بے مثال رہنما قائد اعظم محمد علی جناح

684

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
25دسمبر 2015ء کو پاکستانی قوم بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا 140 واں یوم پیدائش منا رہی ہے۔ اس عظیم بے مثال رہنما کی بے شمار قربانیوں‘ قیام پاکستان کے لیے انتھک اور مخلصانہ طویل جدوجہد اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حصول اور دنیا میں سب سے بڑی نظریاتی ریاست کے قیام کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کا ذکر بھی ضروری ہے۔ آج نہ صرف پوری ملت اسلامیہ اور بالخصوص پاکستان کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کے اسباب اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو قائداعظمؒ کے ارشادات و ہدایات‘ ان کی جدوجہد اور سنہری اصولوں اتحاد‘ تنظیم اور یقین محکم کو اپنانے اور ان پر پوری طرح عمل پیرا ہونے‘ ان کے نقش قدم پر چلنے‘ ان کے عزم و عمل کو زندگی کے ہر شعبے میں اختیار کرنے اور انفرادی اور اجتماعی عملی زندگی کا مکمل طور پر حصہ بنانے کی ضرورت ہمیشہ سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔
بابائے قوم نے اپنے بے مثال تدبر‘ مخلصانہ اور بے لوث جدوجہد کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے صرف سات سال کے مختصر عرصے میں برطانوی سامراج اور ہندو کانگریس کی تمام سازشوں اور عزائم کو ناکام بنا کر قومی اتحاد و یکجہتی کے بے مثال مظاہرے کی بدولت پاکستان کے قیام کو ممکن کر دکھایا۔ ان کی ساری جدوجہد آئین اور قانون کے دائرے کے اندر تھی۔ قائداعظم کی رہنمائی میں مسلمانوں کی اس نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا جس کا خواب سر سید احمد خان‘ علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے مسلمان رہنمائوں نے دیکھا تھا۔ یہ قائداعظم کی مخلصانہ قیادت‘ انتھک جدوجہد اور مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے ناممکن اور محال تصور کیا جانے والا تقسیم ہند کا نظریہ عملی جامہ پہنے ہوئے دنیا کے نقشے پر نقش دوام بن کر ابھرا اور مسلمانان ہند کو ایک آزاد وخود مختار اور نظریاتی ریاست مل گئی۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصے پہلے بابائے قوم نے بعض مغربی اخبار نویسوں کو آئین پاکستان کے بارے میں دو ٹوک بتا دیاتھا کہ ہمارا آئین تو چودہ سو سال پہلے سے تیار صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن اس آزاد ریاست میں ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ وہ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے اور اپنے مذہبی نظریات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوںگے۔ قائداعظم نے اپنی بہت ساری تقاریر میں اس بات کا اعادہ کیا۔ 11 اکتوبر 1947ء کو انہوں نے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان حصول مقاصد کا ایک ذریعہ ہے‘ منزل نہیں۔ اور مقصد یہ ہے کہ ہم آزادی کی زندگی بسر کریں۔ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے سانس لے سکیں اور اس ملک کو اپنی روشن خیالی‘ صحت مند سیاسی شعور و ادراک اور ثقافتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ترقی دے سکیں۔ سماجی و معاشرتی اصولوں کا احترام کیا جائے‘ رواداری اور انصاف کا دور دورہ ہو۔
بانیٔ پاکستان کے 140 ویں یوم پیدائش پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد قائداعظم کے ارشادات‘ ان کی ہدایات اور ان کی خواہشات و تمنائوں کو عملی جامہ پہنانے کی بات اپنی تقاریر میں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ سب قائدین ان تمام خصوصیات سے خالی ہیں جو قائداعظم میں تھیں۔ پاکستان کے قیام کو 68 سال ہوچکے ہیں مگر آج بھی حکمران طبقہ اپنی خود غرضانہ پالیسیوں کو قائد کے افکار سے ہم آہنگ اور جائز قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے ان کے اس رویے کی وجہ سے ملک کے عوام کی اکثریت محرومی اور مایوسی کا شکار ہے۔ مذہبی فرقہ واریت‘ گروہ بندی‘ نسلی اور علاقائی اختلافات‘ لسانی عصبیت اور فقہی اختلافات کے سائے طویل سے طویل تر ہوتے جارہے ہیں۔ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہر قسم کا انتشار اور افراتفری میں اضافہ اپنے عروج پر ہے۔
شہریوں کے جان و مال کا تحفظ‘ امن و سلامتی اور رواداری کا فقدان ہے۔ قائداعظم ساری زندگی رواداری‘ بالغ نظری اوروسیع القلبی‘ جمہوریت‘ سماج انصاف پرمبنی معاشرے کی عملی تشکیل پر زور دیتے رہے۔ پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست میںاستیصال سے پاک معاشرے کے قیام کے سبب بڑے داعی رہے۔ مگر پاکستان کے جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں‘ بیورو کریسی اور کرپٹ سیاست دانوں کی ملی بھگت نے قائداعظم کے حسین خواب کا شیرازہ بکھیر دیا۔
مسلمانان ہند کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یوںتو مسلمانان ہند پر بڑے بڑے مشکل دور آئے مگر ان کے لیے مشکل ترین دور اورنگزیب کے انتقال کے کچھ عرصے کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا‘ جو مسلمانوں کے لیے قومی حوالے سے زندگی و موت کی کشمکش کا دور تھا۔
بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباً سات سو سال حکومت کی مگر مذہبی حوالے سے اقلیت ہی میں رہے اور ایسی اقلیت جسے ہندوستان کا اکثریتی طبقہ کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ خود مسلمان بھی عدم تحفظ کا شکار تھے۔ چنانچہ 1707ء میں اورنگزیب کے انتقال کے بعد اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا دور مسلمانوں کے لیے کڑی آزمائش‘ جدوجہد‘ ذلت و خواری اور قومی وجود کے لیے قیامت کا دور تھا۔ انگریز تاجروں نے تجارتی مراکز‘ جاگیرداروں کے حصول‘ بحری بیڑے کا قیام اور شاہی دربار میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سازشیں اور سیاسی جوڑ توڑ شروع کردیا تھا۔
1757ء کی جنگ پلاسی میں میر جعفر کی غداری کے بعد سراج الدولہ کی شکست نے انگریزوں کو ایک سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر قدم جمانے کا موقع دے دیا تھا۔جنگ پلاسی کے بعد جنگ بکسر میں 1764ء مغل بادشاہ شاہ عالم اور میر قاسم کی مشترکہ فوج نے انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے بعد بنگال کے مسلمانوں کے مقدر کا فیصلہ سنا دیا۔
میسور میں ٹیپو سلطان کے ساتھ چوتھی جنگ میں جو 1799ء میں انگریزوں اور مرہٹوں کے متحدہ محاذ کے ساتھ ہوئی۔ میر صادق کی غداری نے ٹیپو سلطان کو شکست دلائی اور وہ شہید ہوگیا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے ساتھ ہی ہندوستان سے مسلمانوں کی عسکری قوت کا تقریباً خاتمہ ہوگیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کی سماجی و سیاسی قیادت علماء کے ہاتھوں میں رہی۔ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی جس نے مرہٹوں کی کمر توڑ دی۔
شاہ ولی اللہ نے ہندوستان کے اہم مسلمان سرداروں کو خطوط لکھے جس میں انہوں نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلمان حکومتوں کی ضرورت پر زور دیا۔ یہی مطالبہ پاکستان کا ایک بنیادی محرک بنا۔ تحریک پاکستان کے دوران علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بھی اپنی جدوجہد کی بنیاد اس احساس پر رکھی اور غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جغرافیائی طور پر ملحق مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل خطہ زمین کا حصول ہی مسلمانوں کے اس دیرینہ خواب کی تعبیر ہے۔
1808ء میں رنجیت سنگھ نے پنجاب میں سکھ حکومت قائم کرکے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے۔ شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا تو سید احمد شہید نے پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے ظلم و ستم سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کی تحریک کا آغاز کیا۔ انہوں نے صوبہ سرحد کے علاقوں میں اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے جہاد شروع کیا۔ مگر رنجیت سنگھ نے مقامی سرداروں کو کثیر سرمایہ رشوت کے طورپر دے کر اپنے ساتھ ملالیا۔ ان کی اس غداری سے بالا کوٹ کے مقام پر مجاہدین کو شکست ہوئی اور سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید ہوگئے۔ مسلمانوںکی عسکری قوت پارہ پارہ ہوچکی تھی۔ ہندوستانیوں کی طرف سے انگریزوں کے طوق غلامی کواتار پھینکنے کی آخری کوشش 1857ء کی جنگ آزادی میں کی گئی جو ناکام ہوئی اور اس کے بعد انگریزوں نے مکمل طور پر ہندوستان پر قبضہ کرلیا اور برصغیر کو برطانوی حکومت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ شکست خوردہ مسلمانوں کو لاکھوں کی تعداد میں پھانسی دے دی گئی‘ گولیوں اور توپوں سے اڑا دیا گیا۔ اس دور میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
انگریزوں کے اس ظلم و ستم کے باوجود مسلمان اپنے دل سے جذبۂ حریت اور کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کی آرزو ختم نہ کرسکے۔ علماء نے بھی جہاد سے مسلمانوں کو غافل نہ ہونے دیا۔ ریشمی رومال کی تحریک اسی سلسلے کی آخری کڑی تھی جس کے روحِ رواں محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی تھے۔ اس تحریک کے منصوبے کے مطابق ترکی فوج کو ہندوستان پر حملہ 19 فروری 1915ء کو کرنا تھا مگر یہ راز فاش ہوگیا۔ مولانا محمود الحسن کو مکہ سے گرفتار کرکے مالٹا میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس تحریک کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی قیادت مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی طرف منتقل ہوگئی۔ قائداعظم برطانیہ میں ’’لنکن اِن‘‘ سے تعلیم یافتہ تھے اور برطانیہ کی اس درس گاہ میں اس لیے داخلہ لیا کہ اس درس گاہ کے صدر دروازے پر دنیا کے عظیم قانون دانوں کی فہرست میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک سب سے اوپر اور پہلے نمبر پر لکھا تھا۔ قانون کی سند لے کر جب وہ لندن سے وطن واپس آئے اور بمبئی میں پریکٹس شرع کی تو ان سے کہا گیا کہ قانون کے پیشے میں پہلے ہی بڑے بڑے نام موجود ہیں کسی نئے آنے والے کے لیے ترقی کے امکانات کم ہیں۔ یہ سن کر قائداعظم نے فرمایا ’’زندگی کے ہر شعبے میں سب سے اوپر کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے اور یہ بات انہوں نے عملاً پائے ثبوت تک پہنچا دی۔ قانون کے شعبے میں انہوں نے پورے برصغیر میں وہ پوزیشن حاصل کی کہ سب سے ممتاز حیثیت کے حامل قرار پائے۔
حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کی کامیابی کا راز ان کی بصیرت‘ امانت‘ ذہانت‘ صداقت پر پختہ یقین اور اس پر عمل پیرا ہونا تھا۔ کانگریس کی چوٹی کی لیڈر مسز سروجنی نائیڈو جو Night Angle کہلاتی تھیں وہ لکھتی ہیں کہ ’’اگر تمام کانگریس لیڈر مسلم لیگ میں ہوتے اور تنہا مسٹر جناح کانگریس میں ہوتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔‘‘

23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز اجلاس میں قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے بعد طوفان تلاطم کا جس پامردی سے قائداعظم نے مقابلہ کیا اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وائسرائے ہند لارڈ لن تھگو اور سیکرٹری آف اسٹیٹ لارڈ ڈزٹ لینڈ نے صاف الفاظ میں کہا کہ مسٹر جناح اور مسلم لیگ کے مطالبات ناقابل عمل ہیں۔ لارڈ ڈزٹ لینڈ نے برصغیر کی تقسیم کو تباہ کن اور ہندوستان کی مکمل شکست و ریخت کے مترادف عمل قرار دیا تھا۔ گاندھی جی نے قائد اعظم سے مذاکرات کے اختتام پر رخصت ہوتے ہوئے کہا:
“Cut me into two before you Cut Indian into two”
جواہر لعل نہرو نے کہا ’’ہماری سمجھ میں تو پاکستان کا مطلب ہی نہیںآتا۔‘‘
قائد اعظم نے اس کے جواب میں فرمایا ’’اگر جواہر لعل نہرو کی سمجھ میں پاکستان کا مطلب ہی نہیں آتا تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جس کی وہ اتنی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔‘‘ لارڈ ویول وائسرائے ہند کے اس بیان پر کہ ’’ہندوستان ایک قدرتی وحدت ہے آپ جغرافیہ تبدیل نہیں کرسکتے۔‘‘ قائد اعظم نے برجستہ جواب دیا تھا کہ اشوک کے زمانے سے آج تک ہندوستان کبھی وحدت نہیں رہا۔ آج بھی ایسی ریاستیں موجود ہیں جن میں ان کا اپنا سکہ چلتا ہے۔ کانگریس نے کیبنٹ مشن پلان کو محض اس لیے سبوتاژ کیا کہ قائد اعظم کی فراست و تدبر نے پلان کو منظور کرکے کانگریس حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ پورا بنگال مع آسام‘ پورا پنجاب‘ سرحد‘ سندھ‘ بلوچستان ایک ناقابل تسخیر اسلام کا قلعہ تھا جس کا اعلان قائداعظم نے کیا۔ انہوں نے آزاد مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرکے مسلمانوں کے صدیوں پرانے خواب کی نشاندہی کردی۔ جس کے بعد ہندوستان کے ہر حصے میں بکھرے ہوئے مسلمان متحرک اور متحد ہوگئے اور انہوں نے اپنی بے مثال قربانیوں سے ناممکن کو ممکن بنا کر حاصل کرلیا۔
قائد اعظم ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کے عظیم ترین بے مثل رہنما تھے جنہوں نے محض اپنی سیاسی بصیرت‘ حکمت عملی سے وہ بازی جیت لی جسے بڑے بڑے مسلمان حکمران جرنیل علما ہار چکے تھے اور اپنی ذہانت کے بل ہوتے پر غلامی کی اُن زنجیروں کو توڑ دیا جن سے مسلمان گزشتہ ڈھائی سو سال کی کوششوں کے باوجود رہائی حاصل نہیں کرسکے تھے۔ انہوں نے انگریز حاکموں کو انہی کی زبان‘ انہی کے محاورے‘ انہی کے فلسفے اور انہی کی سیاسی زمین پر شکست دی۔ قائداعظم کا سب سے بے مثل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ڈھائی سو سال سے مایوس پژمردہ شکست و ریخت کے شکار مسلمانوں کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو مجتمع کیا‘ متحد کیا اور آئینی حدود میں رہ کر ان کی منزل تک پہنچایا۔ مسلمانوں کو ایک نیا سیاسی شعور‘ امنگ اور جذبہ دیا اور انہیں ان کی خوابیدہ صلاحیتوں اور سیاسی قوت سے روشناس کرایا جس سے وہ عرصہ ہوا محروم ہوچکے تھے۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان کے ساتھ پاکستان کے آئین کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل قبول ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے۔‘‘
افسوس کہ قیام پاکستان کے 68 سال بعد بھی کسی حکومت نے نفاذِ شریعت کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا نہ صرف یہ بلکہ اپنی حکومتوں کو مضبوط کرنے اور ذاتی مفادات کی خاطر یہ کوشش کی گئی کہ عوام کو ایسے مسائل سے دوچار کر دیا جائے کہ وہ نفاذِ اسلام کے وعدے بھول جائیں۔ ہمارے خوابوں کی سرزمین انتشار‘ بدامنی‘ جھوٹ و فریب ہر محکمے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا شکار ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت‘ فرقہ واریت‘ طبقاتی سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام نے اس ’’پاکستان‘‘ کا خواب چکنا چور کردیا جس کا خواب قائد اعظم اور مخلص رہنمائوں نے دیکھا تھا۔ لسانی تعصبات‘ صوبائی گروہ بندیاں ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔
منافقت کا زہر ہمارے قومی وجود میں جس طرح سرایت کر گیا ہے اس سے نہ عسکری قیادت بچ پائی ہے نہ سیاسی قیادت۔ اس کے برے اثرات عوامی سطح پر بھی نمایاں ہیں۔ آج پاکستانی معاشرے میں بگاڑ کی جو صورتیں ابھری ہیں ان میں سب کی کوتاہیاں شامل ہیں۔ آج پاکستان میں انقلاب اور نئے نظام کی باتیں ہو رہی ہیں مگر شعائر اسلام اور نفاذ شریعت فلاحی مملکت کی کوئی بات نہیں کر رہا۔ آج پاکستان ایک آزاد مملکت اسلامیہ قائداعظم کا خواب ‘ سرسید کی تحریک علی گڑھ کا ثمر ہے‘ یہ علامہ اقبال‘ سید امیر علی‘ نواب محسن الملک‘ نواب سلیم اللہ خان‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا محمد علی جوہر‘ حسرت موہانی‘ سر آغا خان‘ فضل الحق‘ مولانا ظفر علی خان‘ مولوی عبدالحق‘سردار عبدالرب نشتر‘ عبداللہ ہارون اور لیاقت علی خان جیسے اکابرین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اُن شہیدوں کے خون کا خواب ہے جنہوں نے ہجرت میں اپنی جانیں قربان کیں۔ پاکستان ہمارا پہلا اور آخری پڑائو ہے۔ اس پڑائو اور پناہ گاہ کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ قائداعظم تو اپنا کام کر گئے اب ہمیں اس خطے کی حفاظت کرنا ہے جس کے لیے قائداعظم نے اپنی صلاحیت‘ذہانت اور سب سے اہم چیز صحت نچھاور کی۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے احسانات کو یاد رکھیں اور اس آزاد وطن کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ کو پھوڑ دیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

حصہ