حوصلہ افزائی کیجیے

1845

محمد امجد جروار
رات کے وقت گھر میں جگمگاتے بلب اپنے موجد ایڈیسن کی یاد دلاتے ہیں۔ سائنسی موجدین میں ایڈیسن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ایڈیسن کے بچپن کا واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ اسکول میں پڑھا کرتا تھا، ایک دن ایڈیسن کی ٹیچر نے اسے ایک خط دیا کہ یہ اپنی والدہ کو دے دینا۔ ایڈیسن نے گھر پہنچتے ہی وہ خط اپنی والدہ کے حوالے کردیا۔
ماں نے خط کھول کر پڑھا تو اس کے ماتھے پر پریشانی کے آثار نمودار ہوئے، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے اس خط کو بآوازِ پڑھنا شروع کیا:
’’آپ کا بیٹا بہت ذہین ہے، اس کے ذہنی میعار کے مطابق ہمارے پاس اساتذہ نہیں ہیں، آپ اس کے لیے کسی اور استاد کا انتخاب کر کے اسے گھر ہی میں پڑھائیے۔
یہ کہہ کر ایڈیسن کی والدہ ایڈیسن کی بلائیں لینے لگی۔ یہ سن کر ایڈیسن کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی، اس نے اپنے نئے ٹیچر کے ساتھ دل لگا کر پڑھنا شروع کیا، آنے والے حالات نے ایڈیسن کو سائنس دانوں کی صف میں نہ صرف لا کھڑا کیا، بلکہ ہر گھر میں روشنی دیتے یہ بلب ایڈیسن کی یاد دلاتے رہیں گے۔
اس واقعے کے کئی سال بعد، جب ایڈیسن ایک سائنس دان بن چکا اور اس کی والدہ کے انتقال کو اِک زمانہ بیت چکا تھا، ایک دن الماری میں پرانے کاغذات میں کچھ تلاش کررہا تھا، اسے الماری میں موجود کاغذات میں وہی خط نظرآیا، جو کئی سال قبل اس کی ٹیچر نے لکھا تھا، ایڈیسن نے یاد ماضی دہراتے ہوئے اس خط کو کھولا تو اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔
’’آپ کا بچہ انتہائی نالائق ہے، ہم اس بچے کو اپنے اسکول میں مزید نہیں پڑھا سکتے، آپ اس کے لیے گھر ہی پر ایک استاد کا انتخاب کریں۔‘‘
یہ الفاظ پڑھ کر ایڈیسن حیرت کا بت بنا رہ گیا کہ اس ماں نے تو کچھ اور ہی الفاظ کہے تھے، اب اسے سمجھ میں آیا کہ ماں نے میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے وہ باتیں کہیں تھیں۔
ذرا تصور کیجیے کہ اگر ایڈیسن کی والدہ بعینہ وہی الفاظ دہرا دیتیں تو شاید ایڈیسن، آج کا ’’ایڈیسن جو مشہور سائنس دان ہے‘ نہ ہوتا‘‘ ایڈیسن کو سائنسی موجدین کی صف میں لا کھڑا کرنے والے اس ماں کے حوصلہ افزائی پر مشتمل الفاظ تھے۔
بات حوصلہ افزائی کی چلی تو فقہ و اصول فقہ کا ادنی سے ادنیٰ طالب علم بھی ہو وہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے شاگرد رشید امام ابو یوسفؒ سے ضرور واقف ہوگا۔
ابو یوسف کے والد محترم کا انتقال ہو چکا تھا، آپ کی والدہ آپ کو مزدوری کے لیے بھیجتی، راستے میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کا درس لگا کرتا، ابو یوسف اس درس میں بیٹھ جاتے، چند دن تک جب ابو یوسف خالی ہاتھ گھر لوٹے تو والدہ کو تشویش ہوئی، اگلے دن ان کی والدہ چپکے سے ان کے پیچھے ہولی، دیکھا کہ ابو یوسف امام ابو حنیفہ کے درس میں بیٹھ گئے، آپ کی والدہ نے جب یہ منظر دیکھا تو امام ابو حنیفہ سے کہنے لگیں کہ ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں اور آپ اسے سبق پڑھا رہے ہیں، امام ابو حنیفہ کو جب ان کے گھر کے حالات کا پتا چلا تو آپ نے ان کے گھر کے لیے وظیفے کا بندوبست فرمایا اور ابو یوسف کی والدہ کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اسے پڑھنے دیں۔
آنے والے وقت نے امام ابو یوسف کو فقہ حنفی کا امام بنا دیا۔ اگر امام ابو حنیفہ، ابو یوسف کی حوصلہ افزائی نہ فرماتے تو شاید ابو یوسف کو وہ مقام نہ ملتا۔
امام احمد بن حنبل فقہ کے مشہور امام ہیں آپ نے عزیمت کے کئی باب رقم کیے ہیں، مورخین نے لکھا ہے کہ اگر دو اشخاص عزیمت نہ دکھاتے اور اپنے موقف پر نہ ڈٹتے تو دین اسلام کا نقشہ تبدیل ہوجاتا۔ ایک آپؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کا ڈٹ جانا، اور دوسرا قرآن مجید کے کلام اللہ اور مخلوق کے مسئلے پر امام احمد بن حنبل کا ڈٹ جانا۔
آپ کے دور میں ایک مسئلہ شروع ہوا کہ قرآن کلام الٰہی ہے یا مخلوق؟ آپ کا موقف تھا کہ قرآن کلام الٰہی ہے، آپ کے علاوہ اس وقت کے تمام علما بادشاہ وقت کے جبر وستم کے ڈر سے مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے۔ وقت کے بادشاہ نے آپ کو جیل میں ڈلوادیا اور حکم دیا کہ ان کو روزانہ کوڑے مارے جائیں۔ کہا جاتا ہے اگر وہ ایک کوڑا ہاتھی کو بھی لگتا تو بلبلا اٹھتا، لیکن آپ استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔
آپ اپنی استقامت کا واقعہ سناتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ کے دربار میں پیش ہونے جا رہا تھا کہ راستے میں مشہور زمانہ ڈاکو غالباً اس کا نام ابا الہیشم تھا ملا۔ اس کے ہاتھ بھی چوری کے جرم میں کاٹے جا چکے تھے۔
اس نے امام احمد بن حنبلؒ کو دیکھا تو کہنے لگا کہ آپ احمد ہیں فرمایا جی ہاں۔ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ تنہے تنہا اس متوقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور ساتھ ہی کہنے لگا کہ احمد، دیکھو! میں چوری کی جرم میں بارہا گرفتار ہوا ہوں، میرے ہاتھ بھی کٹ چکے لیکن اپنے اس غلط کام پر ڈٹا ہوا ہوں۔
اے احمد! آپ تو حق پر ہیں، آپ اپنے متوقف پر ڈٹ جائیے۔
امام احمد بن حنبل اکثر اس کے لیے یہ دعا فرماتے کہ اے اللہ! اباالہیشم پر رحم فرما، اور ساتھ ہی فرماتے کہ مجھے استقامت کا ایک بڑا درس اباالہیشم نے دیا۔ حوصلہ افزائی کے ان الفاظ نے احمد بن حنبل کو جبر و ستم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔
حوصلہ افزائی کا عمل صرف دنیاوی طور پر قابل تعریف ہی نہیں بلکہ شریعت مطہرہ میں ہے اس عمل کی مثالیں جابجا نظر آتی ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی تعریف فرمائی، آپؐ نے قوم کے چند افراد کو بلا کر پوچھا کہ تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم طہارت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں جا بجا ایسی آیات ملتی ہیں جن میں صحابہ کرام کی قربانیوں، اعمال و اخلاق کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جب تمام مال دین اسلام کی خاطر آپ کے قدموں میں لا کر رکھ دیا اور خود ٹاٹ کا لباس پہن لیا تو اللہ نے حضرت ابو بکر کی اس قربانی کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انہیں عرش سے سلام بھیجے۔
ہمارے محبوب آقا سیدنا محمدؐ کا معمول تھا کہ آپ حوصلہ افزائی فرمایا کرتے۔ ایک مرتبہ کسی نے فاقے کی شکایت کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی، آپؐ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا چیز ہے، آپ نے اس کے پاس جو چیز موجود تھی انہیں فروخت فرما کر اسے کلہاڑی اور رسی خرید کر دی اور خود ہی اس میں لکڑی کا دستہ لگا کر فرمایا کہ جائو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں فروخت کرو۔ چند دنوں بعد آپ نے اس کی حالت دریافت فرماتی تو وہ خوشحال ہو گیا تھا۔
ایک مرتبہ عید کی نماز کے بعد آپؐ لوگوں سے مل رہے تھے کہ ایک شخص کے ہاتھوں میں آپ نے سختی محسوس کی۔ پوچھا کہ تمہارے ہاتھ اس قدر سخت کیوں ہیں؟ اس شخص نے کہا کہ یارسول اللہ مزدوری کرتا ہوں، آپ نے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر فرمایا کہ لوگو! مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔ رحمت دو عالم کا ایک مزدور کی ہتھیلیوں کا بوسہ دینا حوصلہ افزائی ہی تو تھا۔
میدان جہاد سجا ہے، سعد بن ابی وقاصؓ کفار پر تیر چلا رہے ہیں، آپؐ نے سعد بن ابی وقاصؓ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اے سعد! میرے ماں باپ تجھ پر قربان کفار پر ٹھیک ٹھیک تیر چلائو۔ آپؐ نے یہ جملہ صرف ایک ہی صحابی سے فرمایا اور یہ سعادت سیدنا سعدؓ کے حصے میں آئی۔
حوصلہ افزائی ایک ایسا عمل ہے جو کسی کی زندگی کی کایہ پلٹ دیتا ہے۔ دنیا میں ہر کامیاب شخص یا کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی کی حوصلہ افزائی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں حوصلہ افزائی کا فقدان ہے، ایسے افراد جو ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں ان کا شمار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
حوصلہ شکنی ہمارے معاشرے کا شیوہ بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر دفاتر تک، کسی بھی شعبۂ زندگی کو دیکھ لیجیے، خود سے زیادہ تعلیمی قابلیت یا زیادہ باصلاحیت کی حوصلہ افزائی تو دور کی بات ہے انہیں برداشت تک نہیں کیا جاتا۔
باصلاحیت افراد کی رہنمائی کے بجائے ان کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، نئے جذبات، نئے عزم اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد اپنے ارادوں کو ٹوٹتا دیکھتے ہیں تو ان کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا مقصد ان کی ضرورت بن کر رہ جاتا ہے۔
جانے، انجانے میں ہم کتنے ہی لوگوں کی حوصلہ شکنی کر بیٹھتے ہیں کہ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا، یوں تو حوصلہ شکنی کی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں جا بجا بکھری پڑی ہیں لیکن اس کی صرف دو مثالیں جن کا مشاہدہ راقم السطور نے خود کیا آپ کے سامنے رکھتا چلوں۔
ایک بھری مسجد میں خوبصورت نوجوان پہلی مرتبہ نماز پڑھنے کے لیے آیا، شوق نماز میں صفِ اول میں آکر بیٹھا، نماز مکمل ہوئی تو ایک نمازی اسے بآواز بلند ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’’بھائی ٹوپی پہن کر نماز پڑھا کرو، ایک دوسرے نے بھی اس کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ’’ہاں بھائی میں نے سنا ہے کہ ٹوپی کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘
راقم السطور یہ منظر دیکھ کر کف افسوس ہی ملتا رہا، یقین جانیے وہ نوجوان پھر دوبارہ مسجد میں نظر نہ آیا۔
راقم کا تعلق ایک اسکول سے بھی ہے چند روز قبل چھٹی کے وقت اسکول کے دروازے پر چند بچے اپنے والدین کا انتظار کر رہے تھے، راقم ان کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ایک معصوم سا بچہ ہاتھ میں ڈرائینگ شیٹ پکڑے کھڑا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے ہیں۔ میں اس بچے کے پاس رک گیا اور پوچھا کہ بیٹا! آپ کیوں پریشان ہو، میری محبت بھری بات سنتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تو برابر میں موجود ایک بچی جو اسی کی ہم کلاس تھی کہنے لگی کہ ٹیچر نے ہر بچے سے کہا تھا کہ ایک پینٹنگ بنا کر لائیں اس نے بھی بنائی لیکن ٹیچر نے اس کی پینٹنگ کلاس میں نہیں لگائی۔
میں نے اس بچے سے شیٹ لیکر دیکھی، 5 سال کا بچہ اور اس کی شیٹ پر بنی چند پھولوں کی تصاویر تھیں، میں نے کہا بیٹا! آپ کی بنائی تصویر بہت ہی خوبصورت ہے لائو میں ٹیچر سے کہہ دیتا ہوں کہ وہ آپ کی بنائی ہوئی تصویر کلاس میں ضرور لگائیں گی۔ اور ساتھ ہی اس ٹیچر سے سفارش بھی کر دی۔
میں نے یہ کام یہی سوچ کر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ میرے حوصلہ افزائی کے یہ الفاظ شاید اس کے مددگار ثابت ہوں۔
ہمارے معاشرے میں موجود باصلاحیت افراد موجود ہیں، لیکن حوصلہ افزائی کے فقدان نے ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیا ہے۔ ’’ہر طرف بکھری ہے داستان میری‘‘ کے مصداق جا بجا ایسے افراد ملتے ہیں جو معاشرے میں بہتری کے لیے کردار ادا کرنا چاہتے تھے، لیکن مناسب پلیٹ فارم اور حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باعث آگے نہ بڑھ سکے۔
مشہور ہے کہ کسی پرفیسر نے ایک وائٹ بورڈ پر گول دائرہ بناکر اس میں اک نقطہ لگا دیا، اور سامعین سے پوچھا کہ آپ کو اس گول دائرے میں کیا نظر آرہا ہے؟ سب نے بیک آواز جواب دیا کہ ایک نقطہ۔
پرفیسر صاحب مسکرا کر کہنے لگے کہ حیرت ہے کہ گول دائرہ میں موجود اس قدر بڑا سفید حصہ کسی کو نظر نہیں آیا، لیکن ایک نقطہ سب کو نظر آگیا۔
یقین جانیے! آج ہماری کیفیت یہی ہے کہ کسی انسان میں موجود سینکڑوں صلاحیتیں ہونے کے باوجود ہمیں اس کی ایک غلطی ضرور نظر آتی ہے۔
ہم ان سطور کے ذریعے کسی بھی شعبۂ زندگی کے ہر باصلاحیت افراد، بالخصوص تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد سے رستہ بستہ عرض کریں گے کہ خدارا۔
ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیجیے یہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، ان کی غلطیوں کی اصلاح کیجیے، ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں ملک کا معمار بنائیں۔ ان کی مثال ان پھتروں کی طرح ہے جنہیں تراش کر ہی، ہیرا بنایا جا سکتا ہے۔
ہم میں سے ہر شخص ہر اچھی چیز کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھ لے تو چراغ سے چراغ جلیں گے۔ اور ہر ایک کو حوصلہ افزائی کا درس دیں، باصلاحیت نوجوان منتظر ہیں حوصلہ افزائی کے… ہمیں اس کسان سے سبق سیکھنا چاہیے جو کھیت میں دانے ڈالتا ہوا آگے ہی بڑھتا رہتا ہے وہ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا کہ اناج کے یہ دانے کہاں گرے ہیں، ان سے کونپل پھوٹے گی بھی یا نہیں لیکن وہ کسان ان باتوں سے بے نیاز آگے بڑھتا ہی رہتا ہے۔
اسی طرح ہم بھی نتائج سے بے پروا ہو کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں۔ جیسے کسان کے ڈالے ہوئے اناج کا ہر دانہ بیکار نہیں جاتا اسی طرح ہماری حوصلہ افزائی بھی بیکار نہیں جائے گی، کچھ نہ کچھ فصل بہاراں بن کر ضرور سر سبز و شاداب ہو گی۔
اقبال کا یہ شعر ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی

حصہ