آئی جی بمقابلہ حکومت سندھ

261

سید اقبال چشتی
جب سے صوبہ سندھ میں انسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ کو وفاقی حکومت نے مقرر کیا ہے اُس وقت سے لے کر اب تک آئی جی سندھ اور حکومت سندھ کے درمیان رسہ کشی کی صورت حال ہے اور حکومت سندھ اے ڈی خواجہ کو تبدیل کرانے کے لیے ہر جتن کر چکی ہے لیکن آئی جی سندھ بھی بڑے اطمینان سے اپنا کام جاری رکھے ہو ئے ہیں مگر حکومت سندھ بھی میں نہ مانو ں کی رٹ لگا کر کسی بھی طرح آئی جی تبدیل کرانا چاہتی ہے اور اب تو سندھ کابینہ نے بھی آئی جی سندھ کو ہٹانے کی منظوری اورنئے آئی جی کے نام کے ساتھ وفاق کو خط لکھ دیا ہے۔آخر سندھ حکومت آئی جی سندھ کو کیوں ہٹانا چاہتی ہے؟ کیا وہ حکومت کی بات نہیں سنتے یا پھر ایمان داری سے اپنا کام کرنا چاہتے ہیں؟
پاکستان کی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ ایمان دار فرد سیاست میں ہو یا سرکاری ادارے میں‘ وہ کسی طور برداشت نہیں ہوتا شاید اس لیے کہ کو ئی ساتھ دے یا نہ دے وہ فرد اس نظام کو درست کرنا چاہتا ہے یا پھر کوئی کچھ بھی کرے وہ فرد اپنا کام ایمان داری سے کرنا چاہتا ہے اور ایسے لوگ اداروں میں سب سے برے ہوتے ہیں کیونکہ وہ بہت سے کام میں رکاوٹ بنتے ہیں اس لیے سینئر سیاست دان لیاقت جتوئی نے اس حوالے سے کہا کہ ایمان دار آئی جی سندھ حکومت کو ہضم نہیں ہو رہا ہے اور اپنا منظور نظر اور چہیتا آئی جی سندھ لگانے کے لیے حکو متی سارے کام چھوڑ کر اس کام پر لگ گئی ہے۔
آئی جی سندھ کو ہٹانا الیکشن مہم کا حصہ ہے۔ یقینا ہر سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل مرتب کرتی ہے تاکہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کی جائے اور پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ والا معا ملہ ہو تا ہے اس لیے لیاقت جتوئی نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آئی جی سند ھ کو ہٹانے کے پیچھے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہے اور اس کامیابی میں اگر کوئی رکاوٹ بن سکتے ہیں تو وہ آئی جی سندھ ہیں کیونکہ ان کی وجۂ شہرت ایماندار افسر کی بن چکی ہے جنھوں نے پولیس میں کافی اصلاحات کی ہیں جن میں سرفہرست میرٹ پر پولیس میں بھرتیاں ہیں۔
میرے اکثر دوستوں نے بتایا ہے کہ ان کے فلاں رشتے دار کا بغیرکسی سفارش کے پولیس میں ہو جانا کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ اس حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ محکمہ پولیس حکمرانوں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے اور عملاً پولیس امن و امان پر توجہ دینے کے بجائے وزیروں اور مشیروں کی چاکری کرتی نظر آتی ہے اس کی مثال گزشتہ ادوار میں ہو نے والی پولیس کی بھرتیاں اور اس حوالے سے اخبارات میں شائع ہو نے والی خبریں ہیں کہ کس طرح میرٹ کا قتل عام کر کے سفارش اور پرچی کے ذریعے بھرتیاں کی گئیں۔
ایک خبر کے مطابق سابقہ حکومت اور اس کے اتحادی متحدہ کے دور میں سب سے زیادہ جرائم پیشہ افراد پو لیس میں بھرتی کیے گئے۔ انجمن ستائش باہمی کے تحت متحدہ اور پی پی نے جو افراد پولیس میں بھرتی کروائے وہ محکمہ پولیس کی نوکری کرنے کے بجائے اپنی اپنی پارٹیوں کے مفادات کے لیے کام کرتے رہے یہی وجہ تھی کہ پورا کراچی جرائم کی آماج گاہ بن گیا تھا اور تاجروں‘ وکلاء اور ڈاکٹروں کو بھتے کی پر چیاں ملنا معمول بن گیا تھا۔ پولیس اسٹیشن امن کمیٹی اور سیکٹر سے چلائے جانے لگے تھے اس بات سے ایک لطیفہ یاد آتا ہے کہ ایک وزیر پولیس اسٹیشن کا دورہ کرنے جاتے ہیں تو بورڈ پر جرائم پیشہ افراد کی فہرست میں صرف ایک نام اور اس کی تصویر کو دیکھ کر وزیر موصوف SHO سے کہتے ہیں آپ کے پاس ایسی کون سی چھڑی ہے جس سے آپ نے تمام بدمعاشوںکی بد معاشی ختم کردی اور صرف ایک ہی نام اس فہر ست میں ہے‘ بہت خوب شاباش۔
SHO صاحب کہتے ہیں یہ بات نہیں ہے اصل میں اس علاقے میں صرف یہی ایک شریف آدمی تھا اس لیے ہم نے قانون کو اُلٹ دیا اور یہاں بدمعاشوں کی تصویر اور نام لگانے کے بجائے اس ایک شریف آدمی کا نام اور تصویر لگا دی ہے۔
گزشتہ ادوار میں جس طرح جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کی گئی تھی اور دونوں جماعتوں نے جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ فراہم کیا تھا جس سے راہ چلتے لوگ اور گھروں پر رہنے والے بھی خوفزدہ رہتے تھے۔ جب حد سے زیادہ ہو گیا تو رینجرز نے امن و امان قائم کر نے میں اہم کردار ادا کیا اس پر بھی حکومت سندھ نے رینجرز اختیارات میں توسیع پر حیلے بہانے شروع کردی تھی۔
اگر اب قانون کے مطابق کام ہو رہا ہے اور امن و امان کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں تو یہ خوش آئند بات ہے اور ایک فرد پولیس میں اصلاحات کا خواہاں ہے تو حکومت کو بھی اس فرد کے ہاتھ مضبوط کر نے کے لیے اس کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ حکومتوں کا کام عوام کو تحفظ فراہم کر نا ہوتا ہے اور قانون بنانے والے ہی قانون پر عملدرآمد نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ انصاف کی فراہمی کے لیے انتخابی منشور کی کتاب میں دعوے کرنے والوں کو ایک ایمان دار فرد ان کے وعدوں کی تکمیل کے لیے میسر آگیا ہے تو اس مو قع سے فائدہ اُٹھا نا چاہیے کیونکہ حکومت اور قانون نا فذ کر نے والوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
پُر امن معاشرے کے قیام میں حکومت اور قانون ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں جب معاشرے میں امن ہو تا ہے تو ترقی اور خو ش حالی خود بخود چل کر آتی ہے اور گزشتہ ادوار اس بات کے گواہ ہیں کہ کراچی اور اندرون سندھ امن و امان کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوئی اس کی وجہ جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھوٹ دینا تھی اس کی وجہ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال بیان کرتے ہیں کہ کراچی اور اندرون سندھ تمام خرابیوں کا ذمے دار سابق گورنر عشرت العباد ہے انہوں نے عشرت العباد کو ’’کرپشن کی ماں قرار‘‘ دیا ہے اور ان کے دور میں تعلیم اور صحت کی تباہ حالی کا بھی خاص تذکرہ کیا۔ مصطفی کمال کی اس بات کو سچ مان لینے میں کوئی شک نہیں کیونکہ انجمن ستائش باہمی کے تحت دونوں جماعتوں نے سندھ کے تمام اداروں کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ صرف اس بات سے اندازہ لگائیں کہ صحت کا شعبہ کچرا کنڈی میں تبدیل ہو گیا اور تعلیم پر گیارہ ارب خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے ہزاروں اسکول اساتذہ اور بجلی سے محروم ہیں اور تعلیمی گراف مسلسل نیچے آرہا ہے۔ اتنی خراب صورت حال کے بعد بھی حکومت سندھ نے تمام اختیارات ہونے کے باوجود سیکرٹری صحت‘ سیکرٹری تعلیم اور نا قص کا رکردگی دکھانے والے دیگر اعلیٰ افسران سمیت کسی وزیر کو نہیں ہٹایا اور نہ ہی کسی کی تبدیلی کے لیے کابینہ نے خط لکھا اور نہ ہی سفارش کی کہ ان نااہل افسران کو فور ی طور پر ہٹایا جائے۔
جب سندھ حکومت نے تمام خرابیوں اور اختلافات کے باوجود وفاق کے نمائندے کو بطور گورنر 11 سال برداشت کیا‘ جس کے لیے خود اُن کی پارٹی سے نکلے فرد گواہی دے رہے ہیں کہ سابق گورنر کے کیاکا ر نامے رہے ہیں تمام برائیوں کو جاننے کے بعد بھی گورنر کی تبدیلی کے لیے وفاق کو ایک بھی خط نہیں لکھا گیا تو پھر آئی جی سندھ کی تبدیلی کے لئے سندھ حکو مت کیوں بے چین ہے شاید اس لئے کہ مو جودہ آئی جی سندھ پو لیس کی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور پولیس کو عوام کا خادم والا ایک ادارہ بنانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے اقدامات بھی شر وع کر دیے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق آئی جی سندھ نے بڑے پیمانے پر شکایات مو صول ہو نے پرکراچی رینج کے 7 ڈی ایس پیز کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ اسی طرح عدالتِ عظمیٰ سندھ کے حکم کے بعد اے ڈی خواجہ کی جانب سے عدالت میں چلنے والے مقدمے میںجمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق سابق آئی جی سندھ اور دیگر افسران محکمہ پولیس میں غیر قانونی بھرتیوں، پلاٹوں پر قبضے کے ساتھ غیر قانونی دھندے میں ملوث رہے ہیں۔ اگر ایک فرد اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایمان داری کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے تو اس میں کسی کو کیا تکلیف ہو رہی ہے۔ اس میں فائدہ تو حکومت سندھ ہی کا ہے کیونکہ پولیس کی بدنامی حکومت کی بدنامی ہے اور پولیس کی بہتر کارکردگی حکومت کی نیک نامی کا با عث ہے۔ اگر حکومت اچھے کا موں میں تعاون نہیں کر سکتی تو جس طرح ایک بدعنوان گورنر کو برداشت کیا تھا اسی طرح ایک اچھی شہرت کے حامل آئی جی کو بھی برداشت کرے کیونکہ اکثرایمان دار افسر کو ایکسٹینشن نہیں ملتی اور وہ اپنی مدت پور ی کر کے چلے جاتے ہیں۔

حصہ