زمین پر اشیاء کے چکّرات

804

قاضی مظہر الدین طارق
زمین پر لاکھوں مادّے اور مرکّبات ہیں، ان میں زیادہ تر اپنی کیمیا تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ لوہا ایک مضبوط دھات ہے لیکن ہوا اور پانی سے وہ جلد ہی آئرن آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کو زنگ لگ جاتا ہے۔ پھر یہ فطری طور پر واپس لوہے میں تبدیل نہیں ہوتا۔ مگربہت سی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کو خالقِ ارض و سماء نے استعمال کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔
آئیے ان میں سے کچھ کی تفصیل دیکھتے ہیں۔
آکسیجن اور CO2کا چکّر(Cycle):
ہوا میں جو آکسیجن(O2) اور کاربن ڈائی آکسائڈ (CO2) ہے، اس کا سلسلہ بھی ایسا قائم ہے کہ آکسیجن ہوائی غلاف میں اوسطاً اکیس فیصد پر قائم رہتی ہے،21 فیصد سے بہت زیادہ کمی یا اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کا نظام یوں قائم ہے کہ نباتات سورج کی توانائی کی مدد سے کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کے ملاپ سے نشاستے (Carbohydrates) بناتے ہیں، اور اس عمل کے نتیجے میں آکسیجن آزاد ہوکر ہوا میں شامل ہوجاتی ہے، اس طرح فضا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ ٹوٹ کر کاربن اور آکسیجن میں تقسیم ہوتی جاتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں حیوانات، انسان اور خود نباتات (رات میں) آکسیجن جذب کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کر تے ہیں، ان دونوں گیسوںکاایک خاص تناسب قائم ہے اور یہ تناسب مسلسل اور مستقل قائم ہے۔ اس تناسب کو قائم رکھنے کے لیے نباتات و حیوانات کی افزائش پر مستقل خاص نظر اور انتہائی باریک بین تحسیب و تخمین پر مسلسل و مستقل نظر رکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ نباتات و حیوانات کی ایک ایک سانس کا مکمل اور صحیح حساب کتاب مستقلاً کیا جاتا رہے، پھر یہ حساب کتاب تناسب کے بگڑ جانے کے بعد نہیں ہوتا کیونکہ اس تناسب کو درست کرنے کے لیے ایک عمر چاہیے، اس لیے یہ حساب کتاب اِن سب کی پیدائش سے بہت پہلے کرنا ضروری ہوتا ہے، پہلے سے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ بڑے ہوکر یہ حیوانات و نباتات فضا سے کیا استعمال کریں گے اور کیا اس کو دیں گے۔ اس حساب کتاب میں ذرا سی غلطی اس تناسب کو اس حد تک بگاڑ سکتی ہے کہ اس زمین پر حیات کا قائم رہنا مشکل ہوجائے۔ پوری دنیا کے پودوں اور درختوںکے ہر پتّے اور ہر جانور کی سانسوں کا ان کی پیدائش سے پہلے ہی حساب کرنے کے لیے کتنی بڑی طاقت والی، ساری حکمتیں جاننے والی اور کیسے باریک بین حساب کرنے والی مکمل باخبر ہستی کی ضرورت ہے، کیا خودبخود چلنے والے کسی اندھے اِنتظام کے ذریعے یہ کام ہوسکتا ہے؟ اس انتظام کا ایک اور پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ زمین پر آگ جلتی ہے اور کبھی کبھی جنگلوں میں بہت بڑے پیمانے پر آگ لگ جاتی ہے، اس آگ کو جلنے کے لیے بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی آگ لگتی ہے، زمین کی فضا میں سے آکسیجن کی اچھی خاصی مقدار خرچ ہوکر کم ہوجاتی ہے، اس کمی کو بھی ایک اَن دیکھی طاقت فوری طور پر پورا کردیتی ہے، یا اگر بگاڑ پیدا ہو تو اس کے پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہوتے ہی اس کو درست کرنے کے لیے ہی یہ طاقت اس آگ کا اہتمام کرتی ہے۔ انسان کی اپنی کارستانیوں سے بموں کے دھماکوں اور فیکٹریوں میں جلنے والے ایندھن میں بھی آکسیجن استعمال ہوتی ہے، اس کمی کو بھی یہی طاقت فوری طور پر پورا کردیتی ہے(اگرچہ اس کا حجم فطرت کے مقابلے میں بہت کم ہے)۔
جب اس طاقت کے کاموں کے اتنے بڑے بڑے مظاہر نظر آرہے ہیں تو کیا اس کو ماننا جرم ٹھیرے گا؟
نائٹروجن کا چکّر (Nitrogen cycle):
ہوا میں نائٹروجن کی بہت مقدار ہے، اس میں سے بہت کم مقدار زمین پر بارش کے پانی میں حل ہوکر آتی ہے، مگر یہ بھی حیات کے لیے نہایت ضروری عنصر ہے۔ اس سے لحمیات (Protiens) بنتے ہیں اور اس کو بنانے کے لیے پہلے امینو ترشوں (Amino acids) کے بیس مختلف پیچیدہ سالمے بنتے ہیں، ایسے بہت سارے ترشوں کی خاص ترتیب سے مختلف اقسام کے لحمیات بنائے جاتے ہیں جو زندگی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ پھر جب ان نباتات و حیوانات کی موت واقع ہوتی ہے تو بہت سے تعاملات (Reactions) کے ذریعے، جو بہت سے جان دار بیکٹریا اور فنجائی کی مدد سے کیے جاتے ہیں، یہ نائٹروجن پھر سے ہوا میں شامل ہوجاتی ہے۔ جانور جو کچھ کھاتے ہیں ان کے فضلے سے بھی نائٹروجن زمین اور فضا میں منتقل ہوتی رہتی ہے، اور ہوائی غلاف میں نائٹروجن کا تناسب قائم رہتا ہے۔
پھر وہی بات کہ کسی بہت بڑی طاقت اور قدرت والے باخبر و باریک بین حساب دان کے نازک حساب کتاب کیے بغیر یہ تناسب خودبخود کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
جب کائنات کی تخلیق کی ابتدا سے زمین کے وجود میں آنے سے پہلے جو عناصر (Elements) بنے اور جو سالمے (Molecules) زمین کی پیدائش کے دوران تشکیل پائے، تو اسی حساب دان کو معلوم تھا اور اسی نے اس کا صحیح صحیح حساب رکھا ہوا تھا کہ کون کون سا عنصر اور کون کون سا سالمہ کتنی کتنی تعداد میں تیار ہو، اور اس کائنات اور زمین پر ان عناصر اور سالمات کا جو تناسب و توازن قائم ہے وہ بھی زندگی اور حیات کی ضرورت کے عین مطابق قائم رہے۔ جن اشیاء، مادّوں، عناصر اور سالموںکی زمین پر حیات کے لیے زیادہ ضرورت پڑنی ہے وہ زیادہ بنیں، جن کی کم ضرورت ہے وہ کم بنیں۔ اگر زندگی کی ضرورت کے یہ عناصر یا سالمے ضرورت سے کم بنے ہوتے تو زمین پر زندگی کی ابتدا ہی نہیں ہوسکتی تھی، یا بعد میں بھی اُن میں کمی بیشی آسکتی تھی جس کے نتیجے میں اس زمین پر زندگی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ ایک چیز جتنی بھی بڑی مقدار میں ہوتی ہے، اگر خرچ ہوتی ہی رہتی تو ایک دن ختم ہوجاتی۔ اس لیے کائنات کے حکیم نے ایسا زبردست انتظام کیا کہ نائٹروجن فضاء سے زمین پر آتی رہے، اپنا کام کرتی رہے، پھر واپس اپنے گھر جاتی رہے۔
تو کیا کسی ذی عقل و ذی شعور حساب دان، طاقت و قوّت، حکمت، صلاحیت، خبر و اختیار رکھنے والے اور پیدا کرنے والے، اور اس کارِ ِحیات کو چلانے والے ’الخالق‘ (The Creator)کا انکار ممکن ہے؟
آبی چکّر(Water Cycle) :
زمین پر بہت پانی ہے۔ جتنا بھی ہے، ایک خاص مقدار میں ہے۔ خزانہ جتنا بھی بڑا ہو، خرچ ہوتا رہے گا تو ایک دن ختم ہوجائے گا، اس لیے رب العالمین نے اس کو مسلسل استعمال میں رکھنے کے لیے اس کا ایک بہترین آبی چکّر بنایا، تاکہ زمین پر پانی کبھی ختم نہ ہو۔
زمین اور سمندر پر بارشوں اور برف باری سے، پھر قطبین اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے پگھلنے کی وجہ سے سمندر کے پانی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور سمندر کی سطح بلند ہونے لگتی ہے، اس کا علیم و حکیم، جاننے والے اور حکمت والے اللہ نے ایسا انتظام کیا ہے کہ سمندر سے پانی گرمی، دھوپ اور روشنی کی وجہ سے مسلسل بخارات بن کر ہوائی کرّے میں اوپر اُٹھ رہا ہے اور بادلوں کی صورت آسمان پر منڈلاتا ہے، پھر ٹھنڈا ہوکربارش، اولے اور برف کی شکل میں دوبارہ زمین پر آتا ہے، پھر یہ پانی کبھی زمین کے اندر جذب ہورہا ہے اور دوسری جگہوں سے چشموں کی شکل میں پھر زمین کے اوپر آرہا ہے۔ جو پانی زمین پر سمندر کی سطح سے بلندی پر برستا ہے وہ پھر بہتا ہوا آخرکار سمندر ہی میں واپس آجاتاہے۔
جتنا پانی سمندر سے بھاپ بن کر کم ہوتا ہے، اتنا ہی بارشوں اور دریائوں کے ذریعے واپس سمندر میں آجاتا ہے، اس کو پانی کا چکّر کہتے ہیں۔ اس چکّر کو کسی چلانے والے نے ہی اس طرح سے چلایا کہ سمندر کی سطح ہمیشہ ایک جیسی برقرار رہتی ہے۔ سمندر نے 70 فیصد جگہ لی ہوئی ہے، خشک خطّوں میں پہاڑ اور میدانی علاقے ہیں، پہاڑوںکی چوٹیوں پر بھی برف ہے، سردیوں کے موسم میں برف کا اضافہ ہوجاتا ہے، مگر گرمیوں میںکچھ برف پگھل بھی جاتی ہے، زمین کے آدھے کرّے میں برف زیادہ ہوتی ہے، تو اُسی وقت آدھے کرّے میں پانی زیادہ۔ برف کے پگھلنے اور بارشوں کا پانی ندی، نالوں اور دریائوں میں بہتا ہوا واپس سمندر میں آجاتا ہے، اس طرح سمندر کی سطح برقرار رہتی ہے، اس طرح سے پانی کا یہ چکّر دوامی ہوجاتا ہے۔
اس طرح زمین پر بسنے والوں کو ان کی ضرورت کا پانی ملتا رہتا ہے اور حیات قائم رہتی ہے۔ ساری دنیا کے سمندر ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہیں،کبھی سمندر کی سطح میں ایک حد سے زیادہ کمی یا زیادتی نہیں ہوتی، ایک خاص حد پر قائم رہتی ہے۔ اگر یہ کام کسی باریک بین اور باخبر حساب دان کے حساب کتاب کے بغیر ہورہا ہوتا تو کبھی بادل زیادہ بنتے اور سمندر کی سطح گر جاتی، اور کبھی زیادہ بارش سے سمندر کی سطح ضرورت سے زیادہ بلند ہوجاتی، جیسے سیلابوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے زمین پانی ہی پانی ہوجاتی ہے، پھر بھی سمندر کی سطح ایک خاص حد سے بلند نہیں ہوتی۔
اس حکیمی انتظام کے بغیر کیا زمین پر حیات قائم رہ سکتی تھی؟
تو کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی اعلیٰ حساب دان ہے جو ہر چیز سے باخبر ہے، سارے علوم سے واقف ہے اور وہ ان سب چیزوں کو حساب کتاب سے اپنے اختیار و قدرت کے ساتھ چلا بھی رہا ہے۔

حصہ