خواب کی حقیقت

219
رمشا جاوید
آسمان پر سیاہ بادل بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ تاریکی اور مزید تاریکی۔ سفید بادلوں کا بچا ہوا چھوٹا سا جھنڈ آسمان کا معائنہ کرنے کے بعد بے قراری سے اپنے شہزادے سورج کے محل پر پہنچ گیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے سورج کی روشنی مدہم ہوتی چلی جا رہی تھی۔ گویا اس کی طاقت ٹوٹ کر ختم ہو رہی تھی۔
’’کوئی خبر؟‘‘ شہزادے سورج نے بادلوں کو آتے دیکھا تو پوچھ بیٹھے۔
’’آسمان کو چاروں طرف سے سیاہ بادلوں نے ڈھک لیا ہے۔‘‘ ننھا بادل کا ایک ٹکڑا افسردگی سے بولا۔
’’بہت جلد یہ آسمان سیاہ ہو جائے گا، اندھیرا ہر سو پھیل جائے گا اور ہم اجنبی ہو جائیں گے۔‘‘ بادل کا دوسرا ٹکڑا مایوسی سے کہنے لگا۔
’’نہیں ایسا نہیں ہوگا! ابھی بھی امید باقی ہے۔‘‘ شہزادے سورج نے کہا سفید بادلوں نے دیکھا شہزادے کی مردہ آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی تھی جو ہمیشہ ’’ابھی بھی امید باقی ہے‘‘ کہنے پر ہوتی تھی۔
یہ کیسی من گھڑت کہانی ہے جو تم روز ہمیں سناتے ہو۔؟ کھانے کی ٹیبل پر سبھی گھر والے موجود تھے اور سعد امی جانی کو اپنا خواب سنا رہا تھا۔ حور کی بات پر اس نے غصے سے پانی کا گلاس ٹیبل پر پٹخا۔
’’میں من گھڑت کہانی نہیں سنا رہا۔ یہ خواب ہے خواب جو میں روزانہ دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’میرا خیال ہے بیٹا تم انگلش مووی دیکھنا بند کر دو۔ اسی وجہ کہ جو ذہن میں ہوتا ہے۔ وہ تم نیند میں بھی دیکھنے لگتے ہو۔‘‘ امی جانی کی بات پر سعد سوچ میں پڑھ گیا۔
’’کیا واقعی یہ ذہنی خواب تھا…؟؟ کچھ تو تھا جو سعد کو اندر سے بے چین کر رہا تھا۔!‘‘
سعد ایک ایسے گھرانے میں پرورش پا رہا تھا جہاں دولت کی ریل پیل تو تھی مگر دین کا کوئی شعور نہ تھا۔ یونیورسٹی جا کر بھی سعد کھویا کھویا سا رہا۔
کیا بات ہے یار؟ آج تم پریشان لگ رہے ہو کلاس میں بھی تم سر کی باتوں پر دھیان نہیں دے رہے تھے؟‘‘ دو پیریڈ لینے کے بعد سعد اپنے دوستوں کے ساتھ کینٹین میں موجود تھا۔ اور اب سہیل کی ہمدردی پا کر اس نے اپنا خواب اور گھر والوں کی باتیں اسے بتا دیں۔
’’ہم م م۔ ویسے اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟‘‘ رضا ساری بات سن کر بولا۔
’’یہی تو مسئلہ ہے۔ پتا نہیں کیوں مجھے اندر سے عجیب سی بے چینی ہو رہی ہے۔‘‘ سعد بے بسی سے بولا۔
’’اس پر دھیان مت دو۔‘‘ سہیل اس کا دھیان بٹانے لگا۔ پھر تینوں اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔
’’یہ لڑکا کون تھا؟‘‘ حمزہ نے عمر سے پوچھا۔ وہ دونوں سعد کی ٹیبل کے پاس ہی بیٹھے سب کچھ سن رہے تھے۔
’’سعد نام ہے اس کا۔ ذہین لڑکا ہے لیکن بہت آزاد خیال ہے۔‘‘ عمر کو جتنا معلوم تھا اس نے بتا دیا۔ جواباً حمزہ سر ہلا کر گہری سوچ میں گم ہو گیا۔
’’السلام علیکم میرا نام حمزہ ہے۔‘‘ یونیورسٹی کے اگلے روز کافی انتظار کے بعد حمزہ کو سعد نظر آیا تھا۔ اور اب حمزہ ہاتھ آگے بڑھائے گرم جوشی سے اپنا تعارف کروا رہا تھا۔
’’وعلیکم السلام میں سعد ہوں۔‘‘ سعد نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا اور یہ ایک حیران کن بات تھی۔ سعد اتنی جلدی کسی سے مانوس نہیں ہوا کرتا تھا لیکن حمزہ کی پرکشش شخصیت نے سعد کو حمزہ سے قریب کردیا۔ دوستی اور حد تک بڑھی کہ سعد اپنی ہر بات حمزہ سے شیئر کرنے لگا۔
’’ہم اجنبی ہو جائیں گے۔ ہم اجنبی ہو جائیں گے۔‘‘ سفید بادل کا ٹکڑا دیوانہ وار چلا رہا تھا۔ پورا آسمان سیاہ بادلوں کی فوج سے ڈھک چکا تھا۔ بس سوئی کے ناکے کے برابر ایک جگہ روشن تھی جہاں بادلوں کا مختصر سا جھنڈ شہزادے سورج سمیت پناہ گزین تھا۔ سبھی بے قرار سے مچل رہے تھے۔ ایسے میں شہزادے سورج کی آواز سنائی دی۔
’’اسے بلائو۔‘‘ شہزادے سورج نے ایک بادل کو حکم دیا جو نڈھال سا ایک طرف بیٹھا تھا۔ ان کے حکم کی دیر تھی کہ بادلوں میں ایک شور مچ گیا۔ ’’اسے بلائو… اسے بلائو…!‘‘
’’سعد اٹھو… تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا آج…؟‘‘
’’او… ہاں…‘‘ سعد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ آج پورے دو مہینے بعد اس نے یہ خواب دیکھا تھا۔ پریشانی کے عالم میں تیار ہو کر وہ یونیورسٹی پہنچا۔
’’میں نہیں جانتا حمزہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘‘ خالی پیریڈ میں سعد پالسی سے حمزہ سے کہہ رہا تھا۔ حمزہ کی محبت کا کچھ تو اثر تھاکہ اس نے سہیل اور رضا کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کم کر دیا تھا۔
’’میں جانتا ہوں سعد تمہارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘‘ حمزہ کی بات پر سعد نے چونک کر اسے دیکھا اس سے قبل کے وہ کچھ پوچھتا حمزہ نے اسے گھر آنے کی دعوت کا کہا اور ایک جھٹکے سے وہاں سے اٹھ گیا۔ رات کو حیران و پریشان سعد حمزہ کے گھر پہنچا۔ حمزہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
’’اب بتائو میرے خواب کے بارے میں تم کیا جانتے ہو…؟‘‘ کھانے سے فارغ ہو کر سعد نے پوچھا۔
’’تم مجھے اپنا خواب شروع سے سنائو۔‘‘ حمزہ نے کہا تو سعد نے اسے اپنا خواب مکمل طور پر سنا دیا۔
’’تم بہت خوش قسمت ہو سعد کہ اللہ کی نظر میں تم آگے ہو۔ اللہ ہدایت اسی کو دیتا ہے جسے وہ اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ اب ہدایت جس شکل میں بھی ملے۔ در حقیقت وہ سفید بادل ’’اسلام‘‘ ہے جو شروع میں اجنبی تھا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا۔ اسے تم نوجوانوں نے مل کر زندہ رکھنا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے…؟؟‘‘ سعد حمزہ کی بات کاٹ کر پوچھ بیٹھا۔
’’پیارے نبیؐ کی سنت کو زندہ کرکے دنیا میں اگر آج ہم مسلمانوں کا وجود ہے تو وہ اسی حستی کی جانفشانیوں کے طفیل ہے۔ آج اگر اپنائیں تو ہم کو حقیقت کی شعور افزا کرنیں، اخلاق کی لازوال قدریں اور زندگی کی فلاح کے اٹل اصول ہاتھ آسکتے ہیں تو محمدؐ کی بارگاہی سے ہاتھ آسکتے ہیں۔ محسن انسانیت جیسا داعی اور معلم اور مربی اور قائد اگر نہ مبعوث ہوا ہوتا تو یہ دنیا اندھیر ہوتی۔ وہ سورج تمہارا ایمان ہے، سوئی کے ناکے کے برابر تمہارے دل میں ایمان موجود ہے جو پر امید ہے کہ برائیوں کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے اور سفید بادلوں کو جگہ مل جائے گی۔ تمہیں، مجھے ہم سب کو اپنے اپنے سفید بادلوں کو جگہ دینی ہو گی اس کے لیے ہمیں محسن انسانیتؐ کے بتائے ہوئے راستوں اور طریقوں پر چلنا ہوگا۔‘‘
سعد حمزہ کی باتوں سے بے حد متاثر ہوا تھا۔ گھر آکر وہ یہی سوچتا رہا کہ کیا واقعی اس کے خواب کی تعبیر وہی ہے جو حمزہ نے بتائی۔ سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادی میں کھو گیا۔
’’چھوڑ دو… مجھے چھوڑ دو… سورج کی تپش مجھے جلا دے گی۔‘‘ سفید بادلوں کے جھنڈ ایک لڑکے کو پکڑ کر سورج کے پاس لے جا رہے تھے۔ اور وہ لڑکا چلا رہا تھا۔ وہ سعد تھا… ہاں وہ سعد تھا۔ بادلوں نے شہزادے سورج کے پا س لا کر سعد کو چھوڑ دیا۔ سعد کی سوچ کے بر عکس سورج کے پاس ایک خاص قسم کی ٹھنڈک تھی۔ اور وہاں کی جگہ خوشبو سے معلم تھی۔
’’تم ہمیں بچا سکتے ہو۔‘‘ شہزادے سورج اسے دیکھ کر پکار اٹھے۔ سفید بادلوں نے دیکھا شہزادے کی مردہ آنکھوں میں ایک خاص چمک پیدا ہو گئی تھی۔
’’میں… مگر کیسے…؟؟‘‘ سعد حیرت سے ہکلایا۔ جواب میں شہزادے سورج نے آگے بڑھ کر گلاب کی پتیوں سے ڈھکی ایک کتاب اس کے ہاتھوں میں تھما دی۔
’’اسے تھام لو… اس جیسے بن جائو۔‘‘ سعد نے گلاب کی پتی کو ہٹا کر دیکھا اس کتاب پر لکھا تھا۔
’’القرآن‘‘ محسن انسانیتؐ پر اتاری گئی ایک مقدس کتاب۔ سعد نے نم آنکھوں سے اس کتاب کو سینے سے لگا لیا۔
حصہ