ پاتی چلی گئی ۔عوام نے اس ایشو پر اپنا بھر پور حق ادا کیااور ٹوئٹر پر ورلڈ وائیڈ ٹرینڈ میں بھی JusticeForZainabنے جگہ بنائی ۔ٹوئٹر اعداد و شمار کے مطابق جمعہ کے روز تک بھی پاکستان میں یہ ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈز کا حصہ بنا رہا جس میں کوئی تینتیس ہزار لوگوں نے شرکت کی جبکہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار ٹوئیٹ اس ہیش ٹیگ کے ساتھ کی گئیں۔اسی طرح فیس بک پر الگ معاملہ گرم رہا ، معصوم زینب کی تصویر کی ڈی پی ( ڈسپلے پکچر) تو بنائی جاتی رہی ساتھ ہی ، جسٹس فار زینب کا کور پیج بھی فروغ پاتا رہا ۔صرف فیس بک پر جمعہ تک اس موضوع پر کوئی ساڑھے سترہ لاکھ افراد گفتگو کر تے نظر آئے ۔ زینب کے قاتل کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ بھی خاصا مقبول رہا ،خصوصاً جمعہ کے روز جب کراچی میں ’فکس اٹ ‘ والوں نے شارع فیصل پر کئی گھنٹے کا ٹریفک جام کر کے ایک پتلے کو زینب کا قاتل ٹھہرا کر علامتی پھانسی بھی دے ڈالی ۔اسی طرح لاکھوں ممبرز رکھنے والے کئی معروف فیس بک گروپس نے اپنے گروپ کے نام ہی بدل ڈالے ’زینب کے قاتل گرفتار کرو ، زینب ہم شرمندہ ہیں ‘ کے نام استعمال کیے گئے ، جبکہ جسٹس فار زینب کے نام سے ہی کئی اور گروپس تشکیل ہوئے ۔قصور سے باہر عملی مظاہروں میں سب سے پہلے کراچی میں اس حوالے سے ایک احتجاجی مظاہرہ کراچی پریس کلب پر منعقد کیا گیا جسے پاکستانی شو بز سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے لیڈ کیامگر اسے سوشل میڈیا مظاہرہ کہا گیا چونکہ اس کی تمام تر دعوت سوشل میڈیا ہی سے دی گئی تھی۔ شو بز کی معروف شخصیات اس مظاہرے میں شامل تھیں اس لیے اُن کے اپنے مقبول اکاؤنٹس بھی اس احتجاج کا حصہ بنے اور اس ایشو کو سوشل میڈیا پر عالمی توجہملی۔ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیپا، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکاسمیت کئی ممالک سے غیر پاکستانیوں نے بھی اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔واقعہ کیا ہوا اِس کی تفصیل تو آپ تک پہنچ ہی چکی ہوگی اس لیے اس تفصیل میں جائے بغیر ہم اپنے موضوع یعنی سماجی میڈیا پر اس ایشو اور دیگر ایشوز کی بازگشت کا اجمالی جائزہ لے لیتے ہیں ۔اِس معصوم ننھی بچی کے ساتھ ہونے والی درندگی کے خلاف سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم سے مستقل ( آج تک )بھرپور اور ایک موثرآواز بلند ہوئی ہے، جسے ہمارے روایتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے بھی جگہ دی بلکہ عالمی میڈیا پر بھی خصوصاً بھارت نے بھی اس واقعہ کو موضوع بنایا جہاں خود یہ مسئلہ ، یعنی کم سن بچوں کیساتھ کسی قسم کی زیادتی کے واقعات کا ایک تحقیقی مطالعہ2012کے جو اعداد و شمار پیش کرتا ہے وہ ۵۳فیصد ہیں۔
اس ضمن میں جو مباحث کے تین زاویے سامنے آئے اُن میں اول الذکر ’’حکومتی نا اہلی و حکومتی ذمہ داری ‘‘کا بڑا شور رہا اور کسی نے شاہ ولی اللہ ؒکے نام سے ایک قول شیئر کیا کہ ’’ جس کا قاتل نا معلوم ہو اُس مقتول کا قاتل حکمران ہوتا ہے ۔‘‘اس پوسٹ کے دائرے میں عوام نے حکومت ، پنجاب حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا پھر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے بیان نے مزید جذبات مشتعل کر دیے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی رات کے اندھیرے میں زینب کے والدین سے تعزیت بھی شدید تنقید کا نشانہ بنی ،جبکہ اگلے روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی مقتول بچی کے والدین سے تعزیت اور اہلیان قصور کی جانب سے مظاہرین سے خطاب کو اس کے مقابلے میں خاصی پذیرائی ملی ۔تحریک انصاف کے کچھ ذمہ داران نے بھی تعزیت کی۔سوشل میڈیا کی کاپی پیسٹ ،شیئرنگ اور سرچ کی سہولت کی وجہ سے ہماری عوام کی یاد داشت ماضی کے مقابلے میں اب بہت بہتر ہو گئی ہے ،اس لیے تحریک انصاف کے نمائندگا ن کی تعزیت پر عوام کو ڈیرہ اسماعیل خان والا واقعہ یاد آگیا۔ مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر حکومتی نا اہلی کا زب سے زیادہ رونا رویا گیا ، عملی طور پر بھی ہم دیکھیں تو اگلے روز مظاہرین نے ڈی پی او( ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر) کے دفتر پر دھاوا بولاجہاں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ نے مزید شہریوں کی جان لے لیں ۔ڈی پی او صاحب کے ایک قول کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نے بھی جذبات کو خاصا مشتعل کیا ،’’ بہت بو آ رہی ہے میں گاڑی سے باہر نہیں آ سکتا، آپ دس ہزار روپے لاش ڈھونڈنے والے سپاہی کو دے دیں ، میں اسے تعریفی سرٹیفیکیٹ بھی دوں گا۔‘‘ڈی پی او قصور کا ننھی زینب کی لاش کے سامنے اُس کے چچا سے مکالمہ۔یہ پوسٹ خاصی وائرل ہوئی ،حکومت اور پولیس انتظامیہ پر کوڑے کی طرح خوب دل کھول کر کمنٹس برسائے گئے ۔مزید اہم بات یہ ہوئی جیسا میں نے یاد داشت والا معاملہ بتایا تو یکایک عوام نے ماضی کو کھنگالنا شروع کیا اور ماضی قریب یعنی گذشتہ سال بھر میں ہونے والے اسی طرح کے واقعات کی اخباری سرخیوں کو یکجا کر کے بھی حکومت کے منہ پر خوب طمانچے رسید کیے ۔قصور شہر میں اس جیسے واقعہ کی یہ گنتی 10یا 12بتائی گئی ، مقامی ایس ایچ او کا کرپٹ ماضی میں عوام نے کھول کر سامنے رکھ دیا کہ وہ کس طرح رشوت ستانی کے جرم میں معطل ہوا پھر اچانک ترقی کے ساتھ بحال ہو گیا۔
دوسرا اہم دائرہ اس ضمن میں ہونے والے مباحث کے درمیان تھا وہ یہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے کے پیچھے معاشرے میں پھیلائی گئی جنسی بے راہ روی، میڈیا کی شتر بے مہار آزادی ہے اس لیے جب تک اس پر قابو نہیں پایا جائے گا معاشرے میں ایسے جنسی درندوں سے زینبوں کو نہیں بچایا جا سکے گا۔اس مباحثکے دائرے میں الیکٹرانک میڈیا کو خوب لتاڑا گیا ، چونکہ الیکٹرانک میڈیا نے اس ایشو کو اپنی ریٹنگ کے لیے اٹھایا ہوا تھا اس لیے سوشل میڈیا پر سمجھدار افراد نے اس کو بھانپ لیا اور توپوں کا رُخ اُن کی جانب رکھا ۔ زینب کے کیس میں ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی جس میں وہ ایک شخص کا ہاتھ پکڑے بڑے اطمینان سے جا رہی ہے ، یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ شخص کوئی ایسا نا معلوم نہیں تھا جس کا ہاتھ پکڑ کر بچی اس طرح جائے ، تو یقینا و ہ کوئی جاننے والا ہی ہوگا ،چنانچہ بچوں کو قریبی رشتہ داروں سے بھی محفوظ رکھنے کا ایک حساس موضوع بھی میدان میں اترا ، اسلام آباد سے طارق حبیب نے نہایت سختی سے محاکمہ کرتے ہوئے اپنا احساس فیس بک پر منتقل کیا جسے خاصی پذیرائی ملی ’’آج خواتین محرم رشتوں سے بھی محفوظ نہیں، اسلئے خواتین کو محتاط رہنا چاہئے۔معصوم زینب کے درندگی کا شکار ہونے کے بعدسانحہ پر لکھنے والے اس نقطے کو بھی استعمال کررہے ہیں۔جس کا اس سانحے سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔یعنی اب محرم رشتوں کو ہدف بنا لیا گیاہے۔اس سانحہ کے تناظرمیںمحرم رشتوں کو ہدف بنانے والے یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ زینب کے انسانیت سوز قتل پر آواز اٹھانے والیبھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔وہ جو زینب کے جنازے میں شرکت کے بعد اپنا جنازہ پڑھوا بیٹھے، وہ بھی اِسی تہذیب کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔جس کا درس ہے کہ مائیں ،بیٹیاں ،بہنیں ،سانجھی ہوتی ہیں۔یہی درس انھیں احتجاج کے میدان میں لایا،وقت کے فرعونوں کے سامنے، چلتی گولیوں میں انصاف مانگتے رہے۔محرم تھے کیا زینب کے؟ نہیں۔ بلکہ مائوں بیٹیوں بہنوں والے تھے غیور تھے، جانتے تھے کہ مائیں بہنیں سانجھی ہوتی ہے۔معاشرے کی غلاظت سے جنم لینے والے، بدکرداروں کے عمل کو جواز بنا کر،محرم رشتوں کو ہدف بناناکام توآسان ہے،مگرمغرب کی پیروی میںجس خاندانی نظام کو نقصان پہنچا چکے ہواب محرم رشتوں پر حملے کرکے اس کے ا گلے مرحلے کو آسان بنانے میں مددگار تو نہ بنو، مائوں ،بہنوں ،بیٹیوں کو جن رشتوں پر مان ہے، اِن سے متنفر تو نہ کرو،احتیاط کے نام پر باپ ،بھائی ،بیٹے کونظروں سے تو نہ گرائو۔جن کیسز کی تم بات کرتے ہو،کتنے کیسز ہوئے ہونگے ایسے؟مگر جو تشہیر ، جس طرح سے تم کررہے ہو نا وہ ان محرم رشتوں سے اعتماد ختم کردیگااور شاید اس کا ازالہ بھی ممکن نہ ہوسکے۔سوسائٹی جس سطح پر آج ہے۔اس میں سب کا حصہ ہے یہ جو ظلم دیکھ کے بھی شرافت کے نام پر خاموش رہتے ہیں ناان کا زیادہ حصہ ہے۔ یہ جو معاشرے میں فساد نہ پیدا ہوجائے کے نام پر، ظالم کا ہاتھ توڑدینے کی سکت رکھنے کے باوجود چپ رہتے ہیں نا۔یہ ہیں اصل ذمہ دار سوسائٹی میں بگاڑ کے۔فحاشی و عریانی دیکھ کر بھی جن کی غیرت اسے ختم کرنے کو نہیں جاگتی اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ اس سے کیا ہوتا ہے، اصل گندگی تو اندر ہوتی ہے ۔یہ بے غیرت ہی اصل ناسور ہیں اس معاشرے کا۔سنو یہ جو اقدار بچ گئی ہیں ناں،انھیں سنبھال لو،اگر مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں بھی تیری میری میں تقسیم ہوگئیں۔یا اپنے محرموں سے بدگمان ہوگئیں نا تو کیا حال ہوگا۔ اِسے صرف چشم تصور میں لانے سے ہی کسی غیرت مند انسان کی روح کانپ جائے گی۔‘‘اسی طرح ایک جانب یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ زینب کے ساتھ جو ہوا وہ تقدیر کا معاملہ تھا ، ایشو نہ بنایا جائے ، والدین پر کیا گزرے گی ؟وغیرہ وغیرہ۔اس پر بھی خاصے بھر پور جواب دیئے گئے اور اس جانب ایشو اٹھایا گیا کہ اسلامی سزائیں یا سر عام پھانسی اور سکت ترین سزائیں اگر دی جائیں گی تو لوگ کئی بار سوچیں گے ۔
اسی موقع کو استعمال کرتے ہوئے ایک مخصوص لابی جو عرصہ دراز سے پاکستان میں اسکول سطح پر بچوں کو جنسی تعلیم یا اپنے آپ کو جنسی حملہ سے تحفظ دینے کے حوالے تعلیم دینے کے ایجنڈے پر کار فرما ہے اُسے پھر ملکی الیکٹرانک میڈیا نے جگہ دی اور انہوں نے اپنے ایجنڈے کو موضوع بحث بنایاکہ بچوں کو جنسی تعلیم ، یا اپنے آپ کو بچاؤ کی سمجھ بوجھ دینا ضروری ہے ۔ویسے تو یہ خود ایک طویل موضوع ہے ، اس ضمن میں بھارت کے ایک مشہور ٹی وی اسٹار پلس کے شو (سچائی کی جیت) ستیے میو جیئتے میں اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کے کلپس بھی خاصے وائرل رہے ۔بہر حال احسان کوہاٹی کراچی میں ایک سینئر اور معتبر صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں انہوں نے اس موضوع پر اپنی وال پر یہ احساسات قلمبند کیے کہ ’’یاد ہے کہ عصمتیں لوٹنے والا کوئی مجرم عدالتوں سے نشان عبرت بنا ہو؟معاشرے کا شیرازہ قانون اور عدل کے دو ہاتھوں میں ہوتا ہے قانون وہ سرحد ہے جسے عبور کرنے والا سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے اور عدل اس سزا کا فیصلہ کرتا ہے ہمارے یہاں قانون کتابوں میں اور عدل وکیلوں کی جرح میں قید ہے یہ قید ختم ہو تو پھر قصور کی کچرہ کنڈی میں کسی زینب کا لاشہ نہ ہوگا۔شہزاد رائے نے کراچی پریس کلب میں نیوزکانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں میں جنسی آگہی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ بچے بچیاں اپنا دھیان رکھ سکیں۔شہزاد رائے کے ساتھ متنازعہ اور بڑی حد تک بدنام پروگرام ” الجھن سلجھن” کی وہ بولڈ میزبان حنا خواجہ بھی تھیں جن کے عجیب طرح کے سوالات نے محرم رشتوں کے تقدس پر سوالیہ نشان لگا دیئے تھے مجھے تو ایک دوست سے یہ بھی پتہ چلا کہ موصوفہ جنسی خود لذتی پر بھی پروگرام کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن اس سے پہلے ہی “دقیانوسی” لوگوں کے شدید ردعمل نے یہ پروگرام بند کروادیا۔اب یہ شہزاد رائے کے ساتھ جنسی تعلیم کے مشن پر ہیں۔شہزاد کا کہنا تھا کہ ہم نے کراچی کے ایک اسکول میں جنسی تعلیم کا آغاز کیا تھا جسے لوگوں نے بند کروادیا ان کا کہنا تھا کہ بچیوں بچوں کو اچھے اور برے لمس کا پتہ ہونا چاہئے۔یہی میں بھی کہتا ہوں بس فرق یہ ہے کہ مغرب زدہ جنسی تعلیم میں جنسی درندگی سے کم اور محفوظ جنسی اختلاط کے بارے میں زیادہ بتایا جاتا ہے فوکس یہ ہوتا ہے کہ جنسی اختلاط کی صورت میں حمل سے کیسے بچا جائے پیچدگیوں سے کیسے دور رہا جائے کنڈوم کس طرح استعمال کئے جائیں۔ماں سے زیادہ اولاد سے قریب صرف اللہ کیذات ہی ہوتی ہے اس معاملے میں ماں سے اچھی ٹیچر کون ہو سکتی ہے سو یہ کام ماں ہی کو کرنے دیا جائے اور وہ کرتی بھی ہیں یہ جو بچیوں پر ٹھیک سے دوپٹہ لینے، مناسب انداز میں بیٹھنے کی تلقین اور ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے یہ ٹیچنگ ہی تو ہے ۔ہونا یہ چاہئے کہ مائیں بچوں بچیوں کو مناسب انداز میں سمجھائیں اسکولوں کالجوں کے سیکس ایجوکیشن کے لیکچر الجھنیں سلجھائیں گے نہیں بڑھا دیں گے۔‘‘

حصہ