سندھ ترقی میں سب سے آگے

299

زاہد عباس
پچھلے دنوں کراچی شدید سردی کی لپیٹ میں رہا جبکہ ہمارا محلہ سیوریج کے گندے پانی کی لپیٹ میں رہا جس کی وجہ سے علاقے میں سردی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا موسم سرد ہوتے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں بچے آ گ تاپتے اور ہماری گلیوں میں گندے پانی کی نالیاں ٹاپتے دکھائی دیے، ہمارے ایک دوست ہر سال چھٹیاں گزارنے شمالی علاقہ جات جایاکرتے ہیں ہمیشہ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ چلیں بہتے دریائوں ’اور آبشاروں سے گرتا پانی بچپن سے ہی ان کی کمزوری رہی ہے جب بھی وہ واپس اتے ہیں ہمیں وہاں کی کسی نہ کسی جھیل کے متعلق ضرور بتاتے ہیں اس مرتبہ تو وہ اس قدر ناراض ہوے بولے کیا کنجوس بنے ہوئے ہو پیسے نہیں ہوتے تو مجھ سے لے لیا کرو وہاں پہاڑوں اور چشموں سے آتے پانی کو دیکھ لو تو تمہاری طبیعت خوش ہو جائے خاصی دیر لیکچر سننے کے بعد میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے ان سے اپنی جان چھڑائی اب یہ بات میں کیسے اپنے دوست کو بتاؤں کہ جن جھرنوں اور جھیلوں کے نظاروں کا ذکر وہ میرے ساتھ کرتے ہیں میں ایسے مناظر ہر روز اپنے محلے میں اُبلتے گٹروں سے بہتے پانی کی صورت دیکھتا رہتا ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ میرے اندر اب جھیلیں اور جھرنے دیکھنے کی کوئی خواہش نہیں۔ سال کے بارہ مہینے جب کسی کو اپنے ہی علاقے میں جوہڑ دیکھنے کو مل جاتے ہوں تواس کے لیے اتنی دور جا کر پیسوں کو آ گ لگانے کی کیا ضرورت اور پھر استمعال شدہ سیوریج کے پانی کا صاف شفاف جھرنوں سے کیا مقابلہ گندے پانی کے اپنے ہی رنگ ہوا کرتے ہیں، محلے میں کسی نے واشینگ مشین لگا لی تو گٹر سے صابن ملا سفید روزمرہ کے گھریلو استعمال کے مطابق کالا اگر ایک دو روز بہاؤ میں کمی آ جائے تو کائی جم جانے پر یہ پانی ہرا ہو جاتا ہے اب مختلف رنگ لیے گندے پانی کے پاس کھڑے ہو کر موبائل سے سیلفیاں بناؤ اور مختلف جگہوں کے نام سے دوستوں کو سینڈ کرکے ڈھیروں لائیک حاصل کرو، اپنے علاقے کی حالت دیکھ کر کبھی کبھی خیال آ تا ہے کہ محلے کے چیدہ چیدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر گلیوں میں کاشت کاری شروع کر دوں کہتے ہیں کہ سیوریج کا پانی فصلوں کے لیے مفید ہوتا ہے کیوں کہ گٹر سے ابلتے پانی میں اعلیٰ قسم کی کھاد شامل ہوتی ہے اس لیے اس کام میں نقصان کا خدشہ نہیں۔ ویسے تو واٹر بورڈ کی جانب سے شہریوں کو پینے کے لیے جو پانی سپلائی کیا جارہا ہے اس میں انسانی فضلہ یعنی اصل کھاد سمیت انسانی زندگی کے لیے مضر صحت وہ تمام اٹم موجود ہیں جو فی زمانہ کاشت کاری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، موسم سرما آ تے ہی سارے شہر میں خشک میوہ جات کی بھر مار ہو جاتی ہے، سردیوں کے موسم میں مونگ پھلی بیچتے ریڑھی والوں کی آ وازیں ہوں اور بچے مونگ پھلی نہ کھائیں تو تشنگی رہ جاتی ہے، آپ بازار سے اعلی معیار کی اشیاء خورونوش خرید کر لے آئیں بچوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے ہی خریدی ہوئی چیزیں کھانا پسند کرتے ہیں شاید یہ ہر گھر کے بچے کی فطرت میں شامل ہوتا ہے، ایسی ہی حقیقت کا سامنا ہمیں یوں کرنا پڑا کہ ہمارے علاقے میں آتی سڑک پر جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں کی وجہ سے ریڑھی والوں نے ہماری گلیوں کا بائیکاٹ کردیا یوں اس سال گھر کے بچے خشک میوہ جات کھانے سے محروم رہے، یہ بات تو ماننے کی ہے کہ ہمارے علاقے میں کھڑے سیوریج کے پانی کی وجہ سے لوگوں کو ایک قطار میں چلنے کا سلیقہ آ گیا ظاہر ہے گندگی سے بچنے کے لیے جب دن بھر ایک پگ ڈنڈی پر چلا جائے تو یہ ہنر سیکھانا کوئی بڑی بات نہیں، کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات تو سچ ہے کہ سڑکوں پر بہتے سیوریج کے پانی سے بجتے بجاتے گزرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اس کے لیے خاصے تجربے کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیچڑ کے درمیان ایک ترتیب کے ساتھ اینٹں لگا کر رستہ بنانا بچوں کا کھیل نہیں میں نے جہاں جہاں بھی اس طرح سے بنی راہ داریاں دیکھیں داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسے بناے گئے رستوں پر چلنے والوں کی صلاحیت بجا طور پر فنکارانہ ہوا کرتی ہے۔ اپنے جسم کے توازن کو برقرار رکھ کر اٹھنے والے قدم کو اگلے بلاک پر رکھتے ہوئے بارہ سے پندرہ فٹ چوڑی اوپن سیوریج لائن کامیابی سے عبور کرنا بڑے دل والوں کا کام ہے۔ حکمرانوں نے کراچی کے عوام کو ترقی کے نام پر کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ان کے اقدامات کی بدولت کراچی کے عوام نے کچرے کے ڈھیروں ابلتے گٹروں ٹوٹی سڑکوں اور وبائی امراض سے لڑنے کا فن ضرور سیکھ لیا۔
قارئین: ایک طرف یہ صورت حال تو دوسری طرف سندھ حکومت جس کے نزدیک تمام مسائل حل ہو چکے ہیں پاکستان بھر کے عوام کو یہ بتانے میں مصروف ہے کہ سندھ ترقی میں سب سے آ گے جی ہاں، سندھ ترقی میں سب سے آگے، کوئی لطیفہ نہیں بلکہ وہ اشتہار ہے جو حکومت سندھ کی طرف سے باقاعدہ طور پر پاکستان بھر کے تقریباً تمام ہی الیکٹرونکس و پرنٹ میڈیا پر دکھایا جارہا ہے کروڑوں روپے کے عوض نشر کروائے جانے والے اس اشتہار کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں میگا پراجیکٹ، سیکڑوں کلومیٹر تعمیر کی گئی کشادہ سڑکوں، کراچی کے لیے پینے کے صاف پانی کے منصوبوں، آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ، صحت کی سہولیات سے یونیورسٹیوں کے قیام تک کا سفر کامیابی کے ساتھ طے کر تے دکھایا گیا ہے۔ اب اگر اشتہار دیکھ کر بھی کوئی سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کیے گئے ان عوام دوست کامیاب منصوبوں کا اعتراف نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروا لے، سندھ میں ہوتی ترقی پر میڈیا میں دکھائے جانے والے اشتہارات کو دیکھ کر آ پ پیپلز پارٹی خاص کر حکومت سندھ کی کم از کم اس بات کو ضرور ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ واقعی، بھٹو زندہ ہے، ظاھر ہے جن منصوبوں کی تکمیل پر سندھ حکومت یہ نعرہ مارتی ہے کہ سندھ ترقی میں سب سے آگے، وہ کہیں نہ کہیں تو مکمل ہوئے ہوں گے فرق صرف اتنا ہے کہ ترقی جانچنے کاجو چشمہ سندھ کے حکمرانوں کے پاس ہے وہ ہمارے پاس نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری آ نکھ دور حاضر کے مطابق ترقی کرتے جدید سندھ کو بھی کھنڈرات بنا کر دکھاتی ہے ورنہ تصویر کا دوسرا رخ ایسا نہیں سارا مسئلہ ہماری ھی آنکھوں کا ہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ھم وہ آنکھیں لگوا لیں جس سے کراچی سمیت سندھ بھر میں ہر طرف ترقی خوشحالی اور ’بھٹو ذندہ ہے‘ دکھائی دے۔
سندھ کی حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے ترقی کے دعوے اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ ان کی نزدیک ترقی کیا ہے، ماضی بعید کی بات ایک طرف مسلسل دس سال سے سندھ میں حکومت کرتی جماعت نے کراچی سے گھوٹکی تک بسنے والوں کو کیا دیا؟ بدترین طرز حکمرانی، کرپشن، بدانتظامی، اداروں کی بدحالی، اقرباپروری، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں راشی اور نا اہل افسران کی تعیناتی، نوکریوں کی خرید و فروخت، مذکورہ تحریر کی سچائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں اسکول استاتذہ کی جانب سے کیے گئے احتجاج کے دوران سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب ڈھر نے کہا کہ احتجاج کرنے والے اساتذہ جعلی ہیں جو کہ سابقہ وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں پیسے دے کرجعلی طریقے سے بھرتی ہوئے، جام مہتاب ڈھر کے بقول اس وقت خالی اسامیوں پر لاکھوں روپے رشوت لے کرتعداد سے کہیں زیادہ لوگوں کو بھرتی کیا گیا، اس اعترافی بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ وزیر تعلیم سابقہ وزیر تعلیم کے دور میں کی گئی اس کرپشن کو تسلیم کرتے ہیں۔ اب رشوت کے عوض بھرتیاں کسی نے بھی کیں محکمہ تعلیم میں ہونے والی اس لوٹ سیل کی ذمہ داری سندھ حکومت اور متعلقہ محکمے کے وزیر پر ہی عائد ہو گی۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک وزیر اپنی ہی جماعت کے سابق وزیر پر کرپشن کے الزامات لگا رہا ہے اور تو اور اس معاملے میں حکمراں جماعت کی جانب سے نہ تو کوئی تنظیمی کارروائی عمل میں لائی گئی اور نہ ہی صوبائی وزارت تعلیم کی جانب سے کوئی قانونی چارہ جوئی کی گئی، صوبے کے ماتحت صرف ایک ادارے کی کارکردگی سندھ کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حصہ