کیا میں بدعنوان ہوں…؟

157

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
گزشتہ دنوں ایک بہت بڑے اسپتال میں میرا جانا ہوا۔ آبادی سے دور مگر بڑے رقبے پر پھیلا ہوا یہ اسپتال صاف ستھرا‘ ہر قسم کی سہولتوں سے مزین تھا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی بڑی انتظار گاہ میں بے شمار کرسیاں تھیں جن پر مریض اور ان کے لواحقین بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے بھی اس انتظار گاہ پر ایک سرسری سی نظر ڈالی‘ میرا دل کچھ عجیب سے دکھ سے بھر گیا یہ دیکھ کر کہ انتظار گاہ میںبیٹھنے والے اکثر نوجوان لڑکے تھے جو سر جھکائے موبائل کی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور کھڑے ہونے والے بیشتر بوڑھے کمزور کسی نہ کسی لاٹھی کا سہارا لیے کھڑے تھے جن کی بیمار اور منتظر نگاہیں ان نوجوانوں کے حسن سلوک کی منتظر تھیں کہ شاید ان میں سے کسی کو موبائل کی سرگرمی سے فرصت ملے اور وہ سر اٹھا کر دئکھیں کہ نحیف و نزار بوڑھے اس رحم کے مستحق ہیں۔
میں جاتے جاتے پلٹ آئی۔ ایک نوجوان لڑکے کے قریب جا کر میں نے ذرا سختی سے کہا ’’بیٹا ذرا اٹھو اپنے بزرگ کے لیے جگہ خالی کرو۔‘‘
اس نوجوان نے میرے سخت لہجے کا نوٹس لیتے ہوئے مجھے گھور کر دیکھا‘ اس کی ان نگاہوں میں عجیب بے نیازی‘ بے رحمی اور بے وفائی تھی۔ بے مروتی سے بولا ’‘سوری میں بہت تھکا ہوا ہوں۔‘‘
میں اس کے جواب سے کھول گئی ’’تم ان بیمار بوڑھے محترم بزرگ سے زیادہ تھکے ہوئے ہو جو لاٹھی کے سہارے دروازے سے یہاں تک چل کر آئے ہیں۔‘‘
وہ میرے جواب پر جھنجھلا کر کھڑا ہوا اور ہاتھ جھٹکتا ہوا آگے چلا گیا۔
میں سوچتی رہی آج سے تقریباً پچیس‘ تیس سال پہلے پاکستانی معاشرہ اتنا بے حس نہیں ہوا تھا‘ اس سے تھوڑا سا اور پیچھے جائیں تو پاکستان میں خاندانی اقدار‘ تہذیب‘ بڑوں کا ادب‘ احترام بہت اہمیت رکھتا تھا۔
بسوٍں میں بیٹھنے والی نوجوان لڑکیاں کسی بزرگ مسافر کو کھڑا دیکھ کر فوراً سیٹ خالی کر دیتے تھیں۔ یہ ادب آداب بچوں کو گھروں میں سکھائے جاتے تھے۔ بزرگ اگر کھڑے ہیں تو نوجوان ان کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا تصور نہیں کرسکتے ہیں جب تک وہ بزرگ بیٹھ نہ جائیں۔ گھر میں دادا‘ دادی کا حکم حرفِ آکری سمجھاجاتا تھا۔ ان کی طرف پیر کرکے لیٹنا بے ادبی تصور ہوتی تھی۔ کسی بھی بزرگ کے سامنے نوجوان لڑکیوں کا بغیر سر ڈھانپے سامنے آنا برا سمجھا جاتا تھا… مگر اب زمانے کی رنگ ڈھنگ بدل گئے ہیں۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے بے نیاز اور بے پروا ہیں۔ ہر ایک کی اپنی ڈفلی اپنا راگ ہوگیا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے بگاڑ میں میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ ٹی وی اور موبائل اس بگاڑ میں پیش پیش ہیں۔ خود سری‘ بدتہذیبی‘ عریانی‘ فحاشی‘ بدتمیزی کو فخرکی علامت سمجھا جاتا ہے۔ میری اپنی عقل کے مطابق یہ سب خرابیاں بھی ’’بدعنوانی‘‘ میں شامل ہیں۔ بدعنوانی صرف روپے پیسے کے لین میں ہیرا پھیری ہی نہیں بلکہ اپنے اختیارات سے تجاوز‘ اپنے فرائض کو مکمل اور دیانت داری سے ادا نہ کرنا بھی بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہے۔
ایک مسلمان اگر اللہ کے عائد کردہ فرائض مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو وہ بھی بدعنوان ہے اور صحیح طور پر مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ مجھ پر کفر کا فتویٰ نہ لگا دیجیے گا بس دیانت داری سے غور کریں کہ نماز کے لیے پنج وقتہ نمازیں فرائض میں شامل ہیں اس کے لیے کچھ شرائط ہیں کپڑے اور جسم کی پاکی‘ وضو اور طہارت وصو کا صحیح ادا کرنا‘ نماز کے لیے قیام‘ تکبیر اولیٰ‘ رکوع‘ سجدہ‘ قرأت ضروری ہیں۔ میری ناچیز رائے میں اگر ان شرائط میں ہم چوری کریں اور دکھاوے کے طور پر نماز پر کھڑے ہو جائیں تو ہم نے نماز میں بدعنوانی کی۔ ان شرائط کو ادا کیے بغیر فرائض کا دکھاوا کیاؤ ہر انسان میں اور آپ کہیں نہ کہیں بدعنوانی کررہا ہے اور اسی لیے پاکستانی معاشرے میں تباہی اور بربادی نظر آنے لگی ہے۔ بدعنوانی صرف روپے پیسے کے کرپشن کا نام نہیں‘ وہ ہر چھوٹی چھوٹی ذمے داری سے صرفِ نگاہ کرنے کا نام ہے۔ ایک ذمے داری جو ہم پر عائد کی گئی ہے اس کو ادا نہ کرنا بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ میرا خیال ہے اس کا صرف ایک ہی علاج ہے ’’اپنا کڑا احتساب‘‘ اپنے آپ کو ہر ذمے داری کے لیے اللہ کے سامنے ہر وقت پیش کرنے کے لیے تیار رہنا۔ ہر وقت اس بلاوے کے لیے تیار رہنا جو بغیر بتائے آسکتا ہے۔
معاشرہ اس وقت تک پاکیزہ نہیں کہلایا جاسکتا جب تک عوام کی سوچ پاکیزہ نہ ہو‘ برائی کو برائی نہ سمجھے‘ اچھائی پر سختی سے عمل کرے اور اپنے احتساب کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ قرآن کی تعلیمات اور سنت پر عمل پیرا ہو۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی تلقین کرے۔ چلیے آج ہی اپنے دل میں جھانک کر پوچھیں ’’کیا میں بدعنوان ہوں‘‘ اگر جواب اثبات میں ہے تو ابھی سے اصلاح پر کمرکس لیں ساتھ ہی یقین رکھیں ہر عمل کا ردعمل آخرت میں تو بعد میں ملے گا دنیا میں بھی اللہ ضرور دکھا دیتا ہے۔ اچھائی کا اچھا اور برائی کا برا۔

حصہ