حذیفہ عبداللہ
ساجد علی صاحب ایک سرکاری اسکول میں استاد تھے لیکن ایک روایتی استاد نہیں کہ جن کو اپنی صرف تنخواہ سے غرض ہو بچوں کی تعلیم کی فکر نہ ہو بلکہ ساجد علی بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بہت خیال کرتے تھے یہ ہی نہیں بلکہ انہیں اپنی کلاس کے تمام بچوں کی تعلیمی کیفیت کے ساتھ ان کے معاشی حالات اور مسائل سے بخوبی واقف تھے اور ان کے حل کے لیے کوشش کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔
ساجد علی صاحب کے دو صاحبزادے ارشد اور اختر تھے ارشد دسویں جماعت کا طالب علم جبکہ اختر پانچویں جماعت میں تھا ساجد صاحب جب اپنی کلاس کے ہر بچے کی بھرپور نگرانی کرتے تھے تو اپنے بچوں کے معاملات سے کیسے بے خبر ہو سکتے تھے لیکن وہ بے جا سختی اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے نرمی اور گفتگو کے تربیتی فارمولے کے حامی تھی یہ ہی رویہ ان کا اسکول اور گھر میں ایک جیسا تھا۔
ساجد صاحب نے سال کے آخر روز ارشد اور اختر کو چوک پرون ویلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا لیکن اس وقت وہ یہ عمل دیکھتے ہوئے گھر آگئے انہوں نے بچوں کو اپنے کمرے میں بلایا گزشتہ رات کے واقعے کے مطابق پوچھا۔ ارشد تو خاموش رہا اختر بول پڑا ابو دراصل کل نئے سال کے آغاز پر ہم نے خوشی میں بائک میں سائلنسر نکال کر اور ون ویلنگ کا مظاہرہ کیا اس میں ہمارے سب دوست شریک تھے ساجد صاحب نے اختر کی بات پوری توجہ سے سنی اور کہا تو اچھا نئے سال کی آمد پر خوشی منانے کے لیے یہ اہتمام آپ نے کیا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اول تو ہمارے سال کا آغاز محرم سے ہوتا ہے جنوری سے نہیں دوسری بات یہ کہ خوشی کی اس میں کون سی بات ہے زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے ہمیں تو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ گزرے سال میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ بغیر سائلنسر کی موٹر سائیکل چلا کر، فائرنگ کرکے شور شرابا کرکے لوگوں کو بے آرام کرنے اور وقت اور پیسے ضائع کرنے کا کیا فائدہ اسی طرح جشن آزادی پر بھی فائرنگ اور اس قسم کی فضول کاموں کا بھی آزادی سے کیا تعلق… آزادی کی خوشی مناتے ہوئے ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ گزرے سال میں ہم نے ملک کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کیے اور آئندہ کس کاموں کو کرنا ہے۔ بیٹا دراصل ہم نے خوشی کے اظہار غلط طریقے سے اپنا لیے ہیں۔ اور اصل سے ہٹ گئے ہیں ہم نے یہ ملک ان گنت قربانیاں دے کر حاصل کیا۔ قائداعظم کی طویل جدوجہد کے پیچھے مقصد کار فرما تھا۔ لیکن قائداعظمؒ کے بعد ہم نے ان کی فکر کو فراموش کردیا اگر ہم سچائی کے ساتھ جائزے لینے والے ہوتے تو قیام پاکستان کے 25 سال بعد ہم تقسیم نہ ہوتے بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمایاں ہوتے۔
ساجد صاحب نے قیام پاکستان کا مقصد بتاتے ہوئے دونوں بھائیوں سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ مذہبی تہوار اور قومی ایام کو اس کی اصل روح کے ساتھ منائیں گے جس میں خوشی کے ساتھ احتساب اور جائزے کا عمل بھی کار فرما ہو۔