اخبارِ ادب

290

ڈاکٹر نثار احمد نثار
15 دسمبر 2017ء کو نیاز مندانِ کراچی نے یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کے تعاون سے کے ایم سی ویلفیئر ایسوسی ایشن کلب کشمیر روڈ کراچی میں سیرتؐ کانفرنس اور نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت محسن اعظم ملیح آبادی نے کی۔ کلیدی خطبۂ رضوان صدیقی نے پیش کیا‘ خیر مقدمی کلمات افروز رضوی نے ادا کیے۔ سلمیٰ خانم نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حامد رضا نے حاصل کی۔ افروز رضوی نے کہا کہ وہ آج کی محفل کے تمام شرکا کی ممنون اور شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میںسے وقت نکال کر ہماری تقریب کو رونق بخشی۔ سلمیٰ خانم نے کہا کہ وہ یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے اعلان کر رہی ہیں کہ کراچی کی جس ادبی تنظیم کو ہمارے تعاون و اشتراک کی ضرورت ہے ہم اس کام کے لیے حاضر ہیں کہ کیوں کہ ہماری تنظیم کا مقصد شعر و ادب کی ترویج و ترقی ہے ہماری تنظیم کے سربراہ تسلیم الٰہی زلفی ہیں جو کہ علم و ادب کی ایک ممتاز شخصیت ہیں وہ جب بھی کراچی آتے ہیں ہماری تنظیم کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کئی شان دار تقریب ہمارے کریڈیٹ پر ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے اپنے مقالے میں کہا کہ امن کا قیام اسلامی تعلیمات کا محور ہے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم امن کے پیامبر تھے‘ وہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے انہوں نے اسلام کی تبلیغ تلوار کے زور پر نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی سیرت و کردار سے لوگوں کے دل جیتے۔ انہوں نے کبھی بھی قتل و غارت گری کادرس نہیں دیا۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ جب مکے سے رسالت مآبؐ مدینے تشریف لے آئے تو مدینے کی تقدیر بدل گئی۔ یہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے افضل و ممتاز قرار پایا۔ آج بھی تمام مسلمان روضۂ رسولؐ کی حاضری کے لیے مدینہ جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ آپؐ کی تعلیمات کا تذکرہ اور شمائیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر‘ جشن میلاد النبیؐ کی اجتماعات کا اہم موضوع ہے۔ آج بھی ہم سب پنڈال میں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہم ذکرِ رسولؐ سے اپنا ایمان تازہ کریں۔ ذکرِ رسولؐ عین عبادت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے سب سے آخری میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ اب کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ ہمارے نبیؐ نے ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے بتائے ہیں اسلام امن کا دین ہے‘ دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے‘ ہمارے مخالفین اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہمیں بدنام کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اپنے رسولؐ کی تعلیمات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں۔ ہمارے رسولؐ حشر کے دن ہماری شفاعت فرمائیں گے آیئے ہم آج اپنے روّیوں کا جائزہ لیں اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ رونق حیات نے کہا کہ خاور جمیل اور محسن اعظم ملیح آبادی کی سرپرستی میں انہوں نے نیاز مندانِ کراچی کے نام سے یہ ادبی تنظیم بنائی ہے ہم اس پلیٹ فارم سے قلم کاروں کے مسائل کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم اکادمی ادبیات پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس ادارے میں انجمن ستائش باہمی کی بنیاد پر کام ہو رہا ہے۔ کراچی کے جینوئن قلم کاروں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس ادارے کو پچاس کروڑ روپے کی گرانٹ دی ہے تاکہ قلم کاروں کی معاونت کی جاسکے اور پاکستانی زبان و ادب کی ترقی ہو‘ لیکن اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ ادیبوں اور شاعروں کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے متحد ہو جائیں انہوں نے مزید کہا کہ ادبی تقریبات امن وامان کی صورت حال سے مشروط ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کراچی میں روزانہ کئی کئی ادبی پروگرام ہو رہے ہیں۔ اس مشاعرے کی نظامت ڈاکٹر نزہت عباسی اور افروز رضوی نے کی۔ تقدیم و تاخیر کے مسائل سے مشاعرے کا حسن متاثر ہوتا ہے لہٰذا آئندہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کس شاعر کو کہاں پڑھانا ہے۔ شعرا کی کثیر تعداد کے باعث ایک کلام پڑھنے کی پابندی کی جاتی تو بہتر تھا۔ اس نعتیہ مشاعرے میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ آصف رضا رضوی‘ رونق حیات‘ سعدیہ حریم‘ ظفر محمد خان ظفر‘ راقم الحروف‘ نعیم انصاری‘ صغیر احمد جعفری‘ احمد سعید خاں‘ رفیق مغل‘ رضی عظیم آبادی‘ شارق رشید‘ عرفان عابدی‘ جمال احمد جمال‘ آسی سلطانی‘ ضیا شہزاد‘ افروز رضوی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ انیس جعفری‘ حامد علی سید‘ وقار زیدی‘ نصراللہ غالب‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ سعدالدین سعد‘ ناہید عزمی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ عامر شیخ‘ مشرف رضوی‘ تنویر سخن‘ عشرت حبیب اور شاہدہ عروج نے اپنا اپنا نعتیہ کلام نذر سامعین کیے۔
…٭…
گزشتہ دنوں الفا سیکنڈری اسکول بوہرہ پیر کراچی میں ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی صدارت میں نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ سلمان صدیقی مہمان خصوصی تھے جب کہ منظور احمد اور سلیم احمد مہمانان اعزازی تھے۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تقریب کے پہلے حصے میں طلباء کے درمیان مقابلہ نعت خوانی اور سیرت النبی پر تقریری مقابلے منعقد ہوئے‘ روشن بیگم اور شہناز بیگم نے ججز کے فرائض انجام دیے۔ دونوں شعبوں میں اوّل‘ دوم اورسوم آنے والوں کو صاحبِ صدر نے انعامات دیے اس موقع پر ممتاز شاعر گل انور نے اپنی جیب سے عبدالرحمن کو عمدہ تقریر کرنے پر ایک ہزار روپے انعام دیے۔ یہ تقریب الفاء ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ صاحب صدر نے کہا کہ الفاء اسکول کے مالکان قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اپنے ادارے میں اتنا شان دار نعتیہ پروگرام منعقد کیا تمام طلباء نے نہایت انہماک سے اشعار سنے اور سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کہہ کر داد دی۔ ان طلباء کا یہ انداز قابل ستائش ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اسکول کے ٹیچرز نظم و نسقِ مدرسہ پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی طلباء و طالبات کے ذہنی نشوونما میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تعلیم کے میدان میں وہ ادارے زیادہ کامیاب ہیں کہ جہاں ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مہمان خصوصی سلیمان صدیقی نے کہا کہ مشاعروںسے سخن فہمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نعتیہ مشاعروں سے اسلامی معلومات بڑھتی ہیں اس قسم کے مشاعروں میں سیرت رسولؐ بیان کی جاتی ہے جس سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ الفاء اسکول میں آج طلباء نے نہایت خوش الحانی سے نعتیں پیش کیں اور جوشِ ایمانی سے سیرتِ رسولؐ پر تقاریر کیں تاہم شعرا نے بھی سامعین سے خوب داد وصول کی بلاشبہ یہ ایک روح پرور پروگرام ہے۔ منظور احمد نے کہا کہ اس اسکول کے پرنسپل اور ٹیچرز مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بہت شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ طلباء کے درمیان مقابلے کرانے سے طلباء میں جوش و خروش پیدا ہوتا ہے‘ ان میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے‘ ان کی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت گوئی کا سلسلہ آنحضرتؐ کے زمانے میں شروع ہوا تھا ہر زمانے کے شعرا نے نعتیہ ادب میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں میں نعتیہ اشعار پائے جاتے ہیں غیر مسلم شاعروں نے بھی نعتیں کہی ہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا‘ ہمیں چاہیے کہ ہم نعتیہ محفلیں منعقد کراتے رہیں تاکہ ایمان تازہ ہوتا رہے۔ نعتیہ مشاعرے میں ڈاکٹر اکرام الحق شوق‘ سلمان صدیقی‘ حنیف عابد‘ گل انور‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ تنویر سخن‘ جمیل ادیب سیب‘ محسن سلیم‘ سعد الدین سعد‘ یوسف چشتی‘ سخاوت علی نادر اور راقم الحروف نے نعتیہ کلام پیش کیا۔
…٭…
انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کے مرکزی دفتر کے ایوان ادب میں سندھ کے عظیم دانشور‘ ادیب و شاعر کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس انجمن کراچی کے صدرڈاکٹر توصیف احمد کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر سید جعفر احمد‘ ڈاکٹر جمال نقوی‘ سلیم الدین شیخ اور زیب النساء زیبی نے اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے صدارتی خطاب میں کہا کہ ابراہیم جویو کا نام سندھ کی سیاست‘ سماج اور ادب میں ایک استاد کی حیثیت سے نمایاں ہے ان کی زندگی میں مشکلات بھی آئیں مگر انہوں نے کڑے حالات کا مقابلہ کیا۔ ابراہیم جویو نے سیکولر تصور کو آگے بڑھایا اور ملک کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ سندھ کے بے مثال ادیب و دانشور ابراہیم جویو اس لحاظ سے ممتاز رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو ترقی پسندی اور روشن خیالی کے لیے وقف کیے رکھا۔ ابراہیم جویو نے ہر دور میں روشن خیالی اور خر افروی کا پرچم بلند رکھا۔ وہ سندھی ادبی سنگت سے بھی وابستہ رہے اور ترقی پسندی میں اپنا فعال کردار ادا کیا۔ جناب سلیم الدین شیخ نے کہا کہ آج کا یہ جلسہ ابراہیم جویو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کیا گیا ہے وہ ایک بڑے کردار کے مالک تھے انہوں نے ہمیشہ فرقہ واریت اور ظلم و ستم کی نفی کی ہے۔ ڈاکٹر جمال نقوی نے کہا کہ ابراہیم جویو سندھی ادب کا ایک بڑا اور معتبر نام ہے ان کی زندگی جہد مسلسل اپنے ملک و سندھ اور عوام کی ترقی و روشن خیالی کے لیے وقف رہی ہے ابراہیم جویو نے انگریزی ادب سے سندھی زبان میں ترجمے بھی کیے اور کئی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ زیب النساء زیبی نے کہا کہ ابراہیم جویو عام آدمی کے دکھ درد میں شامل رہے‘ جاگیرداری‘ فرقہ واریت اور ظلم و ستم کے خلاف اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے ہیں اور اس کے لیے متعدد کتابیں لکھیں۔ وہ دشوار حالات میں بھی اپنے نظریہ پر قائم رہے۔ نثری حصے کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا اس کی صدارت صغیر احمد جعفری نے کی۔ انہوں نے کہا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی یہ تقریب ابراہیم جویو کے حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ آپ سندھی اور اردو ادیبوں اور شاعروں میں مقبول تھے۔ آپ نے روشن خیالی کے لیے سندھ کے نوجوانوں کو بھی بہت متاثر کیا۔ جن شعرا نے اپنے کلام سے نوازا ان میں صغیر احمد جعفری‘ علی عرفان عابدی‘ ڈاکٹر جمال نقوی‘ تنویر حسین سخن‘ محمود غازی بھوپالی‘ زیب النساء زیبی‘ حمیرا ثروت صدیقی‘ ہامد علی سید اور علی اوسط جعفری شامل ہیں۔ تقریب کی نظامت کے فرائض حامد علی سید نے ادا کیے۔
…٭…
نعتیہ محفلیں سجانا ایک نیک کام ہے جہاں بھی ذکرِ رسولؐ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں آج ادارۂ فکر نو نے نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا ہے ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے یہ ادارہ ہر سال اس حوالے سے ایک بڑا مشاعرہ کراتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے۔ ان خیالات کا اظہار ظفر محمد خان نے ادارۂ فکر نو کے سالانہ نعتیہ مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج مجھے نور احمد میرٹھی بہت یاد آرہے ہیں اس وقت ان کی روح بہت خوش ہو رہی ہے کیونکہ ان کے ادارے کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ اختر سعیدی اور ان کے رفقا کار نے آج بہت خوب صورت نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا ہے۔ آج کی محفل افروز محفل ہے تمام شعرا نے بہت اچھا کلام پیش کیا سامعین نے ہر شاعر کو داد و تحسین سے نوازا۔ مہمان خصوصی طاہر سلطانی نے کہا کہ ادارۂ فکر نو کا شمار کراچی کی اہم ادبی تنظیموں میں ہوتا ہے یہ ادارہ ہر سال بہاریہ مشاعروں کے علاوہ نعتیہ مشاعرے بھی منعقد کراتا ہے۔ بھائی نور احمد میرٹھی کے اس ادارے کو ممتاز شاعر و صحافی بڑی عمدگی سے چلا رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت نعتیہ ادب میں تحقیقی اور مطالعاتی کام بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے تواتر کے ساتھ نعتیہ مجموعے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ میزبانِ مشاعرہ حیدرآباد سے تشریف لائے شاعر الیاس شاہد نے کہا کہ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں کسی نہ کسی مشاعرے میں ضرورت شرکت کرتے ہیں مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ کراچی میں بہت اچھی شاعری ہو رہی ہے خاص طور پر نوجوان نسل کی شاعری سے رغبت نیک فال ہے۔ مہمان توقیری آصف رضا رضوی نے کہا کہ نعت لکھتے وقت حسبِ مراتب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ نعت اور حمد میں نمایاں فرق ہونا چاہیے۔ اللہ کے بعد ہمارے نبیؐ سب سے افضل ہیں قیامت کے دن وہ ہماری شفاعت فرمائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی تعلیمات کو عام کریں۔ نعتیہ ادب اس سلسلے میں مددگار و معاون ہے۔ ادارے کے صدر محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کے ادارے کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کا فروغ ہو‘ ہمارے سرپرست اعلیٰ نور احمد میرٹھی مرحوم نے نعتیہ ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کا مرتب کردہ نعتیہ مجموعہ کلام’’بہر زماں بہر زماں‘‘ ایک تاریخی دستاویز ہے انہوں نے غیر مسلم شعرا کے علاوہ مسلمان شعرا کے نعتیہ کلام بھی شائع کیے ہیں ہم انہیں ان کی علمی و ادبی کاوشوں پر سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ادارے کے سربراہ اختر سعیدی نے کہا کہ اس وقت کراچی میں بہت عمدہ نعت لکھی جارہی ہے ہماری کوشش ہے کہ ہم نعتیہ ادب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں ہم اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام منعقد کراتے ہیں تاہم جو لوگ ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت نعت میں جدید لفظیات اور نئے نئے استعارے لکھے جارہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ہر دور میں شاعری کا مزاج و مضمون تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن کسی بھی صنفِ سخن کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اس مشاعرے کی نظامت رشید خاں رشید نے کی۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی‘ مہمان توقیری اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ انورانصاری‘ یامین وارثی‘ عظمی جون‘ سلیم فوز‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ ڈاکٹر نثار‘ عامر شیخ‘ احمد سعید خان‘ یوسف چشتی‘ شاہد اقبال شاہد‘ نعیم انصاری‘ شارق رشید‘ محسن سلیم‘ سخاوت علی نادر‘ شمع انصاری‘ عزیز الدین خاکی‘ جمیل ادیب سید‘ زبیر صدیقی اور عاشق نے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور سامعین سے داد وصول کی۔
…٭…
یشب تمنا کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے وہ کراچی کے رہائشی ہیں تاہم ملازمت کے سلسلے میں برطانیہ چلے گئے ہیں۔ وہ نومبر 2017ء میں کراچی آئے تھے جہاں ان کے اعزاز میں متعدد شعری نشستوں کا اہتمام کیا گیا ان کی غزلوں کے مجموعے کے علاوہ نثر کی بھی ایک کتاب ’’اردو بستی لندن‘‘ ہے جس کی تعارفی تقریب آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ صغیر احمد جعفری مہمان خصوصی تھے اس موقع پر لائبریری کمیٹی کے چیئرمین سہیل احمد‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ عقیل عباسی جعفری‘ نذر متعین‘ عارف شیخ‘ حمیدہ کشش‘ سیدہ تحسین فاطمہ اور وقار زیدی نے یشب تمنا کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ سہیل احمد نے کہا کہ یشب تمنا ایک قادر الکلام شاعر و ادیب ہیں انہوں نے اپنی نثری کتاب میں اردو ادب کے چند اہم قلم کاروں پر مضامین لکھے ہیں ان کی یہ تحریریں قابل ستائش ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں احمد شاہ کی نگرانی میں فنون لطیفہ کی تمام شاخوں کو پروموٹ کرنے میں مصروف ہیں ہم قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے میدانِ عمل میں آئے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے موجودہ عہدیداران و اراکین کی شابنہ روز کاوشوں کے سبب شعری و ادب کی ترویج و ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے ہم اس ادارے کے تحت کتابوں کی تعارفی تقریبات‘ مذاکرے اور مشاعرے منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ محفل موسیقی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ یشب تمنا کی شاعری میں غزل کے تمام مضامین کی آمیزش ہے ان کی شاعری میں غنائیت ہے‘ ان کی نثر میں بھی تازہ کاری ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں سادہ زبان استعمال کی ہے جس کی وجہ سے ابلاغ میں آسانی ہو رہی ہے۔ اس موقع پر یشب تمنا نے آرٹس کونسل کی لائبریری کمیٹی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کی تقریب منعقد کی انہوں نے مزید کہا کہ کراچی محبتوں کا شہر ہے یہاں کے لوگ بہت مصروف زندگی گزارتے ہیں لیکن ادبی محفلوں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں یہ ان کی علم دوستی کی اعلیٰ مثال ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لندن میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اردو زبان بہت تیزی سے برطانیہ میں اپنا مقام بنا رہی ہے۔ ہم وہاں رہ کر بھی پاکستان کے مفادات کے لیے سرگرم عمل ہیں کیوں کہ پاکستان ہماری شناخت ہے۔ دہشت گردی نے اس ملک کو بدنام کیا ہے جب کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا دین دہشت گردی کے خلاف ہے‘ ہم امن کے نقیب ہیں۔

حصہ