کیا عشق محمدیﷺ کے دعو ئوں کو عمل کی گواہی درکار ہے؟

340

صائمہ عبدالواحد
چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود امت محمدی آج بھی عشق محمدی سے سرشار ہے۔ آپؐ کی حرمت پر جاں نثار کرنے کے لیے تیار ہے اور اس کی تازہ مثال ختم نبوت کے معاملے پر ملک گیر دھرنوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان دھرنوں کی قیادت کون کر رہا تھا‘ لیکن دنیا بھر میں یہ پیغام چلا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والے‘ نبیؐ کی حرمت پر آنچ بھی نہیں آنے دیں گے۔ قرآن کا بیان ہے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسولؐ کی اور یہی مقامِ محمدؐ ہے کہ اللہ نے اپنی اطاعت کو اپنے رسولؐ کی اطاعت سے مشروط کر دیا اور یہی ہمارے ایمان کا جز ہے اور ہر دور میں محمدؐ کے چاہنے والوں نے اپنے عمل سے اس بات کو منوایا کہ ان کی فتح کا راز مادی وسائل میں نہیں بلکہ عشق محمدؐ اور اطاعت محمدیؐ ہے اور دنیا جانتی ہے کہ اس ملت کے اندر جب تک عشق محمدؐ کا جذبہ رہے گا‘ دنیا کی کوئی طاقت انہیں زیر نہیں کرسکتی۔
وہ فاقہ کش موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
یعنی مومن اپنی معاشی تباہی سے نہیں ڈرتا لیکن اگر اس کا قلبی تعلق محمدؐ سے کمزور کر دیا جائے یا مشکوک کر دیا جائے تو پھر اس کی تباہی یقینی ہے۔ عشق محمدؐ جس طرح آج امت کے قلب میں موجزن ہے‘ ہمیشہ سے رہا ہے‘ محمدؐ کے چاہنے والوں نے ہر دور میں اس کی عملی مثالیں پیش کی ہیں۔
آپؐ کے اوّلین چاہنے والے صحابہ کرامؓ ہیں جنہوں نے ہجرت حبشہ‘ ہجرت مدینہ‘ شعب ابی طالب‘ بیعت عقبہ‘ معرکہ بدر و حنین‘ بیعت رضوان‘ غزوہ خیبر اور تبوک ہر موقع پر عملی نمونے پیش کیے۔ ادب اور عشق کے تقاضے پورے کیے۔ اطاعت رسولؐ میں اپنی چاہتیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔ کفن سر پر باندھے تیار رہتے تھے۔ بیعتِ رضوان کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی جب معاہدے کی شرائط طے کرنے آتے ہیں اور واپس جا کر قریش سے کہتے ہیں کہ بخدا میں نے قیصر و کسریٰ کے بڑے بڑے درباروں میں حاضری دی ہے مگر خدا کی قسم میں نے اصحاب محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے‘ ایسا منظر میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں نہیں دیکھا۔ ادب تقاضے جو صحابہ کرامؓ نے پورے کیے کہ دشمن بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک اور موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی صحابہ کرامؓ اپنے جسموں پر مل رہے تھے‘ آپؐ نے فرمایا ’’کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟‘‘
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’آپؐ کی محبت نے۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو چار کام کرلو ٭جب بولو تو سچ بولو‘ ٭امانت میں خیانت نہ کرو‘ ٭وعدہ کرو تو وعدہ خلافی نہ کرو اور ٭اگر ہو سکے تو اس حال میں صبح کرو کہ تمہارے دل میں کسی کے لیے کینہ نہ ہو۔‘‘ آپؐ نے ان کی محبت کو عمل سے جوڑ دیا۔ اگر واقعی محبت کرتے ہو تو یہ‘ یہ اور یہ کرلو۔
لیکن کیا آج ہم عشق محمدؐ کو اپنے عمل میں ڈھال رہے ہیں یا مغربی تہذیب میں ڈھل رہے ہیں۔ کیا عشق محمدؐ کا تقاضا یہ ہے کہ پورا سال معاش اور دنیا کی فکر میں مشغول رہا جائے اور موبائل ٹوئن پر نعتیہ دھنیں سیٹ کر دی جائیں یا سارے سال میں صرف ایک دن تمام وقتوں کی نمازیں ضائع کرکے بازار‘ گلی‘ محلے سجائے جائیں اور عشق محمدؐ کے تقاضوں کو پورا کیا جائے‘ ٹرکوں پر بڑے بڑے سائونڈ سسٹم لگا کر‘ کیک کاٹ کر‘ چوکوں اور چوراہوں پر کھانے پینے کی اشیا پھینک کر اور اس پر لوٹ مار مچا کر‘ اناج کی اتنی بے حرمتی… برما اور شام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اناج کے ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں اور ہمارے یہ اطوار ہیں کہ ہم بے دریغ ضائع کر رہے ہیں ایسا کرکے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی سنت کو پورا کرتے ہیں۔
تیرے حسنِ خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
ہر سال عید میلادالنبی پر انڈین گانوں کی دھنوں پر نئی نعتیں ترتیب دی جاتی ہیں کیا کسی لکھنے والے کے دل میں یا گانے والے کے دل میں یہ بات نہ آئی کہ ایسی محبوب اور پاکیزہ ہستی کی شانِ اقدس میں عقیدت کے پھول پیش کرنے کے لیے اب کیا فحش اور انڈین گانوں کی دھنیں رہ گئی ہیں اور ہر سال ان خرافات میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
سیرت محمدیؐ کے آئینے میں جب بارہ ربیع الاوّل کے 11 ہجری کے دن کو دیکھتے ہیں تو اس دن صحابہ کرامؓ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ ، امہات المومنین سب کے سب شدت غم سے نڈھال ہیں۔ حضرت فاطمہؓ کہتی ہیں کہ بابا جان کا اس دنیا سے چلے جانے کا غم ایسا ہے کہ اگر یہ غم سورج کو ملتا تو وہ اپنی روشنی کھو دیتا۔ اور ہمارے ہاں بھی یہ دن بارہ وفات کے نام سے ہی جانا تھا سیرت کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔ آپؐ کی سیرت کے پہلوان محافل میں اجاگر کیے جاتے تھے لیکن نہ جانے کب اس دن کو بارہ وفات سے بدل کر عیدمیلاد النبی بنا دیا گیا۔ عید کا دن‘ ولادت کی خوشی کا دن لیکن خوشیاں منانے کی یہ کون تہذیب ہے کہ جس ذات کی آمد پر خوشی کا دن منایا جارہا ہو اور اس دن اس کی حرمت کا پاس نہ رکھا جائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ عاشق رسول نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر نہ تو چوک سجائے نہ چوراہے لیکن آپ کی وفات کے دس‘ بارہ سال کے اندر ہی آدھی دنیا کو اسلام کے نور سے منور کردیا اور اپنے کردار اور عمل کی گواہیاں غیر مسلموں کی زبان سے ثبت کر وادیں اور تاریک اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جب مسلمان کا عمل اور ایمان اطاعت اور عشق رسولؐ سے مشروط رہا مسلمان ہی حاکم رہے لیکن جب اس کی جگہ حب جاہ اور حب دنیا نے لے لی ساری دنیا ان پر ٹوٹ پڑی جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
ایسے حالات میں پاکستان ایک آزاد‘ اسلامی‘ ایٹمی قوت کہ جس میں نبیؐ کے چاہنے والے بھی موجود ہیں اور اس کی حرمت پر مر مٹنے والے عاشق رسول بھی موجود ہیں اور حافظ قرآن بھی یعنی عشق رسول بھی موجو دہے اور دنیاوی اسباب بھی لیکن کیوں ہماری ہیبت دشمنوں پر طاری نہیں ہوتی؟ کیوں ہماری سیرت و کردار کی گواہی مشرکین نہیں دیتے؟ کیوں صہیونی طاقتیں ہم پر غالب ہیں؟ کیوں ایک ایک کرکے تمام مقدس علاقے ہمارے ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں؟ کیا ہمارا عشق محمد کم ہے؟ یا ہمارے عمل شریعت محمدی کے برخلاف ہیں؟ سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

حصہ