کیا پاکستان سے محبت جرم ہے؟

977

سید اقبال چشتی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ آپؐ نے کسی کے سلام کا جواب دیا۔ صحابہؓ پریشان ہوگئے کہ ہم میںسے کسی نے سلام نہیں کیا اور نہ ہی کوئی اس محفل میں نیا فرد آیا تو آپؐ نے کس کے سلام کا جواب دیا ہے؟ ابھی صحابہؓ پوچھنے ہی والے تھے کہ آپؐ نے فرمایا کہ خبیب بن عدی ؓنے سلام کہلا بھیجا ہے۔ خبیبؓ کو اللہ کے راستے میں سولی چڑھا کر شہید کر دیا گیا ہے۔
حضرت خبیب بن عدی ؓ بدری صحابی ہیں جب کفار کے ساتھ دو معرکے ہو چکے تھے تو کفار نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر طرح سے سازشیں کیں۔ ایک موقع پر کفار کا ایک گروہ مدینہ آیا اور دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا اور کہا کہ ہمیں دین سیکھانے کے لیے کچھ لوگ دے دیں جو ہمارے قبیلے کو دین سیکھائیں۔ لہٰذا آپ ؐ نے دس صحابی اس گروہ کے ہمراہ کردیے لیکن دشمن ایک مقام پر چھپا بیٹھا تھا‘ ان صحابہ کرامؓ کو گھیر لیا جس پر لڑائی ہوئی اور آٹھ صحابیؓ لڑتے ہو ئے شہید ہوگئے جب کہ دو صحابہ کرامؓ قیدی بنا کر کفار مکہ کے ہاتھوں فروخت کر دیے گئے اور کفار مکہ نے اپنے پیاروں کو قتل کرنے کے جرم میں حضرت خبیب ؓ کو پھانسی دے کر شہید کردیا۔
اس واقعہ کو اللہ تو دیکھ ہی رہا تھا لیکن حضرت خبیب ؓ نے اللہ سے درخواست کی کہ تو میرے حال سے اپنے حبیبؐ کو مطلع کر دے اور میرا سلام رسول اللہؐ تک پہنچا دے۔
یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ بعد میں کوئی اس واقعہ کی روداد سنانے والا نہ ہو تا‘ لیکن اللہ نے اپنے حبیب ؐ کو اس واقعے کی تفصیل بتا دی۔ اس واقعے کے حوالے سے حضرت سعید بن عامر ؓ جو حضرت عمر ؓ کے عامل تھے‘ کا طرز عمل ہمارے لیے نمونہ ہے۔ بعض اوقات سعید بن عامر ؓ کو بیٹھے بیٹھے دورہ پڑتا اور آپ بے ہوش ہو جاتے۔ ایک دن حضرت عمر ؓ نے پو چھا کہ آپ کو یہ کیا مرض ہے؟ سعید بن عامر ؓ نے جواب دیا کہ میں بالکل تن درست تھا اور ہوں مجھے کوئی مرض نہیں ہے وجہ صرف یہ ہے کہ جب حضرت خبیب ؓ کو پھانسی دی جارہی تھی تو میں اس مجمع میں موجود تھا جب وہ واقعات اور منظر یاد آتے ہیں تو مجھ سے سنبھلا نہیں جاتا اور میں جواب دہی کے خوف سے کانپ جاتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس بارے میں نہ پوچھا جائے اس لیے ڈر کر بے ہوش ہوجاتا ہوں۔
پھانسی دے کر شہید کیے جانے والے پہلے صحابی حضرت خبیب ؓ ہیں۔ حضرت خبیب ؓ کی سنت کو بعد کے آنے والے اسلام پسندوں نے بھی زندہ رکھا صرف اسلام کی تبلیغ اور وطن سے محبت کے جرم میں کئی نامور ہستیاں جیلوں میں پھانسی چڑھائی گئیں جن کی طویل فہرست ہے۔ سید قطب شہید ہوں یا مطیع الرحمن نظامی، عبدالقادر عودہ ہوں یا عبدالقادر ملا‘ سب کا جرم ایک تھا کہ وہ اپنے ملک اور دین کی بات کرتے تھے اور یہی جرم ایسا ہے جو کفار کی نظر میں تو جرم ہے ہی لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں کی نظر میں بھی جرم ہے کیونکہ اس دعوت سے ان کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہے اس لیے سب اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف متحد نظر آتے ہیں اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ
زمیں کے سب جھوٹے دیوتائوں نے مل کے گٹھ جوڑ کر لیا ہے
تمہاری جانب ہیں سب کی نظریں تمہیں مٹانے کا فیصلہ ہے
اسلام کے خلاف سازشیں ازل سے جاری ہیں اور ابد تک جاری رہیں گی۔ ان سازشوں میں اسلامی تحریکیں جن اسلامی ممالک میں پروان چڑھ رہی ہیں خاص کر دشمن اپنے ایجنڈوں کے ذریعے ان ممالک میں اسلام پسندوں کا راستہ ان ممالک کے حکمرانوں ہی کے ذریعے روک رہا ہے اور ان کے سربراہان کو مختلف الزامات لگا کر پابند سلاسل کیا جا رہا ہے تو کہیں جعلی ٹرائل کے ذریعے بے سروپا الزامات لگا کر پھانسی کی دی جا رہی ہے جس پر ایک دو ممالک کے سوا دنیا کی خاموشی یہ ظاہر کر تی ہے کہ سب نے اپنے رب پر بھروسہ چھوڑ کر طاغوت کے نظام پر بھروسہ کر لیا ہے۔
مصر میں ہو نے والی پھانسیوں پر بھی اسلامی دنیا خاموش تھی اور ہے اسی طرح بنگلا دیش میں متحدہ پاکستان کی آواز بلند کر نے والوں کو 46 سال گزرنے کے بعد بھی پھانسی کی سزائیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ اسلامی دنیا کے حکمران اسلام اور اسلام پسندوں کی بڑھتی ہو ئی مقبولیت اور اسلام کے نفاذ کی بات کر نے والی جماعتوں سے خائف ہیں۔ بنگلا دیش میں1971 کے واقعات کو جواز بنا کر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھا نسی کی سزائیں صرف اس لیے دی جارہی ہیں کہ ان لوگوں نے پاکستان سے محبت کی اور اسی جرم کی پاداش میں تمام عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے شیخ حسینہ واجد کی حکومت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم کا بدلہ جماعت اسلامی سے لے رہی ہے اور عوام کے اندر سقوط ڈھاکا کا مسئلہ اور پاکستان سے نفرت کا الائو بھڑکا کر عوامی حمایت حاصل کرکے پھانسیوں کے ذریعے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کے جرم میں دی جانے والی پھانسیوں پر حکومت پاکستان کی خاموشی اور ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی قادیانیوں کو خوش کرنے کے لیے ہے کیونکہ حکومت کا ان پھا نسیوں پر احتجاج نہ کرنا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ اب بھی قادیانیوں کے حمایت یافتہ لوگ حکومت کو چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی ایوانوں میں ان سزائوں پر مکمل خا موشی ہے اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی کہ پاکستان کو دولخت کرنے والے آرام سے ہیں کیونکہ جس مقصد کے تحت مشرقی پاکستان کو سازشی عنا صر نے الگ کیا تھا وہ کیوں ان سزائوں پر درد محسوس کریں گے۔
جماعت اسلامی ڈھاکا کے سابق امیر خرم مراد صاحب نے اپنی کتاب ’’لمحات‘‘ میں جہاں کئی انکشافات اور واقعات کو بیان کیا ہے وہاں ایک واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح مغربی پاکستان کی بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ بنگالیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی منصو بہ بندی کر رہی تھی۔ بیورو کریسی کے ایک اعلیٰ افسر پاکستان پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ایم ایم احمد ایک قادیانی خلیفہ کے بھتیجے اور خود بھی قادیانی تھے‘ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پا کستان کے لوگ بھیک منگے ہیں‘ ایک بوجھ اور خوامخواہ کی ذمے داری ہیں اس لیے ان سے پیچھا چھوٹ جائے تو اچھا ہی ہے۔ مگر کیا اچھا ہے اور کیا نہیں پا کستان کے خلاف کام کر نے والے کل بھی طاغوتی قوتوں کے آلۂ کار تھے تو آج بھی وہی طاقتیں مقامی شازشی عناصر کے ساتھ مل کر پاکستان کو مزید کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جنھوں نے بنگلا دیش بنا کر بھارت کی گود میں ڈال دیا تھا‘ تو اب یہی عناصر پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں۔ لیکن اب وہ لوگ‘ جو ملک کے دفاع کے لیے حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ لڑتے تھے‘ سب اسٹیبلشمنٹ کی بے وفائی کی وجہ سے خاموش ہیں کیونکہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔
پاکستان کی دھرتی کے لیے قربان ہونے والے جوانوں کے لیے کہا جا رہا ہے کہ ’’ماں راضی تو سب راضی‘‘ لیکن کیا اپنی فوج کے ساتھ پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑنے والوں نے پاکستان کی دھرتی ماں کے لیے جانیں نہیں لڑائی تھیں؟ کیا وہ وطن کی محبت سے سرشار نہیں تھے؟ یقیناً تھے اور آج بھی ہیں لیکن مسئلہ صرف اسلام اور اس کے نفاذ کا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو آزادی اور پاکستان پکی پکائی رو ٹی کی طرح مل گیا ہے اس لیے ان کی نظر میں پاکستان اور اس کی آزاد ی کی کوئی وقعت نہیں‘ جبھی ان حکمرانوں پر ملک کے دولخت ہونے پر غشی طاری نہیں ہوئی بلکہ یہ حکمران اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ پاکستان‘ جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا‘ آج اُسی پاکستان کے خلاف اور نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر بھی شب خون مار رہے ہیں۔
ایک حضرت سعید بن عامر ؓ تھے جو حضرت خبیب کے واقع اور منظر کو یاد کرکے بے ہوش ہو جاتے تھے کہ میں نے حضرت خبیبؓ کی مدد کیوں نہیں کی‘ طاقت ہونے کے باوجود خاموشی کیوں اختیار کی اور یہ سوچ کر کہ روز محشر اللہ کو کیا جواب دوں گا‘ بے ہوش ہوجاتے تھے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں پر ملک کے دولخت ہونے اور ہر طرح کی سازشیں بے نقاب ہونے کے بعد بھی کوئی فکر نظر نہیں آتی مگر شہیدوں کے جنازوں میں لا کھوں افراد کی شرکت اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ ’’ایک دن ذرا صبر کے جبر کے دن تھوڑے ہیں۔‘‘

حصہ