جو اس سے نہ ہوسکا ، وہ تو کر!۔

329

فرحت طاہر
1990ء کی ابتدائی سہ ماہی! موسم میں خنکی تھی۔ اپنے کمرے سے ملحق برآمدے میں سیمنٹ کی جالیوں سے باہر جھانکا تو برابر کے گھر میں رہنے والی آنٹی لیموں کی شاخوں میں پولی تھین بیگز کو دھوکر لٹکا رہی تھیں۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے بہن کو آواز دی جو کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں مصروف تھی۔ چونکہ وہ دانتوں کی سرجری کے بعد نقاہت کے باعث بستر پر تھی لہٰذا اسکرین کی بلا شرکتِ غیرے مالک تھی، ورنہ اس کے لیے کم ازکم تین (ہم اس ٹولے میں نہیں) افراد کا جھگڑا لازمی تھا۔
’’اُف کتنی غربت تھی آپ کے پڑوس میں‘‘۔ ہم نے یہ واقعہ آج کے بچوں کو سنانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک اعتراض آیا، اور شاید آپ بھی یہی سوچ رہے ہوں گے کہ شاپرز کی کوئی کمی تو نہیں ہے، پھر اس قدر کفایت (کنجوسی) کی وجہ! غربت؟ جی نہیں! صاحبِ خانہ گریڈ اکیس میں ایک باوقار عہدے پر ملازم اور اس بڑے سے بنگلے میں رہائش کے حق دار تھے، اور گوشت کی تھیلیوں کو دھوکر سُکھانے کے لیے لٹکانے والی خاتون شہر کے سب سے بڑے اسکول میں اعلیٰ درجے کی انگلش ٹیچر۔ تو پھر کیا ماجرا ہے؟ پولی تھین کو دوبارہ استعمال کرنے کی کیا حاجت ہے؟ جی آپ کا اندازہ درست ہے! بچت… مگر صرف روپوں کی نہیں بلکہ…آئیے آپ کو ایک اورمنظر دکھاتے ہیں:
تین پیریڈ تک بچوں کو پڑھاکر اپنے فارغ پیریڈ کی خوشی لیے میں ٹی روم کی طرف بڑھی۔ صاف ستھرے کوریڈور سے گزرنے کے بعد باہر کی طرف جہاں بچوں کے کھیل کی جگہ ہے، درختوں کے نیچے بھی ایک نظم اور ترتیب نظر آئی، ماحول پُرسکون تھا اور کلاسوں سے بچوں کی دھیمی دھیمی آوازیں ایک خاص ردھم پیدا کررہی تھیں۔ طمانیت بھرے اس پیریڈ کے بعد وقفہ تھا جس میں اسکول بچوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ نظم و ضبط کی ذمے داران اساتذہ اور معاون طالبات اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے لگیں جو وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی کے ساتھ ہی ایک نئے انداز میں بدلا اور اساتذہ کے گروپ کے ساتھ میں بھی اپنی کلاس لینے چل پڑی۔ خوش گپیوں میں چلتے چلتے جو نظر پڑی تو سٹی گم ہوگئی۔ اب منظر بدلا ہوا تھا۔ جہاں وقفے سے پہلے محض پھول اور درختوں کی چند پتیاں نظر آئی تھیں، اب ہر قسم کے ریپرز سے اَٹا ہوا تھا۔ سوچا کہ کینٹین والی خاتون کو جاکر بتائوں کہ آج آپ کی کتنی آمدنی ہوئی ہے؟ کتنے بسکٹ، چپس، چاکلیٹ، ویفرز،کولڈ ڈرنک…وغیرہ وغیرہ! سارے ریپرز گننا مشکل تو نہ تھا… ذہن میں خیال آیا کہ چھوٹی کلاسوں میں گنتی کرانے، چیزوں میں فرق، مختلف اشیا کو علیحدہ کرنے کی سرگرمی ان ریپرز سے کتنی اچھی طرح کروائی جاسکتی ہے۔ مگر جس طرح وہ گیلے کوڑے سے لتھڑی ہوئی تھی یہ بات ناممکن تھی، اور مزید یہ کہ صفائی پر مامور خواتین کنگ سائز جھاڑوئوں کے ذریعے ہر قسم کے کوڑے کو کوڑے دان میں دھکیل رہی تھیں۔ یہ بات بس سوچی ہی جا سکتی تھی۔ اسکول میں موجود تمام کوڑے دان اُبل اُبل کر اس ماحول کو آلودہ کررہے تھے جو محض گھنٹہ بھر پہلے فطرت سے ہم آہنگ تھا۔
اس منظر نے ایک تحریک پیدا کی، اور جیسے ہی اسکول اسمبلی کی باری آئی ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کی حدیث کو تھیم بناکر کچھ بریفنگ رکھی اور ساتھ ساتھ بچوں کو کچھ پراجیکٹ بھی دیے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ جو بھی چیز کھائیں اس کے ریپر کو تہ کرکے ربر بینڈ سے باندھتے چلے جائیں اور ہفتے بھر بعد ایک جگہ جمع کردیں تو یہ ڈھیر ردی میں بک جائے گا۔ ایک مشہور این جی او کا تھیم ہے ’’ردی کو سونے میں بدلیں‘‘۔
ایک تقویت بخش خیال تھا جو آپ کی داد کا مستحق ٹھیرتا… مگر یہ منصوبہ ناکام ہوا، کہ ایک تو اسکول انتظامیہ کے سامنے والدین کی شکایات آنے کا خدشہ (ہم بچوں کو اسکول پڑھنے بھیجتے ہیں، کوڑا چننے نہیں)، دوسرے صفائی پر مامور خواتین کی کام چوری کا خدشہ… اور اس سے بڑھ کر اساتذہ کا عدم تعاون ’’ہونہہ! ہم تنخواہ پڑھانے کی لیتے ہیں، ماحول کی نگرانی کی نہیں‘‘۔ دلچسپ بات کہ یہ وہی ٹیچرز تھیں جو بچوں کو سائنس کے مضمون میں ماحول پر سبق پڑھاتے ہوئے تین الفاظ رٹوا رہی تھیں۔ کون سے الفاظ؟ اس کے لیے آپ کو مکمل مضمون پڑھنا پڑے گا۔
معزز قارئین! عمومی گھروں میں جہاں آج کا اخبار ڈھونڈے سے نہیں ملتا ہماری یادداشت میں وہاں کچھ گھر ایسے بھی تھے جہاں ردی اخبار مہینوں نہیں بلکہ برسوں کی ترتیب سے مل جاتے تھے (ہم بھی کچھ ایسے افراد کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر گھر میں ردی اخبار کو ترتیب سے جمع کرنے پر سننا پڑتا ہے ’’ہوں…! ردی بھی سنبھالتے رہیں اب ہم!‘‘ منہ سے چاہے نہ بولیں مگر رویہ وہی ہے جو اسکول میں تھا)، ماحول کی ترتیب کچھ فطری طور پر طبیعت میں موجود تھی، کچھ افراد کی قربت اور تعلق (پڑوس ہو یا ساتھی) اور سب سے بڑھ کر والد محترم کی منظم شخصیت کا عکس کہ محلے بھر کو کسی چیز کی تلاش ہوتی تو ملک صاحب کی دراز سے ضرور دستیاب ہوجاتی خواہ قینچی ہو یا اسٹیپلرز، ان کا مقولہ تھا کہ چیزوں کو ایسے رکھو کہ اندھیرے میں بھی جگہ پر مل جائیں۔ ایک نامور شخصیت مسز نسیمہ ترمذی ’’اللہ معاف کرے‘‘ کے نام سے جنگ میں کالم لکھا کرتی تھیں۔ وہ سبھی نے پڑھے ہوں گے اور سر دھنا ہوگا، مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں ردی کاغذکے ٹکڑوںکو بطور رائٹنگ پیڈ استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا، اور اپنایا بھی ہے کہ ہماری پرائمری اسکول پرنسپل مسز شاہ ہمیں کاغذ پھاڑتے دیکھ کر آگ بگولا ہوجاتی تھیں (مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا ہے۔ اب ہمیں کاغذ نہیں ملے گا)۔ رقیہ آنٹی مرحومہ بے کار گتے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھتی تھیں اور کھانا پکانے کے دوران بار بار نئی ماچس جلانے کے بجائے انہیں استعمال کرتی تھیں۔ نہ جلی ہوئی ماچس کی تیلیوں کا ڈھیر نظر آتا، نہ ہی… جی ہاں! ماچس ہو یا کاغذ، دونوں درخت کاٹ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔ انسان اور جانور تو کنزیومر ہیں۔ درخت ہی تو پروڈیوسر ہیں! ماحول کے تحفظ اور غذا کی فراہمی کے ذمے دار! یہی وجہ ہے کہ ہم کاغذی رومال (ٹشو پیپر) انتہائی کفایت سے استعمال کرتے ہیں۔ انہی اثرات کے باعث ماسٹرز کے لیے شعبۂ ماحولیات کا انتخاب کیا۔ آج کا برننگ ٹاپک برسوں پہلے خاصا نامانوس سا لگتا تھا۔آئیے آپ کو تین عشرے قبل کی اپنی کلاس میں لیے چلتے ہیں۔
سالڈ ویسٹ پر لیکچر سننے کے بعد ہم سب اگلی کلاس کے منتظر تھے۔ ایک دم کلاس فیلو صباحت کے ہسٹریائی انداز میں چیخنے پر ہم سب متوجہ ہوئے۔ ’’اُف! اس حساب سے اگر زمین پر کوڑا کرکٹ بڑھتا رہا تو بیس سال بعد ہماری اگلی نسلیں کہاں ہوں گی؟ ہم ان کے لیے کیسا ماحول چھوڑ رہے ہیں؟ ہم کہاں ہوں گے…؟‘‘
’’کہیں نہیں! ہمextinct (ناپید) ہوچکے ہوں گے یا پھر endanger species (معدومیت کے خطرات سے دوچار نسل) بن چکے ہوں گے …‘‘ بات قہقہوں اور مذاق میں اڑادی گئی، مگر اس کا خوف زدہ چہرہ آج بھی نظروں میں ہے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں وہ کہاں ہوگی؟ کیا کررہی ہوگی؟ کہیں ناپید تو نہیں ہوگئی بے چاری! تلمیز فاطمہ کا ذکر بھی اس ضمن میں ناگزیر ہے جس کے ساتھ فکری اور علمی بحثوں کے درمیان مادی ترقی کے حوالے سے پولی تھین بیگز کے متبادل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار ہوتا تھا۔ سوچوں کے بھنور میں اپنے کزن کا چہرہ ابھرتا ہے جو شپ سے واپسی پر دوستوں اور رشتے داروں کے اپنے گھر والوں کو بھجوائے گئے سوٹ کیس میں بھرے سفید سفید پیکٹ دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے تھے! کچھ اندازہ لگایا؟ جی ہاں ڈائیپرز! اس کی ایجاد سے پہلے گویا بچے فارغ ہی نہیں ہوتے تھے! یہ ضروریاتِ زندگی میں اس طرح داخل ہوئے کہ اہلِ کراچی کی، ہڑتال کے دوران ہنگامی فہرست میں غذا اور ادویات کے ساتھ پیمپرز کی خریداری بھی لازمی تھی، اور یہ ایک منافع بخش آئٹم بن چکا ہے۔ والدین کی محبت کے اظہار کی علامت! ایک دفعہ گھر میں کام کرنے والی خاتون اپنی بہن کو لائیں جس کی گود میں چھوٹا بچہ تھا۔ معلوم ہوا شوہر سے جھگڑ کر آئی ہیں جو اپنے بچے کا بالکل خیال نہیں رکھتا، اب وہ نوکری کرکے بچے کے لیے سیریلیک اور پیمپرز خریدے گی… یقینا جھگڑے کی وجوہات اور بھی ہوں گی مگر سرفہرست پیمپرز کی فراہمی تھی۔
اچھی طرح یاد ہے یہ 2000ء کی ایک اخباری رپورٹ تھی جس کے مطابق پورے سال میں ایک کروڑ کے ڈائیپرز استعمال ہوئے (آبادی کے تناسب اور استعمال کے فروغ کے بعد آج کے اعداد و شمار کہیں زیادہ ہوش ربا ہوسکتے ہیں)۔ ماحولیات پرکچھ عبور کا دعویٰ رکھنے کے زعم میں ہم نے اُس وقت کی مائوں کو توجہ دلائی تھی مگر منہ کی کھائی تھی کہ سہولت کسے بری لگتی ہے! اس سہولت نے اگلی نسل کے posture میں نمایاں فرق پیدا کردیا ہے۔ چال ڈھال، انداز و اطوار بدل گئے ہیں۔ مغربی ثقافت نے تو ہمارے آدابِ زندگی ہی بدل ڈالے ہیں۔ ایک محترمہ نے بتایا کہ جب ان کے تین سالہ پوتے نے اپنے یورین کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا کہ پانی کہاں سے آیا تو وہ شرم سے پانی پانی ہوگئیں۔ بے چارہ بچہ پہلی دفعہ بغیر پیمپر کے فارغ ہوا۔ یعنی وہ بات کرنا سیکھ گیا مگر طہارت اور پاکی سے ناآشنائی رہی۔ ایک اور توجہ طلب بات! یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ فرشتے پاک ہیں اور وہ ناپاکی کے قریب نہیں آتے۔ گویا پیمپر کے استعمال کے باعث فرشتوں جیسے معصوم بچے فرشتوں کے وجود سے دور رہتے ہیں! خواہ گھر اور بچے کتنے ہی صاف ستھرے نظر آئیں۔
ہماری رہائش ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں مکانات بہت فاصلوں پر تھے، تو جتنا بھی کوڑا ڈالا جاتا، نظر نہ آتا۔ مگر ڈسپوزایبل کلچر جس میں پیمپرز نمایاں ہیں، عام ہوتے ہی زمین کا ہر گوشہ کثافت سے بھر گیا ہے! کوشش کے باوجود اپنے پیچھے اور سامنے کے خالی پلاٹس پر کوڑا کرکٹ ڈالنے والوں سے عاجز ہیں۔ حیرت ہے کہ کچرا اٹھانے والا کبھی چھٹی نہیں کرتا، مگر نہ جانے کون سی نادیدہ مخلوق ہے جو کچرا یہاں ڈال جاتی ہے! آپ میں سے اکثر نے جنگل کی وہ تصویر دیکھی ہوگی جس پر لکھا ہوتا ہے ’’یہاں جانور رہتے ہیں‘‘۔ اور ٹھیک اس کے نیچے کسی تعلیمی ادارے کی دیوار کچرے سے اٹی ہوئی، جس پر لکھا ہوتا ہے ’’یہاں انسان رہتے ہیں!‘‘
میرا خیال ہے کہ سترہ سو سے زائد الفاظ آپ پڑھ چکے ہیں! اب تو آپ کو وہ تین الفاظ بتادینے چاہئیں جو ہم نے اسکول کے ذکر میں کیے تھے! وہ ہیں REDUCE, RECYCLE and REUSE۔ ہماری اب تک کی گفتگو کو بھی آپ ان ہی تین عنوانات کے تحت سمجھ سکتے ہیں۔ REDUCE یعنی کوڑے کرکٹ کی مقدار کم سے کم ہو! RECYCLE یعنی ایک چیز کی شکل بدل کر استعمال کی جائے! REUSE یعنی کسی بھی چیز کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔
مضمون کے آغاز میں پیش کیے گئے واقعات کو ان تین الفاظ کی روشنی میں جانچیں تو ماحول کے تحفظ سے متعلقہ نظر آئیں گے۔ اس کے لیے بے شمار تجاویز، مشورے، نصیحتیں، طریقے لکھے جاسکتے ہیں۔ اگر انٹرنیٹ کھولیں تو اعداد و شمار، ویڈیو اور مضامین کی بھرمار ملے گی، مگر ہم نے اس سے اپنے مضمون کو سجانے کے بجائے محض سرسری طور پر مشاہدات اور تجربات کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ اپنی تحقیقی رپورٹوں اور معلومات کا سہارا بھی نہیں لیا ہے بلکہ انفرادی اور ذاتی تاثرات کے ذریعے بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ اداروں کو اُن کی ذمے داری ادا نہ کرنے پر کوسنا بہت آسان ہے، مگر ہر کام حکومت پر چھوڑنا معقول رویہ نہیں ہے، بلکہ بحیثیت فرد اور متمدن شہری ہم سب کا فریضہ ہے کہ اپنے حصے کا کام ضرور کریں، پھر شکایات کا پٹارا کھولیں۔
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا، وہ تُو کر
معزز قارئین! آپ اس فیچر کو پڑھ کر پسند کریں یا نہ کریں، مگر دونوں صورتوں میں آگے بڑھ کر اپنے لیے کچھ کام سوچیں۔ ماحولیات کے حوالے سے جو کرسکتے ہیں، کررہے ہیں، کرنا چاہتے ہیں ضرور تحریر کریں اور میگزین کو بھیجیں۔ اگلا شمارہ آپ کی تجاویز اور مشوروں سے مرتب کیا جائے گا۔ اور ہاں! اس میں وقت کی کوئی قید نہیں، کیونکہ یہ ایک جاری مضمون ہے جو ہمہ وقت ہم سب کی فکر اور توجہ کا متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں محترمہ مریم وزیر کا ایک سروے اور اس کے نتائج یہاں پیش خدمت ہیں۔آپ اپنی تحاریر اس ای میل ایڈریس پر بھیج سکتے ہیں
magazine4readers@gmail.com اس کے علاوہ واٹس ایپ بھی کرسکتے ہیں ۔

حصہ