سلسلے اس کی نگاہوں کے بہت دور گئے

439

عطیہ اقبال زیدی
ستمبر اہل کراچی کے لیے ستمگر ہی ثابت ہوتا ہے۔ گرمی لوٹ لوٹ کر آتی ہے اور خوب خوب آنکھیں دکھاتی ہے۔
کئی سال پہلے ایسے ہی کسی موسم میں سعود آباد میں سید اقبال احمد زیدی صاحب کے دروازے پر دستک ہوئی‘ دو خواتین خالہ قمر جلیل اور خالہ بلقیس صوفی پسینے میں نہائی ہوئی‘ گھر میں داخل ہوتی ہیں۔ ایسبگاس کی شیٹوں کی چھت والے کمرے میں دو پلنگ آمنے سامنے بچھے ہوئے تھے۔ اس پر بچھی دری کوالٹ کر وہ کھری چارپائی پر بے تکلفی سے بیٹھ گئیں۔ یہ اس گھر میں ’’لڑکیوں‘‘ کا کمرہ تھا۔ وہ علاقے کا دورہ کرکے تھوڑی دیر کو سستانے کے لیے یہاں ٹھہری تھیں۔
ٹٹار دوپہر میں موسم کی شدت سے بے نیاز ’’حلقے‘‘ اور علاقہ کے مسائل پر بے تکان گفتگو کرتے ہوئے‘ گاہے اس سے بھی مخاطب ہوتیں‘’’ ارے جلیل صاحب اور زیدی صاحب: تو ’’کوہستان‘‘ اور ’’تسنیم‘‘ کے زمانے سے گہرے دوست رہے ہیں (بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ یہ بالترتیب اخبار اور رسالے تھے)۔
لکھنے والی کے لیے یہ منظر نیا نہیں تھا۔ اپنی ’’سگی خالہ‘‘ تو کوئی تھیں نہیں۔ آنکھ کھلی تو یہی خالائیں تھیں۔ ’’امتیاز آپا‘‘ جب ملتیں۔ گلے لگا کر پیار کرتیں۔ بچپن ذرا اور آگے بڑھا تو ’’سلمیٰ آپا‘‘ (سلمیٰ خانم) تھیں۔ لفظی ترجمہ سے قرآن پاک سکھاتیں۔ اور ساتھ ہی مونگ کی دال کی مزیدار مٹھائی اور بہاری کباب بھی اپنے ہاتھ سے بنا کر کھلاتیں۔
مگر اسے اپنی یہ ساری خالائیں سخت زہر لگتیں۔ بدھ کا دن تو اور بھاری ہوتا۔ امی دوڑا دوڑا کر ہلکان کردیتیں۔ سب کے گھر یاد دہانی کرانی ہوتی تھی۔ ’’آج درس کا دن ہے‘‘ تب ٹیلی فون کی سہولت عام نہیں تھی۔
یہ خالائیں اسے اس لیے بھی زہر لگتیں کہ وہ جو ڈھیلا ڈھالا کرتا پہنا کرتی (اس کی گلے کی کنٹھی پیچھے سے نہیں کاٹی جاتی تھی۔ بقول امی کے یہی صحیح طریقہ ہے۔ گلا آگے کو نہیں آتا)۔
یہ خالائیں جب پیار سے قریب کرتیں‘ سر پر ہاتھ پھیرتیں‘ تو ساتھ ہی گریبان کا اوپری بٹن بھی بند کردیتیں‘ اور دو پٹیان کو سر پر جما دیتیں۔ جس پر اسے سخت اعتراض تھا۔ 8 ‘9 سال کی اس بچی کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس کا قدم اپنی ہم عمر بچیوں سے ذرا بڑا تھا۔(اس زمانے میں بچپن واقعی بچپن ہوا کرتا تھا۔ بچے‘ ورقی اور برقی ذرائع ابلاغ کے نہیں‘ ماں باپ کے اپنے بچے ہوا کرتے تھے۔ اور ان کے علاوہ ہمسایوں کے بھی زیر تربیت ہوا کرتے تھے۔ جن کے ساتھ وہ اپنے بچوں جیسا برتائو کرتے تھے)۔
اس کی زندگی کے سارے خواب ان ’’بناسپتی خالائوں‘‘ کی ’’مطلوبہ بچی‘‘ سے بالکل الگ تھے۔ اسے اسکول سے آتے ہی بجلی کی سی تیزی سے گھر میں لگے ’’امرود‘‘ کے درخت پر چڑھ کر کچے پکے امرود کھانے تھے (تاوقت یہ کہ امی دوپہر کا کھانا نہ نکال دیں)۔
اسکول کی دیوار پر چڑھ کر ہاتھ پھیلا پھیلا کر چلنا‘ اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ دوپہر کا کھانا کھاکر گھر کی دیوار پر چلنا بھی ضروری تھا۔ اور اس کے بعد گھر میں لگے پیپل کے درخت پر چڑھ کر ایک ’’آرام دہ گدے‘‘ پر بیٹھ کور نور‘ نونہال‘ تعلیم و تربیت یا ’’طوطا مینا‘‘ کی کہانیاں بھی پڑھنی تھیں (درخت پر بیٹھنا دو‘ وجوہ سے ضروری تھا۔ امی ہر کتاب یا رسالے پر ضرورت سے زیادہ نگاہ رکھنے کی کوشش کرتیں‘ دوسرے یہ کہ بار بار کی ان آوازوں سے بچا جائے جو مطالعہ میں حارج ہوتیں۔ شام کو بھائی کے ساتھ گلی میں سائیکل چلانے کا خواب الگ تھا۔ جو امی کو سخت گراں تھا۔ محبت بھری اس کشمکش اور آہنی تربیتی شکنجہ کا نتیجہ بالاخر وہی برآمد ہوا‘ جوان خواتین کا مطلوب و مقصود تھا۔ خالائیں پسند آنے لگیں۔ اب وہ بھی کچھ خالائوں کی پسند کی ہوگئی تھی۔ شوخی و شرارت کچھ کچھ قابو میں‘ سر پر قرینے سے جما دوپٹہ‘ اور آہستہ خرام بھی…
عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ دائرہ کبھی سکڑتا سمٹا اور کبھی پھیلتا چلا گیا۔
’’نظریاتی وابستگیاں‘‘ دوسری ’’وابستگیوں‘‘ پر غالب آگئیں۔ اور یوں چند ہستیاں ایسی بھاگئیں کہ ’’رشتۂ انس‘‘ جسم و جاں کی حدود سے آگے نکل گیا۔ جو اسے یاد دہانی کراتی رہتیں کہ:
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
ان میں سے ہی ایک ہستی خالہ بلقیس صوفی تھیں۔ تربیت کے معاملے میں بے حد چوکس‘ دوران تعلیم اختیار میں کام کرنے کا موقع ملا تو خالہ کے مشورے اور شکوے برابر شامل حال رہے۔ وہ اخبار کو جس درجہ مشن سمجھتی تھیں‘ اس کا صفحہ کیا‘ پاکستان کا کوئی صفحۂ خواتین اس معیار تک نہیں پہنچ پاتا تھا۔ مگر اس ’’کمزوری‘‘ نے جو ’’دردِ مشترک‘‘ تھا۔ذاتی تعلقات کو کمزورنہیں تھا۔ انہیں اپنی تربیت پر بھی اعتماد تھا۔ اور اس کی حسن نیت پر بھی اعتبار بھی۔
’’پڑھنے جارہی ہو‘ یہ انگوٹھی اتار کر پرس میں رکھ لو۔ واپسی پر پہن لینا… ’’چوڑیاں دکھ رہی ہیں۔ انہیں برقعہ کے کف کے اندر کرلو۔‘‘ طبعیت کو ذرا چمکتا ہوا دیکھا تو کتاب پکڑا دی ’’یہ پڑھو۔‘‘ ’’الفخرفقریٰ‘‘۔
سنا ہے اپنی جوانی کے زمانے میں بڑی آراستہ و پیراستہ ہوا کرتی تھیں۔ (دین کی سادگی کی طرف بھی خودبخود آگئیں) مگر اس نے تو انہیں ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں ہی دیکھا۔
چند نام نہاد کاغذی تنظیموں کی 20 ‘30 بیگمات نے خواتین کے حوالے سے نعوذ باللہ ’’اسلام کے کالے قوانین منسوخ کرو‘‘ کے بینر اٹھا کر مظاہرے کیے تو اسلامی مزاج کی حامل غیور مزاج کی عورتوں نے بھی تنظیم بنا کر مظاہرہ کرنا چاہے۔
کراچی کے متمول علاقے میں واقع ’’الفاطمہ‘‘ ،’’الپاشا‘ اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر نسیم الرحمن (بیگم کلیم الرحمن‘ صدر شعبہ انگریزی) بیگمات کا ایک وفد لے کر ان کے پاس گئیں۔ تو پہلی مرتبہ ’’خالہ بلقیس صوفی‘‘ کو عالم جلال میں دیکھا۔ انہوں نے صاف انکا رکردیاکہ وہ ایسی کسی تنظیم کی سرپرستی نہیں کریں گی۔ ہم ’ادخلو فی السلم کانۃ‘‘ کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے ہاتھ کو سر بلند کرکے مٹھی بنائی۔ ہم اس سے کم تر درجہ پر بنائی گئی کسی تنظیم کا وقتی سہارا بھی نہیں لیں گے۔
بہرحال بیگمات کا وہ مظاہرہ ہوا کہ وہ اس وقت کی ضرورت تھا۔
مگر اتنی بڑی مدبر‘ سرجن‘ ایف آڑ‘ سی ایس۔ امریکہ فیلو شپ رکھنے والی ڈاکٹر نسیم الرحمن کا‘ خالہ بلقیس صوفی کے طرز استدلال کے ہاتھوں مغلوب ہوکر‘ یوں ان سے لپٹ جانا اور بلک بلک کر رونا۔ آج بھی نہیں بھولتا۔ ’’ہاں بلقیس آپا ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔ یہ کام تو مستقل بنیادوں پر کرنے کے ہوتے ہیں‘‘ وہ روئے چلی جارہی تھیں۔
اتنی پڑھی لکھی خواتین پر مشتمل سارا وفد ششدر کھڑا تھا۔ کسی کو اختلاف کی مجال نہ تھی۔ وہ کسی سے مرعوب ہونا جانتی ہی نہیں تھیں۔ جو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم… مگر حلقۂ یاراں میں بھی اگر کوئی رویہ قرآن و سنت کے عین مطابق نہ لگتا تو محبت کرنے والی ان ہستیوں کے درمیان میں ان کے ہاتھوں فوراً ہی ’’رزمِ حق و باطل‘‘ برپا ہوجاتا۔ اور وہ قائل کرکے دم لیتیں۔
آج وہ دونوں ہی ہمارے درمیان نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ڈاکٹر نسیم رحمن‘ بلقیس صوفی کے اک اشارے پر نامعلوم کتنے دینی اداروں کی خاموشی مالی سرپرستی کیا کرتی تھیں۔ مگر بلقیس خالہ حق بات کہنے میں کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔
اسی طرح قائل بھی ہوجاتی تھیں۔ سابق مدیرۂ بتول اور اب رسالہ عفت کی مدیرہ سلمیٰ یاسمین نجمی نے بتایا کہ جماعت کی رکنیت کا حلف اٹھاتے ہوئے۔ حلف نامہ پر دل بھاری ہوگیا۔ ’’انسان تو اپنی سی کوشش ہی کرسکتا ہے‘‘ دیگر خواتین کا اصرار تھا حلف نامہ جیسا ہے ویسا ہی پڑھا جائے گا۔ تب بلقیس خالہ ایسی مزاج شناس کہ کہا اسے لفظ ’’کوشش‘‘ کے ساتھ ہی پڑھ لینے دو۔
فرحت ہاشمی کے لیے لہجہ بے حد ستائشی ہوجاتا۔ دوران گفتگو کئی مرتبہ بتایا‘ فرحت دس بھائی بہن ہیں ماشاء اللہ۔ اپنی کئی شاگردوں کا ذکر بڑی چاہت سے کرتیں۔ اس وقت ایک نام یاد آرہا ہے۔ شاہدہ سمیع۔ ایک مرتبہ ایک لڑکی ’’صدف عارف‘ کے ساتھ ان کی طرف جانا ہوا تو یہ جان کر کہ اس نے تفسیر کا پورا کورس کیا ہوا ہے۔ اپنے گھر کی لائبریری کے سارے دروازے اس پر کھول دیے۔’’تمہیں جو کتاب چاہیے ہو‘ لے جائو‘‘۔ اس نے کتابوں کا ڈھیر منتخب کیا۔ خالہ نے کہا ’’یہ کورس کرنے والیاں’’ہیرے‘‘ ہیں۔‘‘ بے حد حوصلہ افزائی کرتیں۔ کہا ’’دیکھو ان سے کام لینا ہے۔‘‘
بے حد باوقار‘ بے حد سادہ‘ بے حد حسین‘ سفید بے داغ رنگت‘ اوسط قد‘ بڑی بڑی ذہین ابھری ہوئی آنکھیں‘ ستواں ناک‘ ترشیدہ لب‘ خوبصورت آواز‘ پر اعتماد لہجہ‘ شین‘ قاف‘ سے درست دھلی والوں کا مخصوص ٹیکسالی لہجہ (رہنے والی بھی وہیں خی تھیں)۔ بلبلی خانم اسکول سے آٹھ جماعتیں پڑھی تھی۔ بتاتی تھیں کہ اسکول کی پرنسپل انگریز تھیں۔ بے تکلف محفل میں شوخ ہوجاتیں۔
’’عطیہ پتا ہے ہمارے زمانے میں کپڑوں کے کیسے کیسے نام ہوتے تھے۔’’آنکھ کا نشہ‘‘،’’دل کی پیاس‘‘،’’شیشہ‘‘ (نام بھول گئے خالہ کا کھنکتا شوخ لہجہ اب بھی سماعت پر اداس لمحوں میں خوشگوار یادوں کی پھوار برساتا ہے۔)
بچپن کا ایک اور واقعہ یاد ہے۔ ایک مرتبہ امی ان سے باہر کا ساختہ (فارن اسمبل) دوہرے دروازوں والا (ڈبل ڈور) فرج خرید رہی تھیں۔ دفعتاًانہوں نے کہا ’’سائیڈ میں جو اسٹیکر لگا ہے۔ پہلے اسے دیکھ لیجیے۔ اس کی چادر میں اک سوراخ ہے بحری جہاز سے آیا تھا۔‘‘
بلدیہ عظمیٰ کی رکن تھیں‘ کئی کمیٹیوں کی سربراہی بھی کی۔ ان کی کارکردگی کا ریکارڈ تو بلدیہ عظمیٰ کے پاس ہوگا… دل پر تو ان محبتوں کا حساب قرض ہے۔ وہ بانٹتے نہیں تھکتی تھیں۔ جو اتارے نہیں اترتا۔ (ایک لڑکی نے بتایا۔ وہ تو Out of Wayجاکر ہماری مدد کیا کرتی تھیں۔ شاید ہر شاگرد یہی سمجھتی تھیں کہ وہ ان کی ’’خاص شاگرد‘‘ ہے۔)
عوامی جلسوں سے گھنٹہ بھر خطاب کے بعد بھی‘ وہ اپنی جانب متوجہ خواتین صحافیوں سے گھنٹوں بات کر سکتی تھیں‘ اور انہیں مطمئن کرکے ہی ہٹتی تھیں۔ ٹیڑھے میڑھے سوالوں کے سیدھے اور سچے جواب ‘ وسیع المطالعہ ‘ گاہے کسی طنز یہ سوال کے جواب میں لہجہ زیادہ محبت بھرا اور ناصحانہ ہوجاتا۔’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سے کہیں جسے‘۔
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے مرے
تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے
بھانجی تو خالہ کا خاکہ نہیں لکھ سکتی۔ بس یادیں ہیں کہ بس
تیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت
آخر آخر میں جب الطاف حسین کی مہاجر تنظیم کے سائے اہل کراچی پر آسیب کی طرح پڑے۔ عرصۂ حیات تنگ ہوگیا۔ اقبال زیدی صاحب پر تنظیم کے کارکنون نے کلاشنکوف تان لی۔’’چرم قربانی کا مرکز بند کریں‘ کھال دید یں ورنہ کھال اتار لیں گے‘‘ (ابی جان نے کہا ’’بیٹا تمہارے تو کبھی باپ نے بھی مجھ سے اس لہجہ میں بات نہیں کی تھی)۔ کلاشنکوف بردار نے کہا ’’خالو سیکٹر آفس میں آپ کی رسید کٹ چکی ہے۔ اگر آپ نے کھال نہ دی تو وہ میری کھال اتار لیں گے۔‘‘
گھر میں پیٹرول کے گولے‘ شیشوں کی بوتلیں آنی شروع ہوگئیں تو سعود آباد چھوڑ دیا۔ ابی جان کو اس کا بہت غم تھا۔ مگر جب پی۔ای۔سی‘ ایچ۔ ایس میں آگئے تو بہادر آباد سوسائٹی میں خالہ بلقیس صوفی کا گھر قریب ہوگیا اور ملنا جلنا زیادہ ممکن ہوگیا۔ جنید بھائی اکثر صبح گھر چھوڑ جاتے۔ شام کو لے جاتے۔
ابی جان اس گھر میں دو ڈھائی سال بھی نہ رہ سکے۔ ان کی وفات سے گھر میں اداسیوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ ڈاکٹروں نے والدہ کو پاکستان میں ناقابل علاج قرار دے دیا تھا۔ ایسے ماحول میں زندگی کی نئی ترتیب میں بلقیس خالہ نے ہفتہ وار درس قرآن کی ذمہ داری قبول کرلی۔ شرط صرف ایک تھی’’کھانے پینے کی محفل نہیں ہوگی۔‘‘
ان یادگار روحانی محفلوں کا حساب دل میں الگ ہے
اک نام لوحِ ذہن سے مٹتا نہیں ہے کیوں
کیوں وقت اس پہ آکے چڑھاتا نہیں ہے زنگ
پھر وہ وقت بھی گزر گیا۔ امی ملک سے باہر چلی گئیں۔و ہ بھی وہاں نہ رہی… تو وہ ملاقاتیں بھی نہ رہ سکیں۔ جب وہی اپنی جگہ نہ رہی۔
ان میں سے ایک آخری یاد…خالہ ہنستی مسکراتی گھر میں داخل ہوئیں اور بیٹھک میں آکر برقع اتار کر آرام سے بٹھ گئیں۔ بے حد پیاری لگ رہی تھیں۔
وہ اچانک ہی سنجیدہ ہوگئیں۔ چند ہی لمحوں میں پھر موڈ بحال کرلیا۔’’عطیہ اگر جنید آئے اور میں جاچکی ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ میرا انتقال ہوچکا ہو تو کیا کہو گی؟‘‘
وہ تھوڑی دیر ہنسی مسکرا کر‘ کبھی شوخ لہجہ میں‘ کبھی سنجیدہ ہوکر‘ مختلف پیرائے میں ایک ہی سوال دہراتی رہیں۔ ایسے ہی جیسے ساتھ ساتھ مزہ بھی لے رہی ہوں۔ ذرا دیر یہی ماحول رہا۔ پھر خود ہی بولیں ۔’’یہی کہو گی نا‘ خالہ تو گئیں۔‘‘
مری مری سی آواز میں جواب دیا۔’’جی ہاں‘‘۔
وہ ایک دم پھر سنجیدہ ہوگئیں۔ تو پھر خوبصور ت لباس کی طرح‘ یہ جسم بھی تو اک لباس ہی تو ہے جسے اتار کر جانا ہے۔ انہوں نے اجنبی سے انداز میں اپنے ہی وجود کو دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر کیا اسی کا سجانا غم کرنا‘ (تادیر سناٹا رہا) بغیر سیاق و سباق کے وہ اچانک ہی اس طرح کی باتیں کرجاتیں۔ جیسے کوئی دیر تک ڈوب کر ابھر رہا ہوں۔ شاید ان کا اپنے رب سے ایساہی تعلق رہا ہوگا۔ ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا سلسلہ تکلم کا اور 2007ء میں خالہ وہ لباس 30 دسمبر کی درمیانی شب اتار ہی گئیں۔ اللہ ان کی روح کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ بتانے والوں نے بتایا ‘ ان کا سادہ سا جنازہ تھا۔ ان ہی کی طرح نہ کوئی شور‘ نہ ہٹو بچو ڈھیروں شاگرد‘ محبت کرنے والی تنظیمیں عورتیں‘ کم ہی لوگ شریک ہوسکے۔ بے نظیر کے حادثہ کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال ابتر تھی۔
نہ ہی یہ سرگذشت ہے اور نہ کسی کا خاکہ۔ یہ تو بس یادوں کے خزانوں میں سے بیتے دنوں کے چند اوراق ہیں جو گھر‘ ابی جان‘ اور امی جان اور ان کے حلقہ احباب کے حوالے سے خودبخود الٹے چلے جارہے ہیں۔
اس بچی کی یادوں کے خزانے میں سے جواب خود بھی کئی بڑی بچیوں کی خالہ ہے۔ اور نسیان کا شکار’’امی جان‘‘ نہ بول سکتی ہیں‘ نہ سن سکتی ہیں۔ صرف سب کی دعائوں کی طلبگار ہیں۔
سید اقبال احمد زیدی (ابی جان) کا یوم پیدائش 27 ستمبر ہے اور بڑھ جاتی ہے بھولی ہوئی یادوں کی کسک۔ عید کا دن تو زخم اور ہرے کرتا ہے۔ بیتے ہوئے کچھ دن ایسے حیں۔ تنہائی جنہیں دہراتی ہے۔
بچھرے ہوائوں کے سوگ میں رہنے دے اشکبار
اے یادِ رفتگاں مجھے تنہا کر ابھی

حصہ