کھیل ضروری ہے مگر پڑھنے کے بعد

214

نسرین لئیق
پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب
کھیلو گے کودو گے تو ہو گے خراب
یہ شعر معلوم نہیں کتنا پرانا ہے‘ اس زمانے میں شاید پڑھنے لکھنے والے اپنی منزل پا کر نوابوں کی طرح زندگی گزارتے ہوں گے مگر آج کل تو ساری مصیبت پڑھنے لکھنے و الوں پر ہی نازل ہو رہی ہے وہ اپنی ڈگریاں لیے گھومتے پھرتے ہیں مگر کوئی انہیں گھاس نہیں ڈالتا کیوں کہ ساری گھاس نہ پڑھنے والے سفارشی لوگوں کو کھلا دی جاتی ہیں۔
آج کل تو پڑھنے والے نہیں بلکہ کھیلنے کودنے والے نوابوں کی طرح رہ رہے ہیں ہمارے کھلاڑی جو کبھی میٹرک کا امتحان دے کر آتے ہیں یا کوئی کبھی نہیں دیتے مگر کھیل کے ذریعے پیسے کما کر ہیرو بن جاتے ہیں۔ نوابوں کی طرح رہتے ہیں‘ پوری دنیا گھومتے ہیں۔ ایک طرف کھیلنے والوں کے یہ مزے ہیں تو دوسری طرف بہت زیادہ پڑھنے والوں کو دکھ اٹھانا پڑ رہے ہیں جیسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو محض اپنی قابلیت کے جرم میں امریکا میں برسوں سے قید ہیں اور اذیتیں جھیل رہی ہیں اور لوگوں نے انہیں بھلا دیا ہے۔مگر ان حالات سے مایوس ہو کر ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ ہمارے دین کی ابتدا ہی ’’اقراء‘‘ یعنی ’’پڑھ‘‘ سے ہوئی ہے اس لیے ہمیں دین و دنیا دونوں کا علم حاصل کرنا چاہیے اور پوری محنت‘ توجہ اور لگن سے حاصل کرنا چاہیے۔ وقتی ناکامی سے کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ ان شاء اللہ دین و دنیا دونوں جگہ ہم ہی کامیاب ہوں گے۔

حصہ