اکیسویں صدی کا ایجنٹ

255

زاہد عباس
پچھلے دنوں ہمارے ایک شاعر دوست پاسپورٹ بنوانے کی غرض سے ضلع ملیر میں قائم سب آفس چلے گئے۔ دفتر میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو انہیں پاسپورٹ بنوانے سے متعلق معلومات فراہم کرسکے۔ سب آفس میں نوجوانوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی لہٰذا انہوں نے بہتر سمجھتے ہوئے ایک نوجوان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ دیا۔ شکیل نامی یہ شخص چہرے سے انتہائی شریف دکھائی دے رہا تھا، کہنے لگا ’’انکل یہاں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، وہ شخص جو سامنے کھڑا ہے یہاں کا ایجنٹ ہے، اُس سے مل لیں، سارے دفتری کام بغیر لائن میں لگے کروا دے گا، میرے بھائی نے بھی اسی سے رابطہ کیا ہے‘‘۔
کوئی بھی شریف آدمی اور خاص طور پر ادب سے تعلق رکھنے والارشوت کا حامی نہیں ہوسکتا۔ کچھ ایسی ہی طبیعت ہمارے دوست کی بھی ہے۔ ابھی شکیل سے بات چیت جاری ہی تھی کہ دفتری ایجنٹ ’’سہولیات کا پیکیج‘‘ لیے ان کے قریب آن پہنچا اور شکیل کو دیکھ کر ہمارے دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا ’’نوجوان کا پاسپورٹ بنوانا ہے کیا؟ پندرہ سو روپے اوپر کا خرچہ آئے گا، تم کو صرف بینک چالان اور بچے کی تصاویر بنوانا ہوں گی، باقی ساری پھٹیکیں ہماری‘‘۔ وہ مسئلہ سنے بغیر انہیں شکیل کا والد سمجھ کر ڈیل کرنے لگا۔ وہ باتوں سے بڑا ہوشیار لگ رہا تھا، شکیل کو ہدفِ تنقید بناکر ہمدردانہ رویہ اپناتے ہوئے کہنے لگا ’’دنیا بھر کے ممالک پاکستانیوں کے لیے نوگو ایریا بنتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی ہماری نوجوان نسل کسی نہ کسی طرح امریکا اور یورب پہنچنے کی جُگاڑ میں لگی رہتی ہے، گوروں کے دیس پہنچنے کا دورہ نوجوانوں کو ہوش سنبھالتے ہی پڑنے لگتا ہے، ان کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد یورپ جاکر کسی گوری سے شادی کرلیں، چاہے یہ شادی کاغذی ہی کیوں نہ ہو، اور اس طرح ولایتی شہریت حاصل کرکے ساری زندگی وہیں عیش و آرام سے گزاریں، گویا جیسے ساری دنیا کی گوریاں بالوں میں گجرے لگائے، پھولوں کے ہار لیے ان کی راہیں تک رہی ہیں، شاید ان نوجوانوں کے نزدیک دنیا میں آنے کا مقصد یہی ہوتا ہے۔ روپے پسے کی بربادی ایک طرف! ملک سے باہر جانے کی دھن میں یہ نوجوان اُن راستوں کا انتخاب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جنہیں اپنانے سیان کی جان بھی جا سکتی ہے، پاسپورٹ دفاتر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ولایت جانے کا بخار ہمارے ہاں ڈینگی وائرس سے بھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا مرض بنتا جا رہا ہے‘‘۔
ایجنٹ مسلسل بولے جارہا تھا، اس کا غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے نوجوانوں کے خلاف گفتگو کرنا میرے دوست کے لیے حیران کن نہ تھا، اس کے قول وفعل میں واضح تضاد تھا۔ ایک طرف اگر اُسے ان نوجوانوں کی زندگیوں کی فکر تھی تو دوسری طرف وہ پاسپورٹ بنوانے کے لیے آنے والے گاہکوں سے بھاؤ تاؤ کرنے اور انہیں ملک سے باہر بھجوانے کے لیے اپنے ہی ساتھی ایجنٹوں کے پتے دینے میں مصروف تھا۔ خیر میرے دوست نے اس نان اسٹاپ ٹرین کو روکتے ہوئے کہا ’’جناب اس لڑکے سے میرا کوئی تعلق نہیں، اگر خارجہ پالیسی پر آپ کا بیانیہ ختم ہوگیا ہو تو میں اپنی بات آپ کے گوش گزار کردوں؟‘‘
’’جی جی بولیں، ہم تو بیٹھے ہی آپ لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے ہیں‘‘۔ ایجنٹ نے بڑی انکساری سے جواب دیا۔
’’مجھے عمرے کی ادائیگی کے لیے جانا ہے، پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں اس سعادت سے محروم ہوں، دفتری پنچایتوں کو نہیں جانتا، آپ کے پاس میرے مسئلے کا کوئی حل ہے؟‘‘
میرے دوست کے پوچھنے پر ایجنٹ نے دو جملوں میں بات سمیٹتے ہوئے کہا ’’وہی پیکیج جو پہلے بتایا تھا، یعنی پیسہ بولتا ہے‘‘۔ پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد دوسری جانب حصولِ پاسپورٹ کی لائن میں کھڑے عمر رسیدہ افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں درس دینے لگا ’’ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ زندگی کے آخری حصے میں خدا کے گھر اور روضۂ رسولؐ کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، معذرت خواہ ہوں، میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں، بلکہ اس کلیے کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرنا ہے جس کے تحت ہمارے لوگ اٹھارہ سے تیس سال تک یورپ، اور بڑھاپے میں قدم رکھتے ہی مکہ مدینہ جانے کو ترجیح دینے لگتے ہیں، کہتے ہیں بندہ اگر حج کرلے تو سارے گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے، شاید اسی لیے انسان نے اپنے تئیں زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، پہلا حصہ دنیا کے مختلف کاموں کے لیے، جب کہ دوسرے حصے کو اللہ تعالیٰ کے گھر جانے، عبادات کرنے، اور اگلے جہاں کی کامیابیاں سمیٹنے کے لیے مختص کررکھا ہے، ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے والی قوم… جب چاہیں، جیسے چاہیں زندگی گزاریں اور آخری وقت میں جہاز کا ٹکٹ کٹاکر خدا کے گھر اور روضۂ رسولؐ پر حاضری دے آئیں اور پھر سے نئے نکور ہوکر زندگی کی پٹری پر اپنا سفر جاری رکھیں۔ بزرگوار! ہمارا کام ایجنٹی کرنا ہے، کئی برسوں سے یہی ہماری روزی روٹی ہے، جب سے اس کام سے وابستہ ہوئے ہیں یہی کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں، یہ فارمولا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جوانی کی عمر میں کی جانے والی عبادت کا زیادہ ثواب ہے، بڑھاپے میں حج وعمرہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے، اور ویسے بھی اس عمر میں انسان بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے، ٹخنوں اور گھٹنوں کا درد آدمی کو اس قابل نہیں چھوڑتا کہ وہ دو قدم بھی بغیر سہارے کے چل سکے۔ ایسی صورتِ حال میں ارکانِ حج وعمرہ کی ادائیگی آسان کام نہیں۔ ایسے لوگوں کی عادت تبدیل نہیں ہوتی، یہ حج وعمرے کے بعد بھی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں اور واپس آکر جوڑیا بازار سے خریدی گئی کھجوریں ’’عجوہ‘‘ بناکر اہلِ محلہ اور رشتے داروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ سارا چکر اپنے نام کے ساتھ ’’حاجی‘‘ لکھوانے کا ہوتا ہے۔ خیر ہم کو اس سے کیا، اُن کی مرضی، ہم کو تو اپنے کام سے ہی کام رکھنا چاہیے۔ بولو میری آفر منظور ہے کہ نہیں؟‘‘
ہمارے دوست جو پہلے ہی اس کی حرکتوں سے سیخ پا ہوچکے تھے، انتہائی غصّے میں بولے’’تم کیا چیز ہو؟ تنقید نگار ہو یا تجزیہ کار؟ مسلسل بولتے جارہے ہو! دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے سوا کوئی کام ہے تمہارے پاس؟ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے، ایجنٹی کرکے لوگوں سے ناجائز پیسہ وصول کرتے ہو، دفتر والوں کے ساتھ مل کر حرام کھاتے ہو، میں لعنت بھیجتا ہوں رشوت لینے اور دینے والوں پر۔ خدا میرے کام میں آسانی کرے گا۔ تم لوگ ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہو ۔‘‘
باتونی ایجنٹ ضرورت سے زیادہ ہی ڈھیٹ تھا، بجائے خاموش رہنے کے پھر سے لفظوں کی گولا باری کرنے لگا ’’جناب! ایجنٹ ہوں، محنت کرکے پیسہ کماتا ہوں، کام نہیں کروانا تو نہ کرواؤ، لیکن ایجنٹوں کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرلو۔ یہ اکیسویں صدی ہے جہاں ہمارے بغیر سسٹم کا چلنا مشکل ہے۔ پاسپورٹ ہم سے نہیں بنوایا تو کیا ہوا، اگلے کام ایجنٹوں سے ہی کروانے پڑیں گے، عمرے کا ویزا ایجنٹ ہی لگوا کر دے گا، پھر ٹریول ایجنٹ بھی ہمارا ہی کوئی بھائی ہوگا، دنیا کا نظام ہم نے ہی سنبھال رکھا ہے، ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہو یا کھاد کمپنی کا، سی آئی اے کا ایجنٹ ہو یا پھر موساد کا، جائداد کی خرید وفروخت ہو یا قبرستانوں میں من پسند جگہ پر قبر کی کھدائی… ہر جگہ ایجنٹوں کا ہی سکہ چلتا ہے۔ تمھاری نظر میں میری عزت ہو یا نہ ہو اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں کے لوگ مجھے ماسٹر مائنڈ کہتے ہیں، باقی تمھاری مرضی۔ اگر دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک جاؤ تو ضرور رابطہ کرلینا۔‘‘
اس طرح ایجنٹ نے غصے میں لال پیلے ہوئے ہمارے دوست کو مزید آگ بگولا کردیا۔ وہ لاحول ولاقوۃ کا ورد کرتے ہوئے ملیر پاسپورٹ سب آفس سے باہر نکل آئے۔
پاکستان میں سرکاری ملازمین کا ایجنٹوں کے ذریعے غریب عوام سے بھاری رشوت طلب کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ روزِ اوّل سے ہی سرکاری محکموں، خاص طور پر محکمہ پاسپورٹ کی شہرت اچھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ماضی میں دنیا بھر سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے غیر ملکی دہشت گردوں کے پاس ہمارے ہی ملک کے پاسپورٹ تھے۔ ان ملک دشمن راشی افسران کی ہوسِ زر نے نہ صرف محکمہ پاسپورٹ پر بدنما داغ لگایا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بھی بدنام کردیا۔ اب جبکہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے، ایمرجنسی کے باوجود پاسپورٹ جیسے حساس ادارے میں کھلے عام رشوت کا طلب کیا جانا ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے پر توجہ دے۔ محکمے میں ایمان دار اور اچھی شہرت کے حامل قابل افسران کی تقرری سے خاصی حد تک ادارے کی ساکھ بحال کی جا سکتی ہے۔ بروقت کیے جانے والے اقدامات سے ہی بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، بصورتِ دیگر محکمے سے کالی بھیڑوں کا صفایا ناممکن ہوگا۔

حصہ