بات یہ ہے۔۔۔۔

230

عبدالرحمٰن مومن
’’سپاری کھائی تھی ناں آج تم نے؟‘‘ امی نے طاہر سے پوچھا۔ ’’نہیں تو۔۔۔ نہیں تو امی‘‘ طاہر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔’’بیٹا سپاری کھانے سے زیادہ بری بات یہ ہے کہ تم جھوٹ بولو‘‘۔امی نے طاہر سے سچ اگلوانا چاہا۔’’امی ایک بات پوچھوں؟ طاہر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔امی نے اثبات میں سر ہلا یا۔’’امی میں نے سپاری تقریباً ایک گھنٹہ پہلے کھائی تھی اور اس کے بعد کُلّی بھی کر لی تھی تاکہ آپ کو شک نہ ہو، اس کے باوجودآپ کو کیسے معلوم ہو گیا؟‘‘ طاہر کے ابو اس کی باتیں سن رہے تھے، انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’اگر کہو تو میں بتاؤں بیگم؟‘‘ طاہر کی امی نے جواب میں ضرور کہا تو ابو طاہر سے مخاطب ہوئے۔ ’’بیٹا تمھاری امی تم سے محبت کرتی ہیں اور ان کا مقصد ہے کہ وہ تمہیں ہر وہ چیز کھانے سے روکیں جو تمھاری صحت کے لیے نقصان دہ ہو۔ ان کو اس مقصدسے خاص لگاؤ ہے۔ اس کی بدولت وہ دل کی آنکھ سے ایسے مناظر دیکھ سکتی ہیں جو تمھارے چہرے پہ موجود آنکھوں سے نہیںدیکھے جاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمھاری اس عادت کا مشاہدہ آسانی سے کر لیتی ہیں، حالانکہ تمھارے نزدیک یہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔ اگر تم بھی دل کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہو، تو تم اللہ کے بندوں سے محبت کرو۔ انہیں نیکی کی رغبت دلانے اور برائی سے بچانے کی لگن اپنے دل میں پیدا کرلو۔ ایسا کرنے سے ان شااللہ تم دل کی آنکھوں سے دیکھنے کے قابل ہو جاؤگے۔‘‘ ابو کی بات ختم ہوئی تو امی کے منہ سے بے ساختہ یہ شعر نکلا:
’’ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدئہ دل وا کرے کوئی ‘‘

عاشی کے بابا

صبا نزہت
عاشی کے بابا، پیارے بابا
عاشی کواٹھائیں، جھولا جھولائیں
بلّے گاڑی گڑیا سے اْس کو بھلائیں
گاڑی میں اپنی سیر کو لے جائیں
جو چیز چاہے اس کو دلائیں
جب کبھی اس کو رونا جو آئے
گدگدی لگائیں ، اس کو ہنسائیں
عاشی کے بابا ، پیارے بابا
چھوٹی سی عاشی کو چلنا سکھائیں
کندھوں پر بٹھا کر دنیا دکھائیں
گر کر کبھی وہ جب چوٹ کھائے
تڑپ کر اسے وہ گلے سے لگائیں
دھیرے سے آنسو پونچھ کے اسکو
جلدی سے لے جا کر آئسکریم کھلائیں
عاشی کے بابا ، پیارے بابا
جوبات کبھی اس کو سمجھ نہ آئے
پیار ہی پیار میں اس کو سمجھائیں
نہ لڑنا جھگڑنا ، نہ دل توڑنا تم
محبت سے سب ہی بلندی پہ جائیں
ڈرو نہ کبھی تم سچ بولنے سے
اللہ سے ڈرو بس یہ اس کو سکھائیں
عاشی کے بابا ، پیارے بابا

مسکرائیے

٭ جج (ملزم سے) اس سے پہلے بھی کئی بار تمہیں مجرم کی حیثیت سے دیکھا ہے عدالت میں۔
ملزم۔ یہ جناب کی قدردانی ہے ورنہ اس زمانے میں کون کسی کو یاد رکھتا ہے۔
٭٭٭
٭ مسافر (ٹکٹ چیکر سے) پونے تین والی ریل گاڑی کب چلے گی ٹکٹ چیکر۔ دو بج کر 45 منٹ پر۔
مسافر مجھے پہل ہی شک تھا اس ریل گاڑی کا وقت تبدیل ہو گیا۔
٭٭٭
٭ ایک فقیر (قاضی سے) جناب بھوکا ہوں کچھ کھلا دیجیے۔
قاضی: یہ قاضی کا گھر ہے قسم کھائو اور چلے جائو۔
٭٭٭
٭ دوست سردار جی سے! تم تو آج ڈاکٹر کے پاس جانے والے تھے۔
سردار جی۔ یار کل جائوں گا آج میری طبیعت ٹھیک نہیں۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے) جس ملک میں بہت زیادہ بارش ہو اس میں سب سے زیادہ کیا چیز پیدا ہوتی ہے۔
شاگرد جناب کیچڑ۔
٭٭٭
٭ ایک مسافر (دوسرے مسافر سے) جناب آپ ہر اسٹیشن پر اتر کر دوسرے اسٹیشن کا ٹکٹ کیوں لے رہیں۔
دوسرا مسافر۔ مجبوری ہے ڈاکٹر نے لمبے سفر سے منع کیا ہے۔
٭٭٭

حصہ