سوشل میڈیا پر تعزیت

785

آج سوشل میڈیا میں دوران ہفتہ وائرل موضوعات کے اِس بھرے سمندر میں سے میں نے ایک شخصیت کاانتخاب کیا ہے جو اپنی نہاد میں سوشل میڈیا پر ایک مقبول موضوع رہی ۔ وہ ہیں ڈاکٹر ہارون رشید مرحوم ۔
سوشل میڈیا ویسے تو زندہ انسانوں کے درمیان سماجی تعلقات بنانے کا موجب بنتا ہے ، مگر اس نے معلومات کے بہاؤ کا ایسا جال بچھایا ہے کہ اگر آپ کسی واقعی عظیم انسان کو اُس کی زندگی میں نہیں مل سکے تو کم از کم اُس کے بارے میں جان ضرور سکتے ہیں۔میں بھی کبھی ڈاکٹر ہارون رشید سے نہیں ملا ، مگر اپنے سماجی میڈیا کے اکاؤنٹس پر اُن کے حوالے سے جو لا تعداد کمنٹس ، تعزیتیں، احساسات ، واقعات پڑھنے کو ملے تو سوشل میڈیا پر کی جانے والی تعزیتوں کی اس انداز سے اہمیت کا اندازہ ہوا۔ایک بات یہ بھی جان لیں کہ سوشل میڈیا نے جس طرح زبان و بیان کو ’شارٹ فارم‘ میں تبدیل کیا ہے ،اُس ٹرینڈ کے ہوتے ہوئے کسی کا اتنی اتنی لمبی تحریر لکھنا میرے نزدیک سچی عقیدت کے مترادف ہے ، ورنہ لوگ RIPسے بھی کام چلا لیتے ہیں ۔بہر حال میں نے بہت مخصوص اور اپنے دائرے کی معروف و معتبر شخصیات کے احساسات کو ہی منتخب کیا ہے، ان کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ڈاکٹر ہارون رشید سے صرف ایک یا دو مرتبہ ہی ملے تھے اوراب یہ اُسی ملاقات کا اثر آپ ان تحاریر سے تصور کرلیں ۔اس لیے یہ مضمون ڈاکٹر ہارون رشید کی شخصیت کے حوالے سے اورسوشل میڈیا کے ایک مثبت استعمال کا بھی سبب بن سکتا ہے یعنی کہ آپ بھی اپنی زندگی میں ڈاکٹر ہارون رشید جیسا کچھ کر جائیں کہ آپ پر بھی لوگ اتنی عقیدت و محبت کے پھول برسائیں ۔
معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے جواں سال ڈاکٹر ہارون رشید چین سے ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی )تھے ،آج کل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں سی پیک انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے۔زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ ،لاہور سے وابستہ رہے۔ حیا، پاکبازی، حلم اور بردباری کا پیکر مجسم تھے ۔پاک چائنہ کوریڈور پر مہارت کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کی خصوصی توجہ لیتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا،جس کے معترف اپنے تو تھے ہی بلکہ چینی سفارت خانے کے اہلکار بھی ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔چینی سفارت خانے کے ایک رکن نے اپنے تاثرات کا اظہار اس ٹوئیٹ میں کیا کہ ۔۔۔۔( تصویر)
اُن کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کے بجائے اُن کے حوالے سے پوسٹ کی گئی سیکڑوں تحاریر میں سے چند مقبول تحاریر کا مطالعہ ہی آپ کو اُن کی شخصیت و کردار کا مداح کر دے گا۔ اتنی ساری گواہیوں کو دیکھ کر آپ بھی قلب کی گہرائیوں سے اُن کے حق میں دُعائے مغفرت ضرور دہرائیں گے۔کراچی میں صحافی برادری سے منسلک ایک معروف اور معتبر نام فیض اللہ خان اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ سعد مقصود نے یہ جاں گسل اطلاع دی کہ ڈاکٹر صاحب دار فانی سے کوچ کر گئے ۔دوران تدریس ہارٹ اٹیک ہوا اور دل نے غم دنیا کو مزید جھیلنے سے انکار کردیا یہ ناقابل یقین خبر سن کر دماغ سن ہوچکا ہے مختصر سی رفاقت طویل محبتوں پہ بھاری لگنے لگی تھی۔کراچی میں ایک سیمینار کی بدولت ان سے بالمشافہ پہلی ملاقات ہوئی ، سیمینار کے بعد الگ سے طویل مجلس سجی اس سے اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کتنے زبردست انسان ہیں۔مایہ ناز علمی استعداد ، یورپ و چین کے مسلسل دورے، سی پیک کے حقیقی ماہر اور لاہور یونیورسٹی کے استاد ۔کم عمری میں اتنی ذمہ داریاں ، علمی تحرک اور اپنے مقاصد سے غیر متزلزل وابستگی نے دل جیت لیا تھا۔جب کراچی آتے طویل محفل جمتی چین کے مسلمانوں ،سماج اور ثقافت و روایات سے متعلق انکے پاس بیش بہا معلومات تھیں ، بلاشبہ انکی گفتگو علم ،حلم اور پاکیزگی سے تر ہوتی جس میں امت کا درد جھلکتا۔گزشتہ دنوں ہی کی تو بات ہے کہ میرے گردے میں پتھری کا انکشاف ہوا ، میں شدید تکلیف میں تھا ہارون بھائی نے کال کرکے وہاں اپنے پاس موجود ایک ماھر طبیب سے بات کرائی اور ادویات تجویز کیں اور یقین مانئیے کہ مستقل خیریت دریافت کرتے رہے دوا کھانے کا طریقہ بتاتے رہے اور اپنے معالج سے میری اس دوران دو تین بار بات کرائی۔بہرحال جو رب کی مرضی ، ڈیرہ غازی خان کے معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے ہارون بھائی کے نانا محترم کو ساٹھ کی دھائی میں تعلیمی خدمات پہ امریکی صدر نے ملاقات کیلیے خصوصی طور پر بلوایا تھا۔ڈاکٹر صاحب ہم گواہی دیتے ہیں کہ اسلام سے آپکی وابستگی کسی احساس کمتری کے بغیر تھی ، اپنے نظریات میں یکسو اور جرأت مند ہارون رشید اپنے رب کے پاس لوٹ گئے۔یارب ہمارے اس بھائی کی کامل مغفرت فرمادیجئے۔‘‘
لاہور سے ساجد ناموس جو طویل عرصے سے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں ، اپنی یادیں سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،’’پچھلے سال نومبر میں گاڑی چوری ہوئی تو ایک دن بعد میسنجر پر ایک پیغام آیا ’’بڑا افسوس ہوا۔لیکن پریشان نہ ہونا ، یہ بتاؤ میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘معمول سے مختلف پیغام پڑھا تو کچھ عجیب لگا اور حوصلہ بھی ملا ۔جوابا ًتہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔دو دن بعد پھر پیغام آیا ’’گاڑی کا کچھ پتہ چلا ؟ ‘‘روایتی جواب دیتے ہوئے کہا ’کہ ’کوشش جاری ہے دیکھیں ‘‘۔تو جواب آیا۔ ’’مجھے بتاؤکیا کرسکتا ہوں‘‘، میرے دل میں آیا کہوں آپ گاڑی دے دو،لیکن پھر جواباً رسمی شکریہ ادا کیا ۔تو ان صاحب نے کہا ’’لگتا ہے آپ نے پہچانا نہیں ‘‘، کہا’’ جی ۔واقعی نہیں پہچانا ‘‘تو انہوں نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں ساتھ رہے ہیںاور میں جمعیت کا رکن تھا۔میں نے کافی ذہن پر زور دیا پر کچھ یاد نہ آیابات ختم ہوگئی۔چند دن بعد دوبارہ پیغام آ گیا’’گاڑی کا کچھ بنا ؟‘‘، جواباً بتایا ’’کوشش جاری ہے‘‘۔تو کہتے آپ نے کچھ بتایا نہیں سردی آ گئی ہے کیا کرنا ہے گاڑی کا؟ پھر ساتھ ہی ایک اور میسج آیا کہتے’’آپ کا مسئلہ نہیں ہے آپ تو بائیک پر بھی آ جا سکتے ہو،بیگم بچوں کو دِقت ہوگی ایسے کریں میرے پاس گاڑی کھڑی ہے وہ بھیج دیتا ہوں ، جب گاڑی کا مسئلہ حل ہوجائے تو واپس دے دینا ‘‘۔جواباً شکریہ ادا کیا تو اُن کی “ہٹ”گئی اور بولے “بس آپ گاڑی لے جاؤ آپ کو دے کون رہا ہے؟ گاڑی تو ہمارے بھتیجوں اور بہن کے لیے ہے‘‘۔اب میں ان کو منانے کی کوشش کر رہا ہوں اور وہ ہیں کہ مان کر نہیں دے رہے۔بلا آخر مجھے ان کی باقاعدہ منت سماجت کرنا پڑی تو اس وعدے پر وہ مانے کہ جب بھی کہیں آنا جانا ہو میسج کردینا گاڑی گھر آجایا کرے گی۔جیسے ہی بات ختم ہوئی تو میری آنکھوں میں شکرانے کے آنسو تھے اور میں سوچ رہا تھا اچھا ہی ہوا گاڑی چوری ہوگئی ورنہ ایسے معجزے کہاں دیکھنے کو ملتے۔ اس کے بعد ایک دن اتفاق سے سعد مقصود بھائی گھر پر آئے تھے ان سے گفتگو میں تذکرہ ہوا تو بولے آپ کو نہیں پتہ وہ کون ہیں وہ ہارون بھائی ہیں یو ایم ٹی میں ہوتے ہیں۔سعد نے تفصیلی تعارف دیا تو یاد آیا میرا ان سے تو دور جمعیت میں بس رسمی سا تعلق تھا اور 13 سال بعد اب دوبارہ رابطہ ہوا تھا۔میں ششدرتھا۔یہ انسان ہے یا فرشتہ۔جس نے اتنی محبت،چاہت اور اپنائیت دی اور مجھے یوں لگا مجھ سے زیادہ پریشان گاڑی چوری پر ہارون بھائی ہوں اور سچ تو یہ ہے کہ ہارون بھائی آپ کی وجہ سے میں نے اب تک گاڑی نہیں لی۔پتہ ہے کیوں آپ چند دنوں کے بعد جب پوچھتے تھے آپ نے کہیں جاناتو نہیں گاڑی بھیج دوں تو یقین مانیں صرف آپ کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک دن میسج کردیا۔تھوڑی دیر بعد گاڑی بمعہ ڈرائیور میرے پاس موجود تھی۔ہارون بھائی نے ایک دن ایک ٹاک شو کا لنک بھیجا تو سننے کے بعد چند امور کی جانب میں نے توجہ دلائی تو بڑے ہی توجہ سے بات سنی اور کہا اگلی مرتبہ آپ بہتری دیکھیں گے۔ہارون بھائی جلدی کس بات کی تھی۔کیا آپ کو نہیں پتہ۔ ابھی ہم نے سی پیک اورتحریک پر گفتگو کے حوالے سے ایک تفصیلی نشست کرنا تھی۔ہارون بھائی آپ تو ایک میسج پر بیرون ملک دورے پر ہو یا اندرون ملک کسی دوسرے شہر میں اتنا فاسٹ ریپلائی دیتے تھے یوں لگتا جیسے آس پاس ہوں۔اب آپ میری کسی بات پر جواب نہیں دے رہے۔پتہ نہیں کیسے اتنا وقت نکال لیتے تھے دوسرے افراد کے لیے۔ایک مرتبہ کسی دوست کے بچے کے آپریشن کے لیے رقم اکھٹی کرنے کا اسٹیٹس دیا تو رابطے پر اکاونٹ نمبر بھیجا ایک دن کے بعد رابطہ کیا پیسے بھیجو تو بتادینا مجھے حساب رکھنا ہے سارا۔اتنا خیال ،اتنی فکر ، اتنا جذبہ۔کچھ سیکھنے ،کچھ عمل کا موقع تو ہمیں دیتے۔ہارون بھائی آپ تو لوگوں کا خیال رکھنے ،ہمدردی دینے ،پریشانی سمیٹنے،چہرے پر مسکراہٹ لانے والے تھے۔ہارون بھائی آپ تو دنیا میں لگتا تھا کہ صرف دلوں کو فتح کرنے آئے تھے اور واقعی آپ تو فاتح بن کر چل دئیے۔‘‘
کراچی سے معروف بلاگر ، کالمسٹ رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں کہ ۔’’فیس بک پر اکثریت تو ان لا اُبالی نوجوانوں کی ہی ہے جو اپنے توہین آمیز رویے سے جانے جاتے ہیں لیکن یہاں کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جو اپنے اپنے میدان کی ماہر اور معتبر ہیں۔ ان میں بالخصوص یونیورسٹیوں کے اساتذہ قابل ذکر ہیں جن کے ہونے سے آکسیجن میسر رہتی ہے۔ ایسے ہی اساتذہ میں سے ایک ہارون رشید تھے جو آج یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں لیکچر دیتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہارون رشید پاک چائنا امور کے ماہر ہونے کی حیثیت سے اسی یونیورسٹی کے سی پیک سینٹر کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ کچھ ہی عرصہ قبل انہوں نے انبکس میں وعدہ لیا تھا کہ اگلی بار جب بھی لاہور آؤں ان سے ضرور ملوں۔ میں نے یہ وعدہ پورے عزم کے ساتھ کر لیا تھا کیونکہ ان جیسے لوگوں سے ملنا وقت اور زندگی کو قیمتی بنا دیتا ہے مگر میری یہ حسرت حسرت ہی رہ گئی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہارون بھائی کی مغفرت فرمائے اور ان سے راضی ہوجائے۔ آمین ‘‘
کراچی سے ڈاکٹر فیاض عالم اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’راجن پور سے تعلق رکھنے والے تحریکی گھرانے کے اس نوجوان سے ملاقاتیں تو چند ایک بار ہی ہوئیں لیکن سچ یہ ہے کہ ُاس نے دل کے کسی گوشے میں جگہ بنالی تھی۔ اُن سے ملاقات کرکے اور بات کرکے ایسا لگتا تھا کہ کوئی بہت قریبی رشتہ ہے- کوئی بہت قیمتی تعلق ہے اور یہ احساس کیوں نہ ہوتا ؟ہم اور وہ ایک ہی پیر کے مرید تھے ، وہ پیر و مرشد مودودیؒجنہوں نے بغیر بیعت لئے اپنی تحریروں سے لاکھوں کروڑوں دل و دماغ کو سحر زدہ کردیا ۔ہارون رشید موجودہ ہلکے معاشرے کے بھاری آدمی تھے۔صاحب کردار، صاحب مطالعہ اور بازوق۔وہ چھوٹی سی عمر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوارہے تھے ۔ملک میں اور بیرون ملک لوگوں کو اپنی علمی و اخلاقی صلاحیتوں سے گرویدہ بنارہے تھے- سی پیک کے حوالے سے اُن کی گفتگو ان کے علم اور بہترین تجزیاتی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہوا کرتی تھی۔ہم ان کے اچانک بچھڑجانے پر مغموم ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ ایک بہت ہی اچھا فرد عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہوا!۔یہی سب سے بڑی حقیقت ہے
زندگی موت کی امانت ہے۔‘‘ہمارے دیرینہ دوست شمس الدین امجد اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر ہارون الرشید ان اولین احباب میں سے تھے، سوشل میڈیا کے ذریعے جن سے تعارف ہوا، جوپھر دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ پاک چائنا امور میں اب وہ اتھارٹی سمجھے جانے لگے تھے، شب و روز کی محنت اور ذاتی دلچسپی و لگن سے انھوں نے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد جماعت کو ترقی کرتا اور آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے تھے اور اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کرنے کیلیے بھی ہر وقت تیار رہتے تھے۔جماعت سے تعلق کوپورے فخر کے ساتھ بیان کرتے تھے۔‘‘لاہور سے ہی طلحہ ادریس اپنے درد کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ ’’ بہت پیار کرنے والے پیارے محترم ہارون الرشید بحرِ بیکراں دنیا کو حیراں چھوڑ کر وہاں جابسے جہاں یقیناََ ان کے لیے نہ کوئی پریشانی ہوگی نہ کوئی غم ۔بوڑھے باپ نے اپنے جواں سال فرزندِ ارجمند کو سپردِ خاک کردیا ہے اس لیے کہ رب کا حکم یہی تھا۔ شریک حیات نے اس غمِ جاں کو سہہ لیا ہے اس لیے کہ جنت دارالقرار ہے۔ تین معصوم بیٹوں کے آنسو بھی پونچھ دیے جائیں گے اس لیے کہ ان کی نسبت درِّ یتیم آقا و مولٰی سے قائم ہوگئی ہے۔ جملہ دوست احباب اور تحریکی ساتھیوں کو بھی قرار آجائے گا اس لیے کہ دعائیں ان کا سہارا اور اعمالِ صالحہ ان کا جادہ ہے۔شاگردان جمع خاطر رکھیں اس لیے کہ ان کا استاد وسیلہِ ظفر اپنے پیچھے ان کے لیے چھوڑ گیا ہے۔ عالمی معاملات پر ماہرانہ رائے لینے والے اب پریشان نہ ہوں اس لیے کہ جانے والے نے چلے ہی جانا تھا۔‘‘مانسہرہ سے عامرہزاروی لکھتے ہیں کہ’’ڈاکٹر صاحب کی موت پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج دنیا سے وہ نوجوان گیا ہے جس کے سینے میں اسلام کا درد اور تڑپ تھی،باوجود اختلافات کے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم جیسے لوگ تو دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر کہیں کھو گئے مگر ڈاکٹر صاحب کو اسلام ، نبی اکرم ﷺ، اور خوف خدا یاد رہا ، آپ انہیں نہیں بھولے، مجھے یہ بھی یقین ہے کل رب انکی تڑپ کا خیال رکھے گا اور آپ کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا، جوانی میں اسلام کا درد پالنا آسان کام نہیں آپ نے یہ درد پالا ،خدا آپ کی تمام منزلیں آسان فرمائے۔آمین۔معروف بلاگر و کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی اپنی وال پر رقم طراز ہیں کہ ’’ ڈاکٹر ہارون کی اچانک موت نے شدید دھچکا پہنچایا ہے ، ابھی تک صدمے سے باہر ہی نہیں آ پایا، کچھ لکھنے کا ارادہ ہے مگر ہمت نہیں ہو رہی۔بڑے ہی نیک سیرت انسان تھے۔ ایسے بھلے آدمی کم ہی دیکھنے کوملے۔ صحافت نے خاصا سخت دل بنا دیا ہے، اتنے سانحات پر لکھا ، ایڈیشن بنائے کہ جذبات پر قابو پانا آگیا تھا،مگر ڈاکٹر ہارون الرشید کے انتقال کی خبر سے دل جیسے پھٹا جا رہا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ جانے والا دل کی اتنی گہرائیوں میں سما چکا تھا۔‘‘ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ڈاکٹر ہارون الرشید کو تحریک اسلامی کا روشن ستارہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہایت کم عمری میں انھوں نے معاشرے بالخصوص اپنی فیلڈ میں اپنا مقام بنا لیا تھا، اُن سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اللہ پاک اُن کے درجات بلند فرمائے ۔آمین

حصہ