رسا چغتائی …ایک عہد رخصت ہوا

437

خالد معین
روز کی طرح 6 جنوری کی صبح ناشتے کی میز پر تازہ اخبار لے کے بیٹھا تو نظریں غیر ارادی طور پر مرکزی سرخیوںکے بجائے پہلے صفحے کے وسط میں بنے ایک کالمی باکس پر جا ٹکیں، اور اس کی وجہ ایک جانی پہچانی تصویر تھی۔ یہ تصویر حضرتِ رسا چغتائی کی تھی، اور ایک افسردہ کردینے والی خبر کے ساتھ تھی،کہ رسا صاحب رات انتقال کرگئے۔ آنکھیں بے ساختہ بھر آئیں اور دل اُداسی کے بھنور میں کھو گیا۔ اوہ! یہ کیا ہوگیا۔ یہ تو اردو ادب کا بہت بڑا اور ناقابل ِ تلافی نقصان ہے۔ نئے سال کا پہلا بڑا ادبی صدمہ… جانے کیوں اس مصدقہ خبر پر یقین نہ آیا۔ حضرتِ رسا چغتائی نے ابھی چند دن قبل ہی آرٹس کونسل کے عالمی مشاعرے کی صدارت کی تھی۔ اُن کی طبیعت کے بارے میں بھی کوئی ایسی ویسی بات سننے میں نہ آئی تھی۔ پھر نوے سال کے آس پاس کی عمر تک پہنچنے والے رسا صاحب کو دیکھ کے جانے ایسا کیوں لگتا تھا کہ خدا نے اس درویش نما اور غزل کی آبرو رکھنے والے غیر معمولی حساس شاعر کو اپنی خاص رحمت سے نوازا ہوا ہے۔ یہ اسی طرح جیتے رہیں گے، جیسے جیتے آئے ہیں، اور سو برس سے پہلے اس جہان ِ فانی سے رخصت نہیں ہوں گے۔ اس کی ایک خاص وجہ بھی تھی اور وہ یہ کہ اُن سے سات آٹھ سال چھوٹے ادیب اور شاعر یا تو ان سے پہلے رخصت ہوگئے تھے یا صاحب ِ فراش ہیں اور کئی طرح کے امراض میں گھِر کے گھروں تک محدود ہیں، لیکن رسا صاحب نہ تو کسی بڑے مرض میں مبتلا تھے اور نہ اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت عدم توازن کا شکار تھی۔ تاہم ہر آنے والے کو جانا ہے۔ اب کب اور کس وقت، یہ بات خدا ہی جانتا ہے۔ سو رسا صاحب بھی اپنے معمول کی زندگی جیتے ہوئے، چلتے پھرتے، زندگی کے مسائل سے ہمیشہ کی طرح نبرد آزما رہتے ہوئے ایک رات ایسے سوئے کہ اُن کی نیند ابدی نیند سے جاملی۔ ویسے تو وہ اپنی زندگی کے بارے میں پہلے ہی کہہ چکے تھے :
نہ جانے کیوں یہ سانسیں چل رہی ہیں
میں اپنی زندگی تو جی چکا ہوں
لیکن وہ 90سال جیے اور بھرپور طور پر جیے۔ ایسا جیے کہ جینے والے اُن پر رشک کرتے رہے اور جینے سے ڈرنے والے اُنہیں دیکھ دیکھ کے جینے کا حوصلہ پاتے رہے۔ اب یادیں تھیں، آنسو تھے اور گہری اُداسی۔ اچانک موبائل فون کا خیال آیا، فون آن کیا تو کراچی کے تقریباً تمام فعال دوستوں نے حضرتِ رسا چغتائی کے رخصت ہوجانے کے حوالے سے، اُن کی تصاویر کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں دکھ کا اظہار کیا ہوا تھا، اور ایسا محسوس ہوا کہ سوشل میڈیا صرف وقتی تفریح ہی نہیں، کہیں کہیں فاصلوں کو سمیٹتا ہوا ایک برق رفتاراور مؤثر ادبی پلیٹ فارم بھی ہے۔
کل یونہی تیرا تذکرہ نکلا
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا
لوگ کب کب کے آشنا نکلے
وقت کتنا گریز پا نکلا
حضرتِ رسا چغتائی ایک بڑے شاعر ہی نہیں، ایک بڑے انسان بھی تھے۔ وہ عصر ِ حاضر کے ادبی منظرنامے پر پوری اردو دنیا کے محترم اور مسلّم بزرگ شاعر تسلیم کیے جاتے تھے۔ اُن کی محبوبیت سرحدوں کی قید سے ماورا تھی۔ غزل کے عشق نے اُنہیں غزل کا بڑا اور محبوب شاعر بنایا۔ چھوٹی بحروں، سادہ بیانی اور فکر انگیز اسلوب ِ سخن کے باعث وہ پورے عصری منظر پر چھائے ہوئے تھے۔ اُن کے مخصوص لب و لہجے، مصرعے کی کاٹ، مخصوص ڈکشن اور زندگی آمیز موضوعات کے اثرات وسیع پیمانے پر جدید اردو غزل پر مرتب ہوئے ہیں، تاہم یہ اثرات رسا صاحب کی مجموعی شخصیت کے درویشانہ طور، بلا کی کم سخنی اور دھیمے مزاج کی طرح بعض گروپ باز، بلند آہنگ اور شو مین شپ رکھنے والے شعرا کے مقابلے میںعصر ِ حاضر کے نام نہاد ناقدین کی روایتی بے حسی کے سبب اُن تجزیوں سے محروم رہے، جن کی اشد ضرورت تھی۔ تاہم یہ تجزیے آج نہ سہی، آنے والے کل میں آنے والے انصاف پسند ناقد ضرور پیش کریں گے اور رسا صاحب کے اسٹائل، ڈکشن اور موضوعات کو کاپی کرنے والے جعلی لکھاریوں کے چہروں سے شہرت کے وقتی فریب میں لپٹے نقاب بھی اتاریں گے۔ رساصاحب نے کہا:
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
اور وہ زندگی کے تمام عذاب و ثواب سمیٹ کے، تمام گرم و سرد جھیل کے، ایک درویش ِ خوش نوا کی صورت موسم ِ بہار میں سمٹ گئے۔ خزائیں آتی رہیں، جاتی رہیں۔ وہ چپ چاپ آتے جاتے موسموں کا تماشا دیکھتے رہے، زندگی کے نشیب و فراز کے مقابل صف آرا رہے، اور شاعری کے جوہر کو نکھارتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ شاعری شہرت اور دولت کے حصول کا ذریعہ نہیں، یہ تو مکمل خلوت، مکمل توجہ اور مکمل سپردگی مانگتی ہے۔ شاعری میں جھوٹ نہیں چلتا۔ یہ سچ مانگتی ہے، اخلاص مانگتی ہے اور پوری زندگی مانگتی ہے۔ اس عشق میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
1928ء میں بھارت کی معروف ریاست راجستھان کے ضلع سوائی مادھوپور میں پیدا ہونے والے مرزا محتشم بیگ کے آبا و اجداد بھی حرف و بیاں کے پاس دار و نگہباں رہے۔ راجستھان کی روایات کے مطابق مرزا محتشم بیگ کی شادی اٹھارہ اُنیس سال میں کرا دی گئی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اُنہوں نے اپنی طبیعت کے میلان کو مد ِنظر رکھتے ہوئے معلمی کا پیشہ اپنایا۔ ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز جیسے سب پر گزرتے ہیں مرزا پر بھی گزرے ہوں گے، لیکن ازدواجی زندگی کی سختیوں سے آسانی سے گزر جانے میں اپنے وقت کے رند ِ بلا نوش کا کمال کم اور اُن کی شریک ِ مشکلات کا ہنر زیادہ نظر آتا ہے، اور اس کا برملا اعتراف خود رسا صاحب بھی کھلے دل سے کرتے رہے۔ رسا صاحب کے یہاں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ پندرہ سولہ سال قبل بیگم کے انتقال کے بعد دو بیٹے اور ایک بیٹی اُن کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ رسا صاحب اپنے دیگر بچوں کی نگہداشت کے ساتھ عمر کے آخری دور میں اپنی ایک چہیتی نواسی کے ساتھ سانس سے سانس ملائے رہے۔ وہ اُس کے لیے جیتے اور اُس کی ناز برداری میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ اُن کی یہ نواسی پیدایشی نابینا ہے لیکن قدرت نے اس بچی کی آواز میں بلا کی نغمگی اور بلا کا سُریلا پن رکھ دیا ہے۔ وہ غزلیں اور معیاری فلمی گیت گاتی ہے اور خوب گاتی ہے۔ جانے اس بچی نے اپنے نانا کی ناگہاں موت کا کیا اثر لیا ہوگا، اور جانے اب وہ کیسے زندگی کی کھٹن منزلیں طے کرے گی، خدا اُسے اپنی امان میں رکھے اور اُس کے لیے قدم بہ قدم آسانیاں فراہم کرے۔ (آمین)
کراچی کو اپنا مستقر بنانے والے رسا چغتائی نے کراچی کے ابتدائی ادبی ماحول کو بھی دیکھا اور یہاں موجود اُس شان دار ادبی کہکشاں کا بھی حصہ رہے، جو پوری اردو دنیا کے لیے قابل ِ تقلید بھی تھی اور قابل ِ ستایش بھی۔ اسی کراچی میں رسا صاحب کے بہت سے قریبی دوست بنے ہوں گے، لیکن قمر جمیل نے اُنہیں ایک ایسے وقت میں شکار کیا، جب وہ نثری نظم کی تحریک کو عروج پر لے جارہے تھے اور پورے ملک میں اس تحریک کا شہرہ تھا۔ قمر جمیل کی معصومیت آمیز جادو بیانی اور فکر انگیز تخلیقی شخصیت کے اثر سے بچ نکلنا تقریباً ناممکن ہی تھا، وہ ستّر کی دہائی کے نوجوانوں کو تو پہلے ہی متاثر کرچکے تھے، اس کے علاوہ غزل کے ایک اور شان دار شاعر رئیس فروغ کو بھی نثری نظموں پر لگا آئے تھے، پھر رسا چغتائی بھی اپنی اثر انگیز غزل کے ساتھ نثری نظمیں لکھنے لگے، یہ نظمیں کراچی کے معروف جریدے ’سیپ‘ میں شایع ہوتیں اور پوری اردو دنیا میں پھیل جاتیں۔ تاہم شکر ہے کہ رسا صاحب نے نثری نظم کے تجربے میں بہت زیادہ دل چسپی کا علمی اظہار نہیں کیا، جب کہ رئیس فروغ غزل کے ساتھ اپنے مخصوص اسٹائل میں کئی اعلیٰ نثری نظمیں دے گئے۔ کراچی میں گزشتہ تیس برس کے دوران جانے کیا کیا انقلاب آئے اور یہاں کی تہذیبی، سماجی اور ادبی زندگی پر جانے کیا کیا منفی سوچیں قبضہ کیے رہیں۔ ایسے دل شکستہ روز و شب کے درمیان جہاں اور شعرا نے قابل ِ ذکر شہر آشوب لکھے، رسا صاحب نے کہا:
کہو اس شہرِ نا پرساں میں جانی
غزل خوانی کریں یا زندگی
میں بہت دیر سے یاد کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ رسا صاحب سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی۔ اگرچہ سن تو پوری طرح یاد نہیں آرہا، تاہم یہ 1986ء کے بعد کا واقعہ ہے، غزل کے خوب صورت شاعر حسنین جعفری نے مجھے ’’ایک شام، دو شاعر‘‘ کے عنوان سے منائی جانے والی خصوصی شام کی دعوت دی، جو اُس زمانے کی ایک فعال ادبی تنظیم ’کری ایٹو سرکل‘ کے زیر ِاہتمام تھی۔ اس شام میں نے پہلی بار رسا صاحب کو دیکھا، جنہیں میں کچھ عرصے سے ’سیپ‘ میں باقاعدگی سے پڑھ رہا تھا۔ اسی طرح دوسرے باکمال شاعر نگار صہبائی تھے، جو اردو گیت کی جدید روایت کا اہم ترین حصہ ہیں۔ دونوں نے اُس شام گہرا تاثر چھوڑا۔ یوں رسا صاحب سے ایک تعلق بن گیا۔ اس تعلق میں کچھ مزید رنگ تب پیدا ہوئے، جب اُنہیں ایک سرکاری دفتر میں پریشان پایا، اور یوں حسنین جعفری کے حوالے سے رساصاحب سے ذاتی شناسائی کی منزلیں طے ہوئیں۔ وہ بہت شانت اور پُرخلوص آدمی تھے، غیبت اور سازش اُنہیں پسند نہ تھی، وہ ادب کے آدمی تھے اور آدمی بھی خالص۔ کسی شاعر کی عصری مقبولیت کو عوام اور خواص مل کے طے کرتے ہیں اور اُس کی محبوبیت میں اُس کے بعد آنے والی تخلیقی نسلیں اضافہ کرتی ہیں، رسا صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا، وہ خواص میں ہمیشہ مقبول رہے اور اُنہیں بعد کی تخلیقی نسلوں نے محبوبیت اور احترام دونوں سے نوازا، اگرچہ ادب کی اشرافیہ کے لیے اُن میں کوئی خاص کشش نہ تھی، کیوں کہ نہ تو رسا صاحب کوئی بڑے سرکاری آفسیر تھے، نہ کوئی کام یاب کاروباری آدمی، نہ اُن کے پاس بڑی گاڑی تھی اور نہ وہ پل کے اُس پار رہتے تھے۔ وہ تو زندگی بھر گزارے لائق ملازمتیں کرتے رہے اور شاعری پر اپنی پوری قوت اور پوری توجہ صرف کرتے رہے، کورنگی کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہے اور اردو غزل کو بے شمار یادگار اشعار کا تحفہ دے گئے۔ ادب کی اشرافیہ نہ سہی، رساصاحب کو شکیل عادل زادہ، خواجہ رضی حیدر اور اجمل سراج جیسے قدردان ملے، یہ بھی کیا کم ہے! رسا صاحب نے نوجوان نسل کو دل سے سراہا، اُن کی شاعری کی اصلاح کی، اُنہیں تہذیبی اقدار کی پاس داری کا عملی درس دیا، اُنہیں بہتر انسان بننے پر اکسایا، تاہم کسی واعظ اور نصیحت کے زور پر نہیں بلکہ اُنہوں نے یہ کام اپنی شاعری، شخصیت اور زندگی کی تربیت و تہذیب سے لیا۔

حصہ