انعام

174

عرشمہ طارق
’’امی بھائی جان آگئے ہیں۔‘‘ ارم نے دروازہ کھول کر بھائی کو سلام کیا اور امی کو اطلاع دی۔ بلال جب بھی انٹرویو کے لیے جاتا سب اس کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔
’’ارم بھائی کو پانی پلائو‘ پھر اچھی سی چائے بنا کر لائومیرا بیٹا تھکا ہوا آیا ہے۔‘‘ امی ارم کو ہدایت دینے کے بعد بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔
’’انٹرویو کیسا رہا؟ اس دفعہ تو نوکری ملنے کی امید ہے نا؟‘‘ انہوں نے بڑی امید سے بیٹے سے سوال کیا۔ بلال بے چارہ امی کے سوالوں پر شرمندہ ہوجاتا جیسے نوکری نہ ملنے میں اسی کا قصور ہو۔ اتنی جگہوں پر انٹرویو دینے کے باوجود کہیں سے کوئی امید افزا جواب نہیں ملا تھا۔
’’امی آج کل تو انہی لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں جن کے پاس رشوت دینے کے پیسے ہوں یا پھر کوئی سفارش ہو‘ ہم جیسے غریبوں کی قابلیت کسی کو نظر نہیں آتی۔‘‘ وہ بہت دل گرفتہ لگ رہا تھا۔
اسی وقت بلال کے ابو نماز سے فارغ ہوئے تھے‘ اس کی بات سن کر قریب آئے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ’’بیٹا مایوسی گناہ ہے‘ اللہ پر بھروسہ رکھو‘ اللہ نے چاہا تو بہت جلد تمہیں تمہاری محنت کا پھل ضرور ملے گا۔‘‘
’’ان شاء اللہ…‘‘ سب نے ہم آواز ہو کر کہا۔
’’کل بھی ایک جگہ جانا ہے‘ میرے پروفیسر صاحب نے اپنے کسی جاننے والے سے بات کی ہے‘ امید تو ہے کہ کام بن جائے گا‘ آپ لوگ دعا کیجیے گا۔‘‘ بلال نے انہیں بتایا۔
اگلے دن صبح بلال جانے کے لیے تیار ہوا تو امی‘ ابو نے دعائوں کے ساتھ اسے رخصت کیا۔
بس اسٹاپ پر کافی رش تھا۔ اپنی مطلوبہ بس کے آتے ہی بلال اس میں سوار ہوگیا۔ ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ ایک سگنل پر گاڑی رکی۔ ایک موٹر سائیکل سوار جو کہ بہت تیزی سے سگنل توڑتا ہوا نکلا تو ایک 12 سالہ بچہ جو کہ سگنل پر رکی ہوئی گاڑیوں کے پاس جا کر چیزیں بیچ رہا تھا‘ اس کی زد میں آکر دور جا کر گرا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ ہر کوئی موٹر سائیکل والے کو برا کہہ رہا تھا اور بچے کو ہمدردی سے دیکھ رہا تھا لیکن کوئی بھی آگے بڑھ کر اسے اسپتال لے جانے کو تیار نہ تھا۔ ایسے میں بلال آگے بڑھا اس نے دوسرے لوگوں کو بھی مدد کے لیے بلایا لیکن کسی نے ساتھ نہ دیا۔ وقت ضائع کیے بغیر بلال نے جلدی سے ٹیکسی روکی اور اس بچے کو ٹیکسی میں لٹایا اور اسپتال لے گیا وہاں بچے کی مرہم پٹی کروا کر اسے اس کے گھر تک چھوڑ کر جب بلال فارغ ہوا تو کافی وقت گزر چکا تھا اس کے کپڑے بھی گندے ہو گئے تھے اس لیے اس نے گھر جانا ہی بہتر جانا۔
’’ارے بلال کیا ہوا؟ کوئی چوٹ لگی ہے کیا؟‘‘ اس کے کپڑوں پر خون کے دھبے دیکھ کر سب گھر والے گھبرا گئے۔
’’مجھے کچھ نہیں ہوا‘ آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔‘‘ پھر اس نے ساری بات بتائی تو اس کے ابو نے اسے گلے لگا کر شاباشی دی جب کہ ماں اور بہن فکرمند ہوگئیں کہ اس کا انٹرویو تو رہ ہی گیا۔
’’چلو کوئی بات نہیں انٹرویو انسانی جان سے زیادہ اہم تو نہیں تھا نا‘ اللہ تعالیٰ کوئی اور وسیلہ بنا دیں گے۔‘‘ ابو نے اسے تسلی دی۔
دو دن یونہی گزر گئے تیسرے دن اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ارم نے دروازہ کھولا تو کوئی بلال کے نام کا لیٹر لے کر آیا تھا۔ بلال نے کھول کر دکھا تو اس کا اپوائنمنٹ لیٹر تھا جو کہ اس کمپنی سے آیا تھا جہاں اس نے کافی دن پہلے انٹرویو دیا تھا۔ بلال کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا اسے اگلی دن سے ہی جانا تھا۔
’’ارے بھئی بلال کی ماں! منہ تو میٹھا کروا دو… کہاں جارہی ہو؟‘‘ ابو نے اپنی بیگم کو اٹھتے دیکھ کر کہا ۔
’’پہلے شکرانے کے نفل تو ادا کر لوں پھر منہ بھی میٹھا کروا دوں گی۔‘‘ امی نے خوشی دلی سے کہا۔
یہ اللہ کی طرف سے انعام تھا جو کہ بلال کو اس نیکی کے بدلے ملا تھا اسی لیے تو کہتے ہیں کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

حصہ