نامعلوم سی خوشی

166

عنیزہ ممتاز برنی
آج میں شام کو پارک میں گئی تو سامنے ایک بڑا درخت دیکھ کر میں رک گئی اور بے خیالی میں اس کی ٹہنی کو توڑنے لگی تو ایک بزرگ نے مجھے ٹوکا کہ بری بات درخت کو تکلیف ہوگی۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ میں ان کی بات پر ہنس کر آگے بڑھنے لگی یہ کیا میں تو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکتی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے میں عنیزہ نہیں رہی بلکہ میں ایک درخت میں تبدیل ہو چکی تھی۔
یہ سب دیکھ کر میں بے اختیار رونے لگی۔ کچھ بچے میرے پاس سے گزرے تو انہوں نے کسی نوکیلی چیز سے میرے جسم اوہ سوری میرے تنے پر اپنا نام کھودنے لگے جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی لیکن میں بول نہیں سکتی تھی۔ کچھ بچے میری شاخوں پر چڑھ کر چھلانگ مارنے لگے اور کچھ بچوں نے تو میرے پتوں کو بلاوجہ توڑنا شروع کر دیا جس پر میں نے چیخنا شروع کر دیا لیکن میری چیخ و پکار کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھی۔
میرے پاس ایک درخت تھا۔ اس نے میری طرف دیکھ کر تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ہم درخت اﷲ کی خاطر نوع انسانی کی بہتری کیلئے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ہماری زندگی میں بھی انسان کی زندگی ہے اور موت کے بعد بھی انسان ہم سے فوائد حاصل کرتا ہے اور جب ہم اﷲ کی خاطر اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں تو کوئی تکلیف، تکلیف نہیں رہتی۔ دوسروں کی خوشی ہماری خوشی ہوتی ہے۔
یہ سن کر میرے اندر بھی ایک نامعلوم سی خوشی اتر گئی اور میں زور زور سے جھومنے لگی۔ یہ کیا میں زور سے نیچے گر گئی اور جب میں نے دیکھا تو میں بیڈ سے نیچے گری ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر میں نے اﷲ کا شکر اداکیا جس نے مجھے انسان بنایا اور میں نے عہد کیا کہ درخت نے مجھے جو نصیحت کی ہے میں اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔

حصہ