خوشی اور خوشی کا اظہار

774

حذیفہ عبداللہ
ساجد علی صاحب ایک سرکاری اسکول میں استاد تھے لیکن ایک روایتی استاد نہیں کہ جن کو اپنی صرف تنخواہ سے غرض ہو بچوں کی تعلیم کی فکر نہ ہو بلکہ ساجد علی بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بہت خیال کرتے تھے یہ ہی نہیں بلکہ انہیں اپنی کلاس کے تمام بچوں کی تعلیمی کیفیت کے ساتھ ان کے معاشی حالات اور مسائل سے بخوبی واقف تھے اور ان کے حل کے لیے کوشش کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔
ساجد علی صاحب کے دو صاحبزادے ارشد اور اختر تھے ارشد دسویں جماعت کا طالب علم جبکہ اختر پانچویں جماعت میں تھا ساجد صاحب جب اپنی کلاس کے ہر بچے کی بھرپور نگرانی کرتے تھے تو اپنے بچوں کے معاملات سے کیسے بے خبر ہو سکتے تھے لیکن وہ بے جا سختی اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے نرمی اور گفتگو کے تربیتی فارمولے کے حامی تھی یہ ہی رویہ ان کا اسکول اور گھر میں ایک جیسا تھا۔
ساجد صاحب نے سال کے آخر روز ارشد اور اختر کو چوک پرون ویلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا لیکن اس وقت وہ یہ عمل دیکھتے ہوئے گھر آگئے انہوں نے بچوں کو اپنے کمرے میں بلایا گزشتہ رات کے واقعے کے مطابق پوچھا۔ ارشد تو خاموش رہا اختر بول پڑا ابو دراصل کل نئے سال کے آغاز پر ہم نے خوشی میں بائک میں سائلنسر نکال کر اور ون ویلنگ کا مظاہرہ کیا اس میں ہمارے سب دوست شریک تھے ساجد صاحب نے اختر کی بات پوری توجہ سے سنی اور کہا تو اچھا نئے سال کی آمد پر خوشی منانے کے لیے یہ اہتمام آپ نے کیا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اول تو ہمارے سال کا آغاز محرم سے ہوتا ہے جنوری سے نہیں دوسری بات یہ کہ خوشی کی اس میں کون سی بات ہے زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے ہمیں تو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ گزرے سال میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ بغیر سائلنسر کی موٹر سائیکل چلا کر، فائرنگ کرکے شور شرابا کرکے لوگوں کو بے آرام کرنے اور وقت اور پیسے ضائع کرنے کا کیا فائدہ اسی طرح جشن آزادی پر بھی فائرنگ اور اس قسم کی فضول کاموں کا بھی آزادی سے کیا تعلق… آزادی کی خوشی مناتے ہوئے ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گزرے سال میں ہم نے ملک کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کیے اور آئندہ کس کاموں کو کرنا ہے۔ بیٹا دراصل ہم نے خوشی کے اظہار غلط طریقے سے اپنا لیے ہیں۔ اور اصل سے ہٹ گئے ہیں ہم نے یہ ملک ان گنت قربانیاں دے کر حاصل کیا۔ قائداعظم کی طویل جدوجہد کے پیچھے مقصد کار فرما تھا۔ لیکن قائداعظمؒ کے بعد ہم نے ان کی فکر کو فراموش کردیا اگر ہم سچائی کے ساتھ جائزے لینے والے ہوتے تو قیام پاکستان کے 25 سال بعد ہم تقسیم نہ ہوتے بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمایاں ہوتے۔
ساجد صاحب نے قیام پاکستان کا مقصد بتاتے ہوئے دونوں بھائیوں سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ مذہبی تہوار اور قومی ایام کو اس کی اصل روح کے ساتھ منائیں گے جس میں خوشی کے ساتھ احتساب اور جائزے کا عمل بھی کار فرما ہو۔

حصہ