بچوں کو تہذیب سکھائیں یہ آپ کی ذمہ دار ی ہے

1083

سویرافلک
کہا جاتا ہے کہ بچے کے لیے پہلی درس گاہ اس کی ماںکی گود ہوتی ہے۔ یہ بات حقیقت بھی ہے، کیوں کہ بچہ اپنی ماں سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ماں کی حرکات و سکنات اس کی عادت و اطوار کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف ماں ہی بچے کی تربیت کی ذمے دار ہوتی ہے، کیوں کہ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے، وہ اردگرد کے ماحول میں ضم ہونے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے دیکھنے، سیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھنے لگتی ہیں۔ بچہ اپنے ماحول سے بھی بہت کچھ اخذ کرتا ہے، اسی لیے بچوں کی اکثر عادتیں گھر کے کسی نہ کسی فرد سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ بچے کے طور اطوار آپ کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو آدابِ زندگی سکھائیں۔ انہیں صحیح، غلط اور اچھے برے کی پہچان کروائیں۔ یہ کام ایک دن کا نہیں، اس کے لیے آپ کو بھرپور وقت اور توجہ دینا ہوگی۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی حکمت عملی کو درجہ بہ درجہ مختلف مراحل میں یوں تقسیم کرنا ہوگا:
-1 آپ ایک ہی دن میں بچوں کو تہذیب اور آداب کے تمام اسباق نہیں رٹوا سکتے، اس کے لیے آپ کو چھوٹے چھوٹے کاموں اور لفظوں کا انتخاب کرنا ہوگا، جیسے سلام کرنا، شکریہ کہنا، خدا حافظ اور معذرت کرنا… بچوں کو ان جملوں کو ادا کرنے کا صحیح موقع اور طریقہ واضح طور پر سمجھائیں۔ آپ چاہیں تو ایک چھوٹا سا خاکہ (ٹیبلو) بھی ترتیب دے سکتے ہیں۔
-2 بچوں کو کسی بھی عمل کا عادی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل خود بھی ہر بار دہرائیں اور ہر بار بچوں کو یاد دلائیں، جیسے کسی کی آمد پر یا کسی سے ملاقات پر سلام کرنا۔ اس طرح بچے کے ذہن میں یہ عمل ہمیشہ کے لیے اس طرح نقش ہوجائے گا کہ وہ اس کا عادی بنتا چلا جائے گا۔
-3 بچے جو دیکھتے ہیں، وہی کرتے ہیں۔ بچوں کو لفظی طور پر سکھانے کے بجائے عملی تحریک کا سہارا لیں۔ جب آپ کسی چھوٹی سی غلطی پر اُن سے معذرت کریں گے، صبح اٹھ کر اُن کو سلام کریں گے، اُن کے سامنے دوسروں سے شکریہ جیسے الفاظ ادا کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ بچے خود بھی اس عمل کی پیروی اور نقل شروع کردیںگے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں کو تہذیب سکھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود بھی اُن سے تہذیب اور تمیز کے ساتھ پیش آئیں۔
-4 بچوں کی تربیت بچپن سے ہی شروع کردیں۔ یہ نہ سوچیں کہ یہ تو ابھی چھوٹا ہے۔ ’’چھوٹا‘‘ کہہ کر ہمارے یہاں عموماً بچوں کو بگاڑ دیا جاتا ہے۔ آپ غور کریں کہ وہ دو سال کا بچہ بھی جسے آپ کچھ بھی سکھانے کے لیے چھوٹا محسوس کرتے ہیں، اسکول میں جاکر سب کچھ سیکھنے لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسکول میں اصول و ضوابط کی پاسداری کروائی جاتی ہے اور مستقل بنیادوں پر بچوں سے ان اصولوں پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔ لیکن اس عمل کے لیے وقفوں کا سہارا لیا جاتا ہے نہ کہ جبرکا۔ مثلاً جب بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو اُس کے لیے اسکول کا ٹائم گھنٹے سے دو گھنٹے رکھا جاتا ہے، اور پھر بتدریج اس کا ٹائم گھنٹہ بہ گھنٹہ بڑھایا جاتا ہے۔ اس طرح بچہ آہستہ آہستہ اسکول جانے کا عادی ہوجاتا ہے۔ پھر وہ پہلے دن کی طرح روتا بسورتا بھی نہیں، کیوں کہ وہ اس ماحول سے مانوس ہوجاتا ہے، ساتھ ہی لاشعوری طور پر اِس چیز کو اُس کا دل و دماغ قبول کرلیتا ہے کہ اسے یہ عمل ہر حال میں انجام دینا ہے۔ یعنی مسلسل کوشش، تحمل مزاجی اور دہرائے جانے کا عمل بچے کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
-5 بچوںکو سمجھانے کے لیے اپنا انداز واضح رکھیں۔ انہیں سادہ اور مختصر لفظوں میں بتائیں کہ آپ اُن سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ بچے اگر غلطی کریں تو پہلی بار انہیں متنبہ کریں اور دوسری بار ہلکی پھلکی سزا دیں، جیسے ان کی پسندیدہ چیز انہیں لنچ میں نہ دیں، یا پھر بات نہ کریں۔ بچے ماں باپ کی ناراضی اور بات نہ کرنے پر اداس ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر بچہ فرماں برداری کا مظاہرہ کرے تو اسے شاباشی دیں، مگر اس کا مقابلہ دوسرے بچوں سے نہ کریں۔
-6 بچوں کو تہذیب سکھاتے وقت صرف گفتگو کو فوکس کرنا کافی نہیں، بلکہ ان کی حرکات و سکنات کو مدنظر رکھیں، جیسے کچھ بچے موقع بہ موقع چیخنا چلاّنا اور رونا شروع کردیتے ہیں، بڑوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتے ہیں، کھانا صحیح طریقے سے نہیں کھاتے، چلتے وقت چپلیں گھسیٹتے ہیں، دروازہ زور سے بند کرتے ہیں، محفل میں ناک یا کان میں انگلیاں ڈالتے ہیں، یا ایسی کوئی بھی نامناسب حرکت کرتے ہیں تو انہیں پہلے علیحدہ سے سمجھائیں کہ انہیںکھانا کس طرح پلیٹ کے ایک طرف سے کھانا ہے اور ضائع نہیں کرنا۔ اسی طرح اگر واش روم جانا ہے تو بآوازِ بلند کہنے کے بجائے آپ کے کان میں آکر ہلکے سے کہنا ہے۔ یہ تمام عوامل بھی تہذیب کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ انہیں کھانے سے پہلے اور واش روم سے آنے کے بعد ہاتھ دھونے کی ترغیب دیں۔
-7 بچوں کے لیے وقت نکالیں۔ ان کی سرگرمیوں میں دل چسپی لیں۔ ان کے ساتھ ان کے مسائل ڈسکس کریں۔ انہیں بامقصد کہانیاں سنائیں، کیونکہ اسی طرح آپ ان کے قریب ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے اوقاتِ کار ضرور متعین کریں کہ اتنے گھنٹے پڑھنا تو اتنے گھنٹے کھیلنا ہے۔ یہ سونے کا وقت ہے، تو یہ کھانے کا۔ اسی طرح بچے میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں بڑوں کو بہت عزت و تکریم دی جاتی تھی، بچوں پر واضح تھا کہ ان کے اور ان کے والدین کے درمیان کس قسم کی حدِّ فاصل قائم ہے، اور ان کی حدود کیا ہیں۔ مگر آج کل جنریشن گیپ کے جھانسے میں پھنساکر والدین اور بچوں کے رشتے کو دوستی کا رنگ دینے کی جو کوشش کی گئی ہے اس نے بچوں کی نظر میں والدین کا احترام خودبخود ختم کردیا ہے، کیونکہ جب بھی حدیں پار کی جاتی ہیں نتائج افسوس ناک ہی نکلتے ہیں۔ پہلے بچے بڑوں کے سامنے پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے، والدین سے بات کرتے وقت بچوں کی نظریں نیچی ہوتی تھیں۔ والدین سے سوال جواب کرنے والی اولاد کو بدزبان کہا جاتا تھا، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے بچے ہم سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ یاد رکھیں، بے جا سختی کی طرح بے جا لاڈ پیار بھی بچوں کی شخصیت میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ بچوںکو بتائیں کہ آپ ان کے بڑے ہیں، آپ نے ان سے زیادہ دنیا دیکھی ہے، سو آپ ان سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔ اگر کسی چیز میں آپ کا بچہ آپ سے آگے ہے جیسے آج کل کے بچے کمپیوٹر اور موبائل سسٹم کے ماسٹر ہیں تو اُن پر اپنی کمزوری ظاہر نہ کریں، نہ یہ کہیں کہ واہ بھئی ہمارے بچے تو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو شہہ ملتی ہے اور وہ والدین کو بے وقوف اور بے کار سمجھتے ہیں، اور پھر اسی لیے ان سے کسی بات میں مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے۔ بچوں پر واضح کردیں کہ آپ ان کے بڑے ہیں، سو انہیں آپ کے کہنے پر لازمی عمل کرنا ہے۔

حصہ