جسارت بلاگ کی فکر انگیز جسارت

251

رضوانہ قائد
اور بالآخر جسارت بلاگ کی ’’رائٹرز/بلاگرز ورکشاپ‘‘ منعقد ہوگئی۔ ورکشاپ کی آن لائن عمومی دعوت پر بمشکل بھاگتے دوڑتے، ذمے داریوں سے رخصت لیتے پہنچے تو شرکت کے لحاظ سے انتہائی خاص لگی۔ نئے اور پرانے لکھاریوں کے لیے نہایت اثرانگیز تربیتی علمی نشست تھی۔
’’جسارت بلاگ‘‘ جسارت میڈیا گروپ کی متعارف کردہ بلاگ ویب سائٹ ہے۔ نظریاتی تشخص رکھنے والے لکھاری اس پلیٹ فارم سے معاشرے کی کمزور پڑتی عمارت کی مضبوطی کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ رائٹرز/بلاگرز ورکشاپ بھی ان ہی کوششوں کا حصہ نظر آئی۔ تمام مربین اپنے اپنے میدانِ کار کے ماہر اور نظریاتی سوچ کے حامل تھے۔ سب نے ہی معاشرے کی دُکھتی رگ پر نہ صرف ہاتھ رکھا بلکہ دردمندی کے ساتھ اس کی دوا بھی تجویز کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ میزبانی کے فرائض نوجوان شعلہ بیان مقرر محمد اطیب نے انجام دیئے۔ محمد اکرم قریشی، چیف آپریٹنگ آفیسر روزنامہ جسارت نے ورکشاپ کا تعارف کرواتے ہوئے اسے ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا۔
پہلا پروگرام، رائٹر سلیم اللّٰہ شیخ کا تھا۔ انہوں نے ’’مؤثر تحریر کیسے؟‘‘ کے موضوع پر اثرانگیز تحریر کے لوازمات کی وضاحت کی۔ ان کے مطابق مؤثر تمہید، چھوٹے چھوٹے پیراگراف، متعلقہ مستند معلومات، محاورات و ضرب الامثال اور آسان و معیاری الفاظ کے استعمال سے تحریر کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر اسامہ شفیق، اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ کراچی نے ’’سوشل میڈیا کی ضرورت و اہمیت‘‘ کے عنوان سے ابلاغ کے اسرار و رموز سے آگہی فراہم کی۔ انہوں نے جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کے اس عالمی شاہکار کی حقیقتِ حال کو واضح کیا۔ اُن کے مطابق ابلاغ کی صلاحیت اب اداروں کے ساتھ ساتھ افراد کے ہاتھوں میں بھی آگئی ہے۔ سوشل میڈیا نے اصل حقیقت کو پسِ پردہ رکھ کر سامنے دکھائی دینے والے جھوٹ پر مبنی من پسند سچ کو فروغ دینے کی روایت ڈالی ہے۔ ابلاغی صلاحیت کو جاننا، سمجھنا اور عمل درآمد کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
’ آج‘ ٹی وی سے تعلق رکھنے والے عطا محمد تبسم نے سوشل میڈیا کو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار قرار دیا۔ اُن کے مطابق ماحول کی بہتری کے لیے ہر ایک کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ ان کے منصوبے میں ایک تحریری سرگرمی بھی شامل تھی جو کہ وقت کی کمی کے باعث آئندہ کے لیے مؤخر کردی گئی۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کاشف نصیر نے ’’بلاگ کیا ہے؟ اور پاکستان میں بلاگنگ کی تاریخ‘‘ کے عنوان سے بلاگ کی وضاحت کی۔ انہوں نے پاکستان میں بلاگنگ کی تاریخ کو مرحلہ وار بیان کیا۔
کھانے اور نماز کے وقفے کے بعد بقیہ سیشن شروع ہوا۔
ڈان نیوز کے بلاگ ایڈیٹر، برادر فہیم پٹیل نے ’’بلاگ کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے بلاگ کی کامیابی پر نہایت عام فہم اور ہلکے پھلکے انداز میں عمل انگیز نکات پیش کیے۔ انہوں نے چند بلاگ سائٹس، ڈان نیوز، ایکسپریس نیوز اور سماء نیوز کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔ ان کے مطابق بلاگ/آرٹیکل رائے سازی کا اہم ذریعہ (ٹول) ہے۔ انہوں نے ابتدائی بلاگنگ کے لیے بڑے بڑے عالمی ایشوز یا سیاست کے بجائے چھوٹے چھوٹے اور اچھوتے موضوعات پر لکھنے کا مشورہ دیا اور اپنی بنیاد کو درست رکھتے ہوئے مؤثر اور معیاری تحریر کے ذریعے قاری کو اپنا قائل کرلینے کو بلاگ میں کامیابی کا گُر بتایا۔
سینئر صحافی و کالم نگار احسان کوہاٹی (سیلانی) نے ’’کالم نگاری کیسے کریں؟‘‘ کے عوان سے پُرجوش اور شگفتہ انداز سے کالم نگاری پر سیرحاصل گفتگو کی۔ انہوں نے بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے گمبھیر مسائل کو تحریر کا حصہ بنانے پر زور دیا اور عام فہم اسلوب کو تحریر کی خوبصورتی بتایا۔ انہوں نے قاری کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے تحریر میں افسانے یا کہانی کا انداز اپنانے، اور تحریر کی پذیرائی کے لیے چٹ پٹے پن کے ساتھ اصل پیغام اور مقصدیت کو غالب رکھنے پر زور دیا۔
معروف دانشور اور کالم نگار شاہنواز فاروقی نے ’’تحریر کے لیے مطالعے کی اہمیت‘‘ پر نہایت ایمان افزا معلوماتی گفتگو کی۔انہوں نے زندگی کے تمام معاملات کا تعلق علم سے بتاتے ہوئے صاحبِِ علم اور صاحبِ شعور ہونے کو مسلمان کی شان بتایا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں آٹھ سو سے زائد مقامات پر مسلمانوں کو علم کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ ابتدائی زمانے کے مسلمانوں نے اس کا درست ادراک کیا۔ وہ ایمان کی حد تک علوم پر حاوی تھے۔ ان کی زندگیاں علم مرکز اور خدا مرکز رہیں۔ ایک اچھی کتاب کو سمجھ کر پڑھنا ایک انسان میں انقلاب کی نوید ہے۔ آج ہماری دنیا علم مرکز نہیں رہی۔ نظریات کی ایک جنگ ہے۔ حق و باطل کی اس جنگ میں فتح مند صاحبِ علم ہی ہوں گے۔ اسلام اور انسانیت کی بقا کی اس جنگ میں ہر لکھاری کو ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
پروفیسر سلیم مغل نے ’’میڈیا اور پروپیگنڈا‘‘ کے عنوان سے ہوش رُبا میڈیائی حقائق کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پروپیگنڈا ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ وائرلیس اور ریڈیو پروپیگنڈے کے ابتدائی ذرائع ہیں۔ ہمارے دور میں یہ ذرائع سوشل میڈیا کی صورت میں بہت بڑھ گئے ہیں۔ پروپیگنڈے کے مقابلے کے لیے میڈیا کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا ابھی وہ وژن نہیں جو میڈیا کو سمجھے۔آج میڈیا پر لکھنے اور بولنے والوں کی کثرت ہے مگر علم اور مطالعے کی کمی کے باعث ان کے اندر گہرائی کا فقدان ہے۔ ہمیں صحیح اور غلط نظریات کے درمیان لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے۔
موضوعات اتنے حساس اور گمبھیر تھے کہ ہر موضوع سیرحاصل نشست کا متقاضی لگ رہا تھا۔ موضوعات اور گفتگو کی روانی کے ساتھ حاضرین کے انہماک کی روانی بھی قابلِ دید تھی۔ بہرحال وقت کو گرفت میں کرتے کرتے پروگرام کو اختتام پر لایا گیا۔ چیف ایگزیکٹو روزنامہ جسارت ڈاکٹر واسع شاکر نے مختصر خطاب میں شکریہ اور دعا کے ساتھ نشست برخاست کی۔
بلاشبہ یہ ورکشاپ جسارت بلاگ کی ایک بہترین علمی و اصلاحی پیشکش تھی۔ مقررین کی گفتگو کا محور علم اور مطالعہ تھا۔ ماضی میں بھی مسلمانوں نے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر دنیا پر حکمرانی کی، آج بھی زندگی کے ہر معاملے، ہر مقام پر قیادت مسلمانوں کے علم اور تقویٰ کی منتظر ہے۔

حصہ