عزت

201

جہانگیر سید
میں جمالی صاحب کی بات کررہا ہوں۔ جانے مانے سینئر آرتھو سرجن اور بہت اچھے انسان ہیں۔ ایک روز جناح اسپتال کی راہداری میں مل گئے۔ حسب معمول بہت انکساری سے ملے۔ ڈاکٹر صاحب اتنے ڈاون ٹو ارتھ ہیں کہ سامنے والا شرم سے انڈر ٹو ارتھ ہوجائے۔
میں نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ڈاکٹر صاحب۔ اللہ نے آپ کو بہت عزت دی ہے۔ ہم عام سے لوگ ہیں آپ اتنی عاجزی سے نہ ملا کریں۔جمالی صاحب نے برجستہ کہا۔آپ ہی تو کہتے ہیں کہ میری عزت کرو۔
ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر میں سٹپٹا گیا۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کوئی کس طرح اپنی عزت کرنے کا کہہ سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولے۔ محترم کوئی کہے نہ کہے آپ تو یہی کہتے ہیں کہ میری عزت کرو۔
جواباً میں نے کہا۔ اللہ معاف کرے۔ ایسا کم از کم میں نہیں کہہ سکتا۔
جمالی صاحب اب زیادہ زور دے کر بولے۔ آپ بولتے تو یہی ہیں۔
میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کرجمالی صاحب کو شاید مجھ پر رحم آگیا تھا۔ محبت سے میرا ہاتھ تھام کر فرمانے لگے۔سید صاحب۔ زبان سے تو آپ نہیں کہتے۔ لیکن آپ کا رویہ تو یہی کہتا ہے کہ آپ کی عزت ہونی چاہیے۔ انسان کا رویہ ہی تو بولتا ہے کہ کس انسان کی عزت کی ہونی چاہیے۔
انسان کے پاس جو ہوتا ہے وہی دیتا ہے۔آپ کے پاس عزت ہے تب ہی تو دوسروں کو دیتے ہیں۔۔جب آپ ہمیں عزت دیتے ہیں تو بن کہے کہتے ہیں کہ آپ عزت والے ہیں ہم بھی آپ کو عزت دی جانی چاہیے۔کیونکہ عزت دار ہی عزت کرنا جانتا ہے۔ محترم جمالی صاحب مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور میں سوچتا رہ گیا۔

حصہ