وقت کا سفر

364

خرم عباسی
سٹیون ہاکنگ کی یہ کتاب آپ کو کائنات میں غور و فکر کی ترغیب دیتی ہے اور یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ آپ اسے اپنے اعتقاد کا حصہ بنا لیں، مگر یہ ضرور چاہتی ہے کہ آپ اپنے بنائے ہوئے ذہنی گھروندے سے نکلیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ دنیا میں اور بھی بہت کچھ موجود ہے ۔
’’ قران حکیم میں اللہ جَلّ جَلالہ فرماتے ہیں ،بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںO یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروَٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) اَے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےO (آل عمران، 3:190.191)
کائنات کی تصویر:
’’ایک مرتبہ کوئی معروف سائنس دان علمِ فلکیات پر عوامی لیکچر دے رہا تھا (کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ برٹرینڈ رسل تھا) اس نے بیان کیا کہ کس طرح زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور کس طرح سورج ستاروں کے ایک وسیع مجموعے یعنی کہکشاں (GALAXY) کے گرد گردش کرتا ہے، لیکچر کے اختتام پر ایک چھوٹی سی بوڑھی عورت جو ہال کے پیچھے کہیں بیٹھی ہوئی تھی کھڑی ہوئی اور بولی ‘‘جو کچھ تم نے بیان کیا ہے بکواس ہے، دنیا اصل میں ایک چپٹی طشتری ہے جو ایک بہت بڑے کچھوے کی پشت پر دھری ہے ’’ سائنس دان جواب دینے سے پہلے فتح کے احساس کے ساتھ مسکرایا‘‘ یہ کچھوا کس چیز پر کھڑا ہے؟ ’’ بوڑھی عورت بولی‘‘ تم بہت چالاک بنتے ہو نوجوان بہت چالاک، لیکن یہ سارے کچھوے ہی تو ہیں جو نیچے تک گئے ہوئے ہیں۔‘‘
بہت سے لوگ ہماری تصویرِ کائنات کو کچھووں کا لا محدود مینار تصور کرنے کو مضحکہ خیر سمجھیں گے لیکن ہم کس بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا علم اس سے بہتر ہے؟ ہم کائنات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ اور ہم نے یہ کہاں سے جانا ہے؟ کائنات کہاں سے آئی ہے اور کہاں جا رہی ہے؟ کیا کائنات کی کوئی ابتداء تھی اور اگر تھی تو اس سے پہلے کیا تھا؟ وقت کی ماہیت کیا ہے؟ اور کیا یہ کبھی اپنے اختتام کو پہنچے گا؟ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہونے والی علمِ طبیعیات کی کامیابیوں نے ان قدیم سوالات کے کچھ جوابات تجویز کیے ہیں، ایک دن ہمیں یہ جوابات ایسی ہی عام چیز معلوم ہوں گے جیسے سورج کے گرد زمین کا گھومنا یا شاید ایسے ہی مضحکہ خیز جیسے کچھووں سے بنا ہوا مینار، صرف وقت (جو کچھ بھی وہ ہے) ہی اس کا جواب دے گا۔
340قبلِ مسیح میں یونانی فلسفی ارسطو سے نیوٹن تک کا تحقیقی سفر جاری رہا مگر ،بیسویں صدی سے پہلے کی عمومی سوچ میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ کسی نے بھی کائنات کے پھیلنے یا سکڑنے کے بارے میں کسی خیال کا اظہار نہیں کیا تھا، اس پر عام طور پر اتفاق تھا کہ یا تو کائنات ہمیشہ سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے یا پھر ماضی میں خاص مقرر وقت میں اسے کم و بیش اسی طرح تخلیق کیا گیا ہے، جیسا کہ ہم اسے دیکھ رہے ہیں، جزوی طور پر اس کی وجہ لوگوں کے اندر پایا جانے والا لافانی صداقت (Eternal Truth) پر ایمان لانے کا رجحان ہو سکتا ہے اور پھر اس یقین میں سہولت بھی تھی کہ انسان تو بوڑھے ہو سکتے ہیں لیکن کائنات لافانی اور غیر متغیر ہے۔
وہ لوگ بھی جن کو پوری طرح یہ اندازہ تھا کہ نیوٹن کا نظریہ تجاذب یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا ساکن ہونا ممکن نہیں، وہ بھی یہ سوچنے سے قاصر رہے کہ کائنات پھیل بھی سکتی ہے، اس کی بجائے انہوں نے اس نظریے میں یہ تبدیلی کرنے کی کوشش کی کہ تجذیبی قوت کو طویل فاصلوں میں گریز (repulse) کی قوت بنا دیا جائے، اس بات نے سیاروں کی حرکت کے بارے میں ان کی پیش گوئیوں پر تو کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں ڈالا مگر اس سے اتنا تو ہوا کہ ستاروں کی لا متناہی تقسیم توازن میں رہی، اس میں قریبی ستاروں کی کشش دور دراز ستاروں کی قوت گریز سے متوازن رہی، بہر صورت اب ہمیں یہ یقین ہے کہ ایسا توازن غیر مستحکم ہوگا، کیونکہ اگر کہیں ستارے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہوگئے تو ان کی تجذیبی قوت گریز کی قوت سے بڑھ جائے گی اور اس طرح ستارے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگیں گے اور اس کے برعکس اگر وہ ایک دوسرے سے نسبتاً دور ہوگئے تو ان کی قوت گریز قوت تجاذب سے بڑھ جائے گی جو انہیں ایک دوسرے سے مزید دور پھینک دے گی۔
لامتناہی اور ساکن کائنات کے نظریے پر ایک اور اعتراض عام طور پر جرمن فلسفی ہائن رخ اولبر (Heinrich Olber) سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس نظریے کے بارے میں 1823ء میں درحقیقت نیوٹن کے کئی ہمعصر بھی اس مسئلے کو اٹھا چکے تھے، اولبر کا مضمون اس کے خلاف دلائل فراہم کرنے والا پہلا مضمون بھی نہیں تھا مگر اس نے پہلی بار وسیع توجہ ضرور حاصل کی تھی، مشکل یہ ہے کہ لامتناہی اور ساکن کائنات میں نظر کی تقریباً ہر لکیر ایک ستارے کی سطح پر ختم ہو گی اور اس سے یہ توقع پیدا ہو گی کہ رات کے وقت بھی سارا آسمان سورج کی طرح روشن ہوگا، اولبر کی جوابی دلیل یہ تھی کہ دور دراز ستاروں کی روشنی حائل مادوں کے انجذاب (Absorption) کی وجہ سے مدھم ہو جائے گی، بہر حال اگر ایسا ہو تو حائل مادہ گرم ہو کر جلنے لگے گا حتیٰ کہ وہ ستاروں کی طرح روشن ہو جائے گا، اس نتیجے سے بچ نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ رات کا پورا آسمان سورج کی طرح ہمیشہ روشن نہ ہو بلکہ ماضی میں کسی خاص وقت میں ایسا ہوا ہو، اس صورت میں انجذاب شدہ مادہ اب تک گرم نہیں ہوا ہو گا یا دور دراز ستاروں کی روشنی ہم تک ابھی نہیں پہنچی ہوگی، اسی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی شئے ہے جس نے سب سے پہلے ستاروں کو روشن کیا ہو گا۔
بلا شبہ کائنات کی ابتدا بہت پہلے ہی سے بحث کا موضوع رہی ہے، بہت سے ابتدائی ماہرین کونیات اور یہودی، عیسائی، مسلمان روایت کے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک مخصوص وقت پر ہوا، اور اسے زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، اس ابتدا کے لیے ایک دلیل یہ خیال تھا کہ کائنات کے وجود کی تشریح کے لیے پہلی علت (First Cause) کا ہونا ضروری ہے (کائنات میں ہمیشہ کسی بھی واقعے کی تشریح اس سے قبل واقع ہونے والے کسی اور واقعے سے وابستہ کی جاتی ہے، لیکن اس طرح وجود کی تشریح صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس کی واقعی کوئی ابتداء ہو) ایک اور دلیل سینٹ آ گسٹن (St. Augustine) نے اپنی کتاب شہرِ ربانی (The City of God) میں پیش کی تھی، اس نے کہا تھا کہ تہذیب (Civilization) ترقی کر رہی ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ کون سا عمل کس نے آغاز کیا یا اسے ترقی دی، یا کون سی تکنیک کس نے بہتر بنائی چنانچہ انسان اور شاید کائنات بھی زیادہ طویل مدت کے نہیں ہو سکتے، سینٹ آگسٹن نے بائبل کی کتابِ پیدائش (Boo of Genesis) کے مطابق کائنات کی تخلیق کی تاریخ پانچ ہزار قبلِ مسیح تسلیم کی (دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تاریخ بھی دس ہزار قبلِ مسیح کے آخری برفانی دور کے اختتام سے زیادہ دور کی تاریخ نہیں ہے جب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق تہذیب کی اصل ابتدا ہوئی تھی)۔
ارسطو اور بہت سے دوسرے یونانی فلسفی اس کے برعکس نظریہ تخلیق کو پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ اس میں الوہی مداخلت کی آمیزش کچھ زیادہ ہی تھی، اس لیے ان کا عقیدہ تھا کہ نوعِ انسانی اور ان کے اطراف کی دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، قدما پہلے ہی سے ترقی کی اس دلیل پر غور و خوض کر چکے تھے اور اس کا جواب انہوں نے یوں دیا تھا کہ وقتاً فوقتاً آنے والے سیلاب اور دوسری آفات نوعِ انسانی کو بار بار تہذیب کے نقطہ آغاز پر پہنچا دیتے تھے۔
یہ سوال کہ کیا کائنات کا آغاز زمان (Time) کے اندر ہوا تھا یا کیا وہ محض مکان (Space) تک محدود ہے ؟، ایسا سوال تھا جس کا بہت تفصیلی مطالعہ فلسفی امینول کانٹ (Immanauel Kant) اپنی شاہکار (مگر بہت مبہم) کتاب انتقاد عقل محض (Critique Pure Reason) میں کیا تھا جو 1781ء میں شائع ہوئی تھی، وہ ان سوالات کو عقلِ محض کے تضادات (ANTINOMIES) کہا کرتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ دعوی کہ کائنات کا آغاز ہوا تھا اور اس کا جوابِ دعوی کہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے ایک جیسے وزنی دلائل رکھتے تھے، دعوی کے لیے اس کا استدلال یہ تھا کہ اگر کائنات کی ابتداء نہ ہوتی تو ہر واقعے سے قبل لامتناہی وقت ہوتا، جو اس کے نزدیک لایعنی (Absurd) بات تھی، جوابِ دعوی کے لیے اس کی دلیل یہ تھی کہ اگر کائنات آغاز ہوئی ہوتی تو اس کے قبل بھی لامتناہی وقت ہوتا، پھر کائنات کیونکر ایک خاص وقت پر شروع ہو سکتی تھی، حقیقت میں دعوی اور جوابِ دعوی کے بارے میں اس کے بیانات ایک ہی دلیل ہیں اور یہ دونوں اس کے اس غیر بیان کردہ مفروضے پر مبنی ہیں کہ کائنات ہمیشہ سے ہو یا نہ ہو مگر وقت کا تسلسل ہمیشہ سے موجود ہے، مگر ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کائنات کی ابتدا کے قبل وقت کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا، اس بات کی نشاندہی سب سے پہلے سینٹ آگسٹن نے کی تھی جب ان سے پوچھا گیا کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے خدا کیا کر رہا تھا، تو انہوں نے یہ جواب نہیں دیا تھا کہ خدا ایسا سوال پوچھنے والوں کے لیے دوزخ تیار کر رہا تھا، اس کی بجائے انہوں نے کہا تھا کہ وقت یا زمان کائنات کی صفت (Property) ہے جو خدا نے بنائی ہے اور وقت کائنات سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔
جب بہت سے لوگ بنیادی طور پر کائنات کے ساکن اور غیر متغیر ہونے میں یقین رکھتے تھے تو کائنات کا آغاز ہونے یا نہ ہونے کا سوال دراصل ما بعد الطبیعیات (Metaphysics) یا دینیات (Theology) کا سوال تھا، جو کچھ انسان مشاہدہ کرتا تھا اس کی تشریح اس نظریے سے بھی کی جا سکتی تھی کہ یہ ہمیشہ سے ہے اور اس نظریے سے بھی کہ کائنات کو کسی متناہی وقت میں اس طرح متحرک کیا گیا تھا کہ وہ ہمیشہ سے موجود معلوم ہوتی ہے لیکن 1929ء میں ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے یہ عہد آفریں مشاہدہ کیا کہ جہاں سے بھی دیکھا جائے دور دراز کہکشائیں ہم سے مزید دور ہوتی جا رہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وقتوں میں اجرامِ فلکی ایک دوسرے سے قریب تر رہے ہوں گے، حقیقت میں یہ لگتا ہے کہ اب سے دس یا بیس ارب سال پہلے وہ سب ٹھیک ایک ہی جگہ پر تھیں تو اس وقت کائنات کی کثافت (Density) لامتناہی ہو گی، یہ دریافت بالآخر کائنات کی ابتدا کے سوال کو سائنس کی دنیا میں لے آئی۔

حصہ