وجہ بے گانگی اور ذی شان ساحل

863

خالد معین
اسی کی دہائی میں بہت سے ستارے کراچی سے آسمان ِ شاعری پر چمکے ، ان میں سے کچھ ستارے بہت جلد وقت کی گرد میں گم ہوگئے،لیکن کچھ ستاروں کی چمک اب تک برقرار ہے اور شاید مزید چند دائیوں تک وہ اور اسی طرح چمکتے رہیں ۔اس کے بعد ان کی چمک کا فیصلہ تو یقینا آنے والا وقت ہی کرے گا ۔کراچی میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ابھرنے والی تخلیقی شاعرانہ نسل میںبڑی قوت تھی اور اسی لیے انہوں نے بڑے کمالات بھی دکھائے ۔اسی نسل نے ممتاز شاعر اور نقاد قمر جمیل کی سربراہی میں نثری نظم کا بڑی کام یابی کے ساتھ مقدمہ بھی لڑا ،جس کی گونج پورے پاکستان کے ادبی حلقوں میں سنی گئی ۔یہ نوجوان طالب ِ علم کا گروہ تھا ،ان میں ثروت حسین ،شوکت عابد ،عذرا عباس ،انور سن رائے ،فاطمہ حسن سمیت بے شمار لوگ شامل تھے ،قمر جمیل اُس زمانے میں ریڈیو میں تھے ،اس لیے یہ نوجوان بزم طلبِاکے پروگراموں کے ساتھ ساتھ قمر بھائی کے گرد بھی اپنا حصار بنائے رکھتے ۔ان نوجوانوں میں سے کوئی کالج میں پڑھ رہا تھا ،کوئی یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھا اور کوئی تازہ تازہ اپنی تعلیم مکمل کر کے کسی ذرئعہء معاش کی تلاش میں منہمک تھا ۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو زندگی کے کسی اور ہی دائرے میں رقصاں تھے ، انہی میںسارہ شگفتہ جیسی تازہ کار شاعرات بھی تھیں ۔کچھ دیگر تخلیقی نوجوان ممتاز شاعر اور نقاد سلیم احمد کے گرد جمع تھے ،تاہم یہ نوجوان نثری نظم کے عشق میں گرفتار نہیں تھے ۔
دوسری جانب ستر کی دہائی کے اختتامی برسوں اور اسی کی دہائی کے آغاز میں ایک اور تخلیقی نسل کراچی میں ابھری ،جس نے نثری نظم کے تجربات سے متاثر ہونے کے بہ جائے غزل کی کلاسیکی روایات کو گلے لگایا،جدید حسیات کے ساتھ عصری آگہی کو اہم سمجھا اور ذات و کائنات کے نہاں خانوں کو نئے سرے سے دریافت کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔1961ء میں جنم لینے والے اور 2008 ء میں وفات پانے والے منفرد شاعر، ذی شان ساحل کا تخلیقی سفرستر کی دہائی کے آخری چند برسوں میں آغا زہوا اور پھر اسی کی دہائی میں انہیںنثری نظم کے اہم شعرا میں تسلیم کیا جانے لگا ۔وہ حیدر آباد ،سندھ سے غالبا اسی کی دہائی میں کراچی آئے ،تاہم ان کا معاملہ کراچی کے دیگر نوجوان شعرا سے خاصا مختلف رہا ہے،کیوں کہ انہوں نے اپنی پہچان غزل سے نہیں نثری نظم سے بنائی ۔ذی شان ساحل نے بڑی جان دار ،منفرد اسلوب کی آئینہ دار اور حیران کُن نثری کہیں اور ایسی شان دار کہیں کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ادبی منظر نامے پر چھا گئے ،ایسا نہیں کہ ذی شان ساحل نے نثری نظم کے علاوہ نظم کے دیگر ہیتی تجربات نہیں کیے ،ضرور کیے مگر ذی شان ساحل کی پہچان یقینا نثری نظم ہی بنی ۔اسی لیے وہ نثری نظم کہنے والے دوستوں کے درمیان زیادہ رہے ،ملک کے اہم ادبی جریدوں اُن کی تخلیقات بڑے تواتر کے ساتھ شائع ہوئیں ۔البتہ ذی شان ساحل کراچی کی بڑی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں نہ ہونے کے برابر شریک ہوئے اور اس کی ایک بنیادی وجہ بچپن میں پولیو وائرس کاشکار ہونا رہا ،انہوں نے زندگی کے آخری برس وئیل چیئر پر گزارے اور دوسری وجہ غالباً یہ رہی ہو گی کہ وہ شعرو ادب کی منصوعی گرم بازاری کے آدمی نہیں تھے ۔ ویسے میں نے انہیں ایک دو بار مخصوص شعری نشستوں میں ضرور دیکھا ۔اُ س وقت وہ وئیل چیئر استعال نہیں کرتے تھے ،تاہم انہیں عام لوگوں کے مقابلے میںچلنے پھرنے میںتھوڑی دقت ضرور لاحق تھی۔البتہ ذی شان ساحل کی آنکھوں میں بھرپور زندگی اور جینے کی بے پناہ لگن ضرور دیکھی جا سکتی تھی ،وہ خود کو نارمل ہی محسوس کرتے تھے ،ملنے والوں سے تپاک سے ملتے اور ایک سحر انگیز اداس مسکراہٹ ان کے سنجیدہ چہرے پر بکھری رہتی ۔میں نے جب پہلے بار ذی شان ساحل کو دیکھا تو بڑا حیران ہوا کہ اس نازک سے نوجوان کو خدا نے کیسی آزمایش میں ڈالا ہوا ہے اور کس ہمت اور جرات کے ساتھ یہ نوجوان حالات کے خلاف سینہ سپر ہے ۔پھر ایک خیال مجھے ذی شان ساحل کی شاعری پڑھتے ہوئے ہمیشہ آیا کہ اس نوجوان کے پاس کتنے خواب ہیں،کتنے خیال ہیں،کتنے آزار ہیں،کتنی تنہائی ہے ،کتنی دانش ہے ،کتنی جی داری ہے ،وہ لوگوں سے ٹوٹ کے محبتیں کرتا ہے ،وصال کی خواہش کرتا ہے ،ہجر کے دکھ اٹھاتا ہے ،اسے فطرت سے عشق ہے ،وہ آسمان ،بادل ،پرندوں ،ہوائوں ،بارشوں اور نظاروں میں ڈوبا رہتا ہے ،اس نے اپنے کمرے میں پوری جیتی جاگتی دنیا آباد کی ہوئی ہے اور وہ اکثر کم ہمت رکھنے والوں سے زیادہ جیتا ہے اور جینے کے دکھ سکھ سے گزرتا ہے ۔
اسی لیے ذی شان ساحل مجھے بہت پسند رہے دیگر اہم نثری شعرا کے ساتھ مجھے ان کی نثری نظمیں ہمیشہ ایک جدا گانہ فضا،ایک مخصوص اسلوب میں ڈوبی،وسیع دنیا کی آئینہ دار ،اندرونی و بیرونی جذباتی کشمکش سے نبرد آما اور حیران کر دینے والی معصومیت کے باعث اچھی لگیں ۔وہ شاعر تھے ،خالص شاعر اور ان کی شاعری میں بلا کی قوت ِ نمو اور قوت ِ پھیلا ئو موجود ہے ،مجھے ان کی آزاد نظمیں بھی پسند آئیں ،جن شعری نشستوں میں،میںنے ذی شان ساحل کا کلام سنا ،اُن نشستوں میں ،میں نے پہلی بار اُن کی غزلیں بھی سنیں اور مجھے بڑی خوشی بھی ہوئی کیوں کہ اُن کی غزلوں میں،اُن کی نظموں کی طرح بڑی تازگی ،سادگی اور معصومانہ کشش محسوس ہوئی ۔ذی شان ساحل کے بارے اس تمہید کا ایک خاص مقصد تھا ،کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ آپ اس خوب صورت اور اہم شاعر کے بارے میں اگر کچھ نہیں جانتے تو کچھ نہ کچھ ضرور جان جائیںتاکہ میں اُن کی وفات کے بعد شائع ہونے والے ایک خاص شعری مجموعے ’’وجہ بے گانگی ‘‘کا تعارف کراسکوں ،جو غزلوں پر مشتعل ہے ،یہ مجموعہ اب سے چند سال پیش تر ہی سامنے آیا ہے ،اور اس مجموعے کو معروف ادبی جریدے ’’آج ‘‘کے مدیر اور ادیب، اجمل کمال نے شائع کیا ہے ۔اس مجمو عے کے ذرئعے مجھ جیسے وہ قارئین جنہوں نے ذی شان ساحل کی بہت سی غزلیں ایک ساتھ نہیں پڑھیں ،اب وہ بھی اس کتاب کے توسط سے نظموں کے حوالے سے شہرت رکھنے والے شاعر کو ایک ذائقے اور ایک نئے رنگ میں دیکھ سکتے ہیں۔اس سے پہلے سے ذی شان ساحل کی غزلوں پر مزید کوئی اور بات کی جائے بہتر ہوگا کہ ان کی غزل کا ایک تعارف یہاں پیش کر دیا جائے :
غم پرانے بھول جانے کی خوشی ۔۔۔۔۔ہر نئی ایجاد سے ہوتی نہیں
تلاش ِ دوست میںکچھ اور تو نہیںممکن۔۔۔۔۔یہی بہت ہے کہ اہل ِ خبر کے پاس رہیں
ساحل کی بھیگی ریت پہ چلتا برہنہ پا ۔۔۔۔۔میں ہوںاداس اور سمندر بھی خوش نہیں
نہیں ہے وہ مگر کوئی تمنا ساتھ چلتی ہے ۔۔۔۔۔مجھے اُس سے الگ رہنے کی عادت کیوں نہیںہوتی
جب اپنی آگ ہی کافی ہے میرے جینے کو ۔۔۔۔۔تو مہرو ماہ سے بھی استفادہ کیا کرنا
جانے کیا کچھ تھا ،جو اب ہم کو نظر آتا نہیں۔۔۔۔۔اور جو کچھ ہے یہاں معدوم ہوتا جائے گا
نگاہ ِناز کی تھوڑی سی مہربانی میں ۔۔۔۔۔گرفتہ دل ہے گرفتار خوش گمانی میں
اپنی چھوٹی سی ہے دکان کہیں۔۔۔۔۔پورا بازار ہے رقیبوں کا
آنا جانا بھی ہوگیا دوبھر ۔۔۔۔۔کوچہ ء یار ہے رقیبوں کا
کوئی جھگڑا نہیں ہے لوگوں سے ۔۔۔۔۔صرف آزار ہے رقیبوں کا
ہوا بہار کی آئے گی اور میں چوموں گا ۔۔۔۔۔وہ سارے پھول کہ جن میں تری شباہت ہے
آئینہ خانے تری تصویر بن کے رہ گئے ۔۔۔۔۔میں کہاں جا کے اب اپنے آپ کو دیکھا کروں
بہ ظاہر ساری دنیا ہے مکمل ۔۔۔۔۔مگر اک خوب صورت سی کمی ہے
کسی نے میری محبت کو کر لیا محفوظ ۔۔۔۔۔خیال آیا کسی کو تو پاسبانی کا
اب جہاں سے دھوپ آتی ہے بہت ۔۔۔۔۔اس جگہ سایا رہا ہے دوستو
غبار دل سے نکالا نظر کو صاف کیا ۔۔۔۔۔پھر اس کے بعد محبت کا اعتراف کیا
ظلم پر پھول بھی رہے خاموش ۔۔۔۔۔رُت بدلتے ہوے بھی کچھ نہ کہا
یہ رنگا رنگ جہان ِ حیرت ہمارے منفرد شاعر ذی شان ساحل کا ہے ۔جدید غزل کا وہ تخلیقی سفر جو قیام ِ پاکستان کے بعد فیض احمد فیض ،ناصر کاظمی ، عزیز حامد مدنی ،منیر نیازی ، احمد فراز ،قمر جمیل ، رئیس فروغ اور جون ایلیا تک پہنچا ،اسی روایت کی سمت میں ذی شان ساحل کی غزل بھی اپنی نمود کرتی دکھائی دیتی ہے ۔یہ غزل ایک طرف اپنے حسب نسب کی خبر دیتی ہے،اپنی انفرادیت کی آپ گواہ ہے اور دوسری جانب نظم کی بنت سے جدا ایک الگ فضا بھی رکھتی ہے ،البتہ اس غزل پر نظم کی ایک ہلکی سی نرم روچھب کا گمان ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ذی شان ساحل کی نظموں کے مجموعوں ’’ایرنا ‘‘،چڑیوں کا شور ‘‘،نیم تاریک محبت ‘‘،’’کراچی اوردیگر نظمیں ‘‘،ای میل اور دیگر نظمیںوغیرہ اپنا اعتبار رکھتی ہیں
،تاہم اُن کا آخری مطبوعہ مجموعہ ’’وجہء بے گانگی‘‘اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ اس مجموعے میں قارئین کی ملاقات ایک نئے ذی شان ساحل سے ہوتی ہے ،جو غزل کی روایت سے بھی با خبر ہے ،اور جدید غزل کا مزاج آشنا بھی ہے اور اس طرح انہیں صرف نظم نگار کے طور پر ہی نہیںبلکہ ایک کام یاب غزل گو کے طور پر بھی یاد کیا جائے گا ۔اب اس دعوے کی دلیل کے لیے ،آئیے ! ذی شان کی غزل کے مزید ایسے تیور بھی دیکھتے ہیں ،جو انہیں ہم عصر غزل کے منظر نامے میں ایک نئی پہچان بخشنے کے لیے کافی ہیں ۔ ویسے میں تو یہاں تک ہی اپنی گزاراشات پیش کر سکتا ہوں ، کیوں کہ آگے کا کام عصر ِ حاضر کے معتبر ناقدین کا ہے کہ وہ ذی شان ساحل کی سجی سنوری ، ذات اور بیرون ذات کی بھٹی میں پکی ہوئی، ان غزلوں کا تجزیہ کریں ،جو اپنے بطون میں ایک نیا وجدانی سرمایہ رکھتی ہیںاور پڑھنے والوں کو ایک نئی حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں:
رنگ ِ گل سے پیرہن اچھا لگا ۔۔۔۔۔سایہء گُل سے بدن اچھا لگا
کھو گیا لا حاصلی کے حسن میں۔۔۔۔۔عشق کا دیوانہ پن اچھا لگا
سب کو اچھی لگ رہی تھی انجمن ۔۔۔۔۔ہم کو جانِ انجمن اچھا لگا
یوں بولی تھی چڑیا خالی کمرے میں۔۔۔۔۔جیسے کوئی نہیں تھا خالی کمرے میں
کھڑکی کے رستے سے لایا کرتا ہوں ۔۔۔۔۔میں باہر کی دنیا خالی کمرے میں
ہر موسم میں آتے جاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔لوگ ،ہوا اور دریا خالی کمرے میں
آگ پانی میں لگا لیتا ہوں میں۔۔۔۔۔شعر کہہ کے مسکرا لیتا ہوں میں
لوگ لے جاتے ہیں چیزوں کو مری ۔۔۔۔۔صرف چہرے کو چھپا لیتا ہوں میں
اِن دنوں دل گا رہا ہے دوستو ۔۔۔۔۔خواب بھی دکھلا رہا ہے دوستو
پھول کھلتے جا رہے ہیں ہر طرف ۔۔۔۔۔جیسے کوئی آ رہا ہو دوستو
آپ کے عارضی قیام کے بعد ۔۔۔۔۔دکھ طویل المعیاد رہتا ہے
پہلے رہتا تھا مجھ سے، پہلے وہ ۔۔۔۔۔اب رقیبوں کے بعد رہتا ہے

حصہ