روشنی کا سفر

272

حذیفہ عبداللہ
ڈاکٹر احمد علی آج جب اپنے مطب سے فارغ ہوئے اور گھر کی طرف روانہ ہوئے تو رات خاصی ہو چکی تھی سرد رات میں وہ اپنی گاڑی دوڑاتے ہوئے چلے جا رہے تھے گزشتہ رات کی بارش نے موسم اور سرد کر دیا تھا جس کے باعث سڑکوں پر ٹریفک قدرے کم تھا ان کا مطب شہر سے دور ایک غریب بستی میں تھا۔ جہاں ڈاکٹر احمد کے ہستپال میں مریضوں کا نا صرف علاج مفت کیا جاتا بلکہ ان کو دوائیں بھی فراہم کی جاتی اور علاج کے علاوہ ہر طرح کی مدد کرنا بھی ڈاکٹر صاحب اپنا فرض سمجھتے تھے کیوں نہ کرتے انہوں نے ہسپتال کھولا ہی اسی مقصد کے لیے تھا ویسے تو ڈاکٹر احمد ایک سرکاری ہسپتال میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے لیکن انہوں نے شام کا وقت غریبوں کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جیسے ہی اپنی گاڑی ایک چوراہے سے آگے بڑھائی تو بائیں طرف دیکھا کہ کچھ لوگ سرد موسم میں آگ جلا کر سرد موسم میں گرمی حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر احمد علی نے اپنی گاڑی روک دی انہیں یاد آیا کہ یہ تو وہ ہی جگہ ہے جہاں کچھ ماہ قبل ایک کچی آبادی تھی جسے بارشوں نے تباہ کر دیا تھا لوگ بے گھر ہو گئے حکومتی اہلکار آئے امدادی کارروائی کے نام پر خانہ پوری کرکے چلے گئے۔ اس تباہی میں انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں تھیں حکومتی وعدوں اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے نا کافی اقدامات کے باعث اس کے آبادی کے لوگ بے مکاں ہی رہے۔
ڈاکٹر احمد نے جب گاڑی روکی تو کچھ لوگ ان کی طرف آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے گاڑی میں موجود کھانے پیسے کا سامان انہیں دیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا کہ ایک بچہ آگ کے پاس بیٹھا رہا۔ ان کی طرف نہ ہی لپکا اور نہ ہی سوال کے انداز میں ان کی طرف دیکھا ڈاکٹر صاحب اس بچے کے قریب گئے اور ساتھ بیٹھ گئے اور پوچھا بیٹا آپ کا نام کیا ہے۔ بچے نے جواب دیا ارسلان ڈاکٹر احمد نے بچے کو بھی کھانے پینے کے پیکٹ دیئے اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ڈاکٹر صاحب جب آرام کرنے کے لیے لیٹے تو نیند ان کی آنکھوں سے دور تھی اور وہ اپنے ماضی میں چلے گئے ان کے سامنے ماضی ایک فلم کی طرح سامنے تھا۔ جب ان کے گائوں میں شدید سیلاب آیا جس میں پورا گائوں تباہ ہو گیا ان کے والد اور والدہ بھی اس تباہی میں موت کے منہ میں چلے گئے وہ تنہا رہے گئے تھے اور امدادی کام کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں آئین ان میں سیٹھ غلام علی بھی تھے جنہوں نے ان کے سرپر دست شفقت رکھا۔ خیریت معلوم کی۔ والد اور والدہ کی ہلاکت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ تم کو کوئی مزدوری یا کام نہین کرنا ہوگا بلکہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا جو کہ اس تباہی کے باعث منقطع ہو گیا۔ احمد علی سیٹھ غلام علی کے ساتھ شہر آگئے۔ سیٹھ صاحب نے احمد کو ایک اچھے اسکول میں داخل کرایا اور تعلیم کے لیے بہتر انتظامات کے ساتھ ساتھ تربیت کا معقول بندوبست کیا تاکہ وہ معاشرے کا ایک بہتر فرد بن سکے۔
سیٹھ غلام کی خواہش اور احمد علی کی محنت رنگ لائی کل کا احمد علی آج کامعروف ڈاکٹر احمد علی تھا۔ معاشرے کی خدمت کے جذبے سے سرشار۔ اعلیٰ سرکاری عہدے پر ہونے کے باوجود شام کا وقت انہیں نے صرف اور صرف غریب اور ضرورت مندوں کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا۔
صبح ہوئے ہی ڈاکٹر احمد علی نے اسی آبادی کا رخ کیا اور ارسلان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ آپ پڑھتے ہو ارسلان نے بتایا کہ وہ آبادی کی تباہی سے قبل سرکاری اسکول میں پڑھتا تھا۔ لیکن والدین کے انتقال کے بعد وہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ ڈاکٹر احمد علی ارسلان کو ساتھ لے آئے اسے اچھے اسکول میں داخل کرایا تاکہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور معاشرے کا ایک اچھا فرد بن سکے اور سیٹھ غلام علی نے ان پر جو احسان کیا تھا وہ تو اتارا نہیں جا سکتا۔ لیکن سلسلہ تو جاری رکھا جا سکتا ہے نیکی اور بھلائی کو پھیلانا کسی ضرورت مند کی مدد کرنا ایک اچھا عمل ہے اور کسی فرد کو معاشرے کے لیے کارآمد بنانا پورے معاشرے کی خدمت ہے۔ اگر چراغ سے چراغ جلانے کا عمل جاری رہے تو روشنی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔

حصہ