اے مری نور نظر لختِ جگر۔۔۔ پیدا نہ ہو۔۔۔!!۔

482

افشاں نوید
ویمن اینڈ فیملی کمیشن کے تحت یوں تو آج ہونے والے اس سیشن کا عنوان ’’بدلتے ہوئے سماج اور ہماری تیاری ‘‘ تھا۔ معاشرے کے مختلف طبقات سے صائب الرائے خواتین کے علاوہ بیرون ملک سے آئی ہوئی پاکستانی خواتین مدعو تھیں کہ ہم وسیع تناظر میں جان سکیں کہ دنیا بھر میں سماج جس تبدیلی سے دوچار ہورہے ہیں اور خاندان تبدیلیوں کی زد میں ہیں ایک مسلمان ماں اس مثبت یا منفی اثرات کو کس حد تک محسوس کررہی ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کی حکمت عملی کیا ہو، اپنے خاندانوں کو کیسے محفوظ کیا جائے دجالی فتنوں سے۔
عنوان جس نے بھی سنا اپنی مصروفیات کے شیڈول میں اس نشست کو شامل کرلیا۔ مگر جمعرات ۱۱ ؍ جنوری کو جب شرکاء خواتین اس نشست کے لیے پہنچیں تو سب کے دل سانحہ قصور سے نڈھال تھے۔ گھر میں کوئی تقریب ہو اور اچانک کوئی حادثہ ہوجائے تو آن کی آن میں ماحول سمیت سب کچھ بدل جاتا ہے۔ سو آج ایسا ہی ہوا۔ باقاعدہ تقریب کے آغاز سے قبل بھی باہمی گفتگو میں سب کا موضوع ایک ہی تھا کہ اس سانحہ کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ ناکام کون ہے حکومت یا معاشرہ؟ ہمارا کام کیا محض نوحے کرنا اور تماشائی بننا ہی رہ گیا ہے یا ہم میں سے ہر ایک کو اب اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے؟ سو ہم نے آج کے اس سیشن میں دکھے ہوئے دلوں کو زبان دینے کا فیصلہ کیا کہ ہم فورم پر اجتماعی سوچ وبچار کریں کہ ناکام کون ہے اور اصل ذمے دار کون ہے؟
شرکا خواتین جن میں ہوسٹن سے آئی ہوئیں نگہت صاحبہ، ڈاکٹر صبیحہ،بھارت سے آئی ہوئی شبنم انور، 35 برس سے سعودی عرب میں مقیم محترمہ رفعت، اسکالر اور معروف مصنفہ فرحت طاہر، کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر عافیہ بیگ، ریاض سے آئی ہو ئی اختر صاحبہ، تیس برس سے دبئی میں مقیم خدیجہ افشاں صاحبہ، کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فاطمۃ الزھرہ اور معروف مصنفہ سلیس سلطانہ چغتائی وافشاں مراد، ثمینہ ایڈوکیٹ اور دیگر کئی خواتین بھی شامل تھیں۔ سب کی مشترکہ رائے تھی کہ ذمے دار کوئی ایک نہیں ہے۔ یہ واقعات معاشرے کا عکس ہیں، یہ حکومتی نااہلیوں کی داستان مرتب کررہے ہیں اور دوسری طرف یہ ثابت ہورہا ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ جب شاہ رخ جتوئی جیسے مجرموں کو رہا کردیا جاتا ہے تو جرم کو ریاست تھپکی دیتی ہے کہ جو چاہو کرو، یہاں قانون صرف غریب کے لیے ہے۔ ایک خاتون نے کہا کہ جب ملک کا وزیر اعظم یہ کہے کہ’’ جب مجھے خود وکیل کرنا پڑے تو مجھے پتہ چلا کہ پاکستان میں انصاف کتنا مہنگا ہے۔ کاش مجھے وزارت عظمیٰ میں آنے سے پہلے معلوم ہوجاتا کہ پاکستان میں انصاف کتنا مہنگا ہے۔‘‘مجرموں کے پشت پناہ ایوان ہائے قانون ساز میں بیٹھے ہوں ، جب قانون کے محافظ حکمرانوں کی حفاظت تک محدود ہوجائیں تو عوام خود بخود غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔
بیرون ملک سے آئی ہوئیں ساتھیوں کا کہنا تھا کہ جب اس طرح کی منفی خبروں کو پاکستانی میڈیا بہت نمایاں کرتا ہے اور ریٹنگ کی دوڑ میں چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے کرائم رپورٹس کو شہ سرخیوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے سر کس طرح شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ہم خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، عوامی جگہوں پر جانے سے گریز کرنے لگتے ہیں، اپنے غیر ملکی رفقاء سے کترانے لگتے ہیں کیوں کہ وہاں ہم پاکستان کے نمائندے تصور کیے جاتے ہیں۔ ہمیں وضاحتیں پیش کرنا پڑتیں ہیں۔ سیشن میں شریک بیشتر مندوبین کی رائے یہ تھی کہ سانحہ قصور جیسے واقعات کا سب سے بڑا ذمہ دار خود میڈیا ہے۔ اگر آج معاشرہ انحطاط کے اس درجے تک آپہنچا ہے تو یہ میڈیا کی کامیابی کی دلیل ہے کیوں کہ میڈیا اسی ایجنڈے پر کارفرما ہے کہ معاشرے کو انارکی میں دھکیل دے۔ اور معاشرہ یہاں تک کیوں نہ پہنچے جب الیکٹرانک میڈیا عائشہ گلالئی کو ہیرو بنا کر پیش کرتا رہا۔ کس قدر غیر شائستہ تھا یہ موضوع ، ایک پاکیزہ فکر رکھنے والے فرد کے لیے۔ اگر یہ حقیقت تھی تو کیا ہفتوں اس پر اسی انداز سے بحث ہونا چاہیے تھی؟
بیرون ملک سے آئی ہوئی ایک بہن نے کہا کہ ایسے بیمار ذہن جو قصور جیسے واقعات کے مرتکب ہوتے ہیں ہر سماج میں پائے جاتے ہیں مگر دنیا کے دیگر ممالک میں اس طرح کی خبروں کو اچھالنے پر پابندی ہوتی ہے۔ کن خبروں کو کتنا میڈیا پر جانا ہے ، کن چیزوں کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ سب کچھ کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کس سانحہ کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوئے اب اس ذہنی حادثہ سے عوام کو کیسے نکالا جائے، آئندہ ان عوامل کی بیخ کنی کس طرح کی جائے کہ معاشرے کو کسی بھی طرح کے منفی اثرات سے بچایا جاسکے۔ اس پر ماہرین سماجیات ونفسیات بحث کرتے ہوئے لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا جس طرح مادر پدر آزاد ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ سارے چینلز کس طرح عمران کی شادی کو ہاٹ ایشو بنادیتے ہیں ، چٹخارے لے کر ریٹنگ بڑھانے کے لیے ان خاتون کو جن کا میڈیا سے کوئی واسطہ نہیں‘ خبروں کی زینت بنادیتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا اکثر پاکستانی چہرے کا بدنما داغ ہی دکھاتا ہے حالانکہ میڈیا کا کام اپنے وطن کی نیک نامی ہونا چاہیے۔ خواتین طویل عرصے بعد پاکستان آئی تھیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سماج کی تبدیلیوں پر ہمیں افسوس ہوا ہے۔ عورت کی خود مختاری کے نام پر جس طرح اس کا وقار مجروح کیا جارہا ہے وہ ہمارے معاشرے کے شایان شان نہیں۔ سیلز گرل کے طور پر جس طرح بڑی تعداد میں لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکال دیا گیا نیز شادی بیاہ کی تقریبات میں جس کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے یہ روشن خیالی اور ترقی کی علامت نہیں ہے۔
تیس برس سے کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر عافیہ بیگ نے کہا کہ جرم کی خبریں وہاں بھی نشر ہوتی ہے مگر خبر کو ریٹنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ خبر کے بعد اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ریاست کے جس ادارے کی جو ذمہ داری ہو وہ حرکت میں آتا ہے اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔
ہیوسٹن سے آئی ہوئی نگہت صاحبہ نے کہا کہ اگر زینب جیسے واقعات کی وجہ ہم یہ تلاش کریں کہ یہاں خواندگی کا تناسب کم ہے، تعلیم عام ہوگی تو بہت سی خرابیاں دور ہوں گی مگر ہم اپنے والدین کو دیکھیں تو ہماری مائیں اور ان کی مائیں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھیں مگر خاندان اعلیٰ اخلاقی اقدار کا نمونہ تھے۔ عورتیں بازار بھی ضرورتاً ہی جاتی تھیں، گھر کی تقریبات تک میں اختلاط کا کوئی عنصر نہ ہوتا تھا۔ مگر ہم نے اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو روشن خیالی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
شبنم انور نے کہا کہ پاکستان کے لوگ انڈیا کی فلمیں دیکھ کر سمجھتے ہیں یہ اس معاشرے کی عکاس ہیں جب کہ وہ تو گلیمر کی دنیا ہے۔ ہندوستان مسائل میں گھرا ہوا ملک ہے۔ جب پاکستانی خاندانوں کی شادی کی تقریبات کی ویڈیوز وہاں دیکھی جاتی ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بہت خوشحالی ہے جہاں ایک تقریب میں اتنے اخراجات کیے جاتے ہیں۔ وہاں کی ثقافت وہاں کے رقص نہیں ہیں ، وہاں تعلیم کا بڑھتا ہوا رجحان ہے، وہاں میٹرک تک ایجوکیشن فری ہے۔ اگر ان کی تقلید کرنا ہے تو ڈراموں کے موضوعات اور لباس وزیورات کے بجائے تعلیم کے میدان میں ان سے مسابقت کریں تب ہی قیام پاکستان کا حقیقی مقصد پورا ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی نے کہا کہ مائیں بچوں کی ہر جہت سے تربیت کریں اور اپنے معاشرے کی اقدارکی حفاظت کویقینی بنائیں‘ اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا کو دینے کے بجائے اپنی نسل کی تربیت میں صرف کریں۔
ڈاکٹر صبیحہ جو 35 برس سے علاج معالجہ کے ساتھ مریضوں میں اخلاقی شعور وآگہی کا کام بھی کررہی ہیں انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی جس قدر نئی نسل کو شعور وآگہی دے رہی ہے ضرورت ہے کہ والدین اس وقت کے چیلنج کو سمجھیں۔ والدین ہتھیار نہ ڈالیں کہ ہماری نسل ہم سے آگے بڑھ گئی بلکہ وہ خود بھی اس ٹیکنالوجی سے واقفیت حاصل کریں اور بچوں کو آزاد نہ چھوڑیں۔ ٹیکنالوجی کی یہ ترقی اگر ایک طرف انعام ہے تو دوسری طرف فتنہ۔ اب والدین کا کردار پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ حساس ہوچکا ہے۔ گھروں میں والدین کو چھوٹی عمر سے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کرنا ہوگی کہ پھر کوئی معصوم سی زینب اس طرح اپنے قاتل کے ساتھ جانے پر آمادہ نہ ہوسکے۔
ایڈوکیٹ ثمینہ جو پچھلی تین دھائیوں سے انصاف کے ایوانوں میں کمزوروں کے حقوق کی جنگ میں مصروف ہیں انہوں نے شکوہ کیا کہ ہم انصاف مہنگا ہے کی دہائی تو دیتے ہیں مگر پاکستانی معاشرے میں کتنے لوگوں کو اپنے قانونی حقوق کا علم ہے۔ جب فرد کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے تو وہ قانون کے آگے سرجھکانے کے بجائے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ زینب کا کیس ہو یا شاہ رخ جتوئی کا۔ مجرمانہ ذہنیت بے خوف ہے کہ وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہے۔ ایک چھوٹا مجرم ہم سب کے اندر ہے جو کہتا ہے کہ سگنل توڑ ددو، ٹریفک کا ٹیکس چھپالو، یا کنڈا ڈال کر بجلی حاصل کرلو، یا دھوکہ اور جھوٹ سے بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ دودھ میں پانی ملاوٹ کو ہم جرم سمجھتے ہیں ‘سب خالص اشیاء کے طلب گار ہیں جائزہ لیں کہ ہم خود کتنے خالص ہیں۔ چاہے وہ ہمارے رب کے قوانین ہوں یا سماجی ضابطے…!
معروف مصنفہ فرحت طاہر نے کہا کہ ضیاء الحق کے دور میں جب پپو کیس کے مجرم کو سزا دی گئی اس کے بعد اس طرح جرائم کی شرح کافی کم ہوگئی۔ اگر زینب کیس کے مجرموں کو سرعام لٹکایا جائے تو مجرمانہ ذہنیت پر ضرب لگے گی۔ مجرم جرم کرتے ہوئے بار بار سوچے گا۔ مجرم پکڑے نہیں جاتے ، جو پکڑے جاتے ہیں باعزت بری کردیے جاتے ہیں۔ زینب کے مجرموں کو اگر سزا نہیں ملتی تو اگلی کوئی بھی بچی زینب ہوسکتی ہے۔فورم کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ قصور کی ننھی کلی زینب کا سفاکانہ قتل عیاں کرتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ فلموں، ڈراموں، اشتہارات اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے لوگوں کو ذہنی عوارض میں مبتلا کردیا ہے۔ کسی بھی طرح کی فحش سائٹس پر کوئی پابندی نہیں۔ ان حالات میں والدین کی ذمہ داری دوچند ہوجاتی ہے۔ بچوں کو ہر طرح کی آسائشیں مہیا کرنا اور ان کی خواہش پوری کرنا تربیت کے ضمن میں نہیں آتا۔ بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھانا، گھر کے ماحول کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا والدین کی بڑی ذمہ داری ہے۔ والدین اپنے اور بچوں کے درمیان فاصلہ کریں اور نہ صرف ان کی حرکات وسکنات بلکہ ان کے دوستوں پر بھی نظر رکھیں۔فورم نے سفارش کی کہ بچوں کیے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔ فحش سائٹس پر پابندی لگائی جائے۔ علماء اور مذہبی رہنما معاشرے کی رہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ عدالتیں بغیر تاخیر کے ایسے واقعات کے فیصلے سنائیں ۔ مجرم کو عبرتناک سزاد ی جائے۔ پولیس اور سیکوریٹی ایجنسیاں حکمرانوں کے بجائے عوام کو تحفظ فراہم کرنے پر مامور کی جائیں۔ جو عوامی نمائندے عوام کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کرسکے ان سے استعفی لیا جائے۔ پولیس اور عدالتی نظام کی اصلاح کی جائے۔
راقم الحروف نے مذاکرے کی میزبانی کے فرائض انجام دیے اور شرکاء پرزور دیا کہ وہ اس آگہی کو عام کریں کہ الیکشن میں ہم ان نمائندوں کو منتخب نہ کریں جو عوام کی جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری میں بار بار ناکام ہوچکے ہیں۔ معصوم زینب کے لہو کی یہ فریاد ہے کہ اس گلے سڑے نظام سے نجات حاصل کی جائے۔

حصہ