کاش کہ یہ سب ہمارے ملک میں بھی ممکن ہو

249

افروز عنایت
پردیس میں ’’اپنے وطن کی سوندھی خوشبو‘‘ اور ’’اپنے‘‘ ہر وقت یاد آتے ہیں لیکن ایک چیز پردیس میں جا کر جس کا احساس بے تحاشہ ہوتا ہے ’’کہ یہ سب کچھ ہمارے وطن میں ہو سکتا ہے جی ہاں میں اپنے قطر کے سفر میں ہر مرتبہ کسی ایسی چیز کو آپ سے بیان کرتی ہوں یقینا آپ سب بھی اس بات کی تائید کرتے ہوں گے کہ کاش کہ ہمارے ملک میں بھی یہ سہولت، یہ طریقہ کار میسر ہو۔ جبکہ رب العزت نے ہمارے وطن عزیز کو بہت سے وسائل سے نوازا ہے ارباب سکندر اپنے علاوہ سوچیں تو سب ممکن ہے ہر محکمے کو فنڈز سے نوازا جاتا ہے وہ فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں ہم میں سے ہر ایک واقف ہے۔
ماہ نومبر سے قطر کا موسم بڑا خوشگوار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ شام کو بلکہ دوپہر میں بھی رش نظر آتا ہے۔ حکومت کی طرف سے نہ صرف عوام الناس کو صاف ستھرا ماحول میسر کیا گیا ہے بلکہ مفت تفریح کے مواقع بھی میسر کیے جاتے ہیں۔ جس میں ہر عمر اور طبقہ کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ خصوصاً بچوں کی تفریح، ذہنی و جسمانی نشوونما کے مطابق جگہ جگہ پروگرامز مرتب کیے جاتے ہیں اور یہ تمام تفریح بلا معاوضہ اور بلا تفریق ہر ایک کی پہنچ میں ہوتی ہے۔
یہاں کیونکہ جمعہ اور ہفتہ کو عام تعطیل ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر اس قسم کی تفریحات، نمائش وغیرہ کا اہتمام ان ہی دو دنوں میں زیادہ نظر آتا ہے لہٰذا فرحت (بیٹا) بھی ان دو دنوں میں مکمل فارغ ہوتے ہیں اس لیے بارہا اس قسم کے پروگرامز دیکھنے کو ملے آج بھی ہفتہ کا دن تھا اس لیے ہم سب نے تمام دن تفریح کے لیے مخصوص کیا M.I.A (میوزم آف اسلامی پارک) پارک نہایت خوبصورت، وسیع و عریض اراضی پر پھیلا ہوا ایک خوبصورت پارک ہے جہاں بیٹھ کر دوپہر کا کھانا تناول فرمایا دوپہر سورج کی گرمائش ٹھنڈی ٹھنڈی خوشگوار ہوا بعض اوقات ہلکے ہلکے بادل جو آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے جس کی وجہ سے سماں مزید خوبصورت ہوجاتا سامنے کارنش پر کشتی کی سیر کرتے سیاح اور دوسری جانب قطر میوزیم کی جدید اور خوبصورت عمارت باغ میں کھیلتے ننھے منے کلکاریاں مارتے بچے پھولوں و پودوں کے درمیان بھاگتے دوڑتے قدرت کے حسیں مناظر دیکھ کر یہاں سے جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن آج کے پروگرام کی فہرست کے مطابق ہمیں مقامی وقت 2:30 بجے تک نکلنا تھا خارجی راستے سے پارکنگ ایریا تک پہنچنے تک راستہ میں بے تحاشہ اسٹال نظر آئے رنگ برنگی اسٹال اور لذیز کھانوں کی مہک نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی فرحت (بیٹے نے بتایا کہ ہر ماہ کے پہلے ہفتے کو یہاں بازار لگتا ہے جس میں تمام ممالک کے باشندے اپنے اپنے ملک کے کھانے پینے اور اشیاء کے اسٹال لگاتے ہیں ان اسٹالز پر کافی رش نظر آیا یہاں بھی چھٹی کی وجہ سے بچوں کا رش نظر آیا کیونکہ یہاں بچوں کو کسی چور لٹیرے کا خوف لہٰذا دور دور تک بچے بھاگتے دوڑتے اور کھیلتے نظر آرہے تھے پچھلی مرتبہ میرے ساتھ بیٹی اور دنوں نواسیاں ساتھ تھیں یہاں آکر انہیں بھرپور تفریح میسر آئی تھی جس سے پاکستانی بچے عموماً محروم ہیں کھلی آزاد فضائوں میں بغیر روک ٹوک کے یہ بچے دور دورتک تتلیوں کی مانند اور پرندوں کی ماند دوڑتے بھاگتے ہیں یہ صحت مندانہ تفریح ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے نہایت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اگلی منزل ہماری ’’کتارا آرٹ ولیج‘‘ ہے۔ دوپہر کے تین بج چکے تھے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لیے کتارا کی خوبصورت صاف ستھری مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد قہوہ اور چائے کی ضرورت محسوس ہوئی میں چائے بہت کم پیتی ہوں لیکن خوشگوار ٹھنڈا موسم اور چاروں طرف سے اسٹالز پر سے قہوہ کی اشتہاہ انگیز خوشبو کی وجہ سے مجھے بھی طلب محسوس ہوئی عوام الناس کے لیے یہاں ہر قسم کی سہولت میسر ہے کھانے پینے کے اسٹالز چاروں طرف موجود ہیں بینچز پر چائے (قہوہ) پینے بیٹھے تو میدان میں بڑوں کے ساتھ بچوں کا جگہ جگہ اژدحام نظر آیا کیونکہ آج یہاں بچوں کے لیے مختلف پروگرامز مرتب کیے گئے تھے جہاں بچوں کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کے مواقع بھی رکھے گئے تھے جس میں پینٹگز بنانے، مختلف کھیلوں کے، رنگ بھرنے کے، روزش کے وغیرہ کے لیے (خیمے) علاقے مختص کیے گئے تھے پھر ان پروگرامز میں حصے لینے والے بچوں کے لیے انعامات کا سلسلہ بھی تھا بچے ان ایونٹس میں بڑے جوش و جزبے سے حصہ لیے رہے تھے اور انعامات لے کر ان کے چہروں پر آئی شادابی دیکھنے کے قابل تھی ان کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ کس قدر لطف اندوز ہو رہے ہیں وہاں موجود کوئی بچہ ان انعامات سے محروم نظر نہیں آیا تمام بچوں کے ہاتھوں میں گفٹ تھے یہاں عموماً اسٹالز پر بچوں کے لیے گفٹ دینے کا رواج دیکھا گیا ہے چاہے امیر ہو یا غریب انہیں انعامات اور تمغے حاصل کرکے بے پناہ خوشی کا احساس ہوتا ہے اس میں عمر کی بھی کوئی تفریق نہیں۔ قہوہ بڑا زبردست تھا جس نے جسموں میں توانائی پیدا کردی لہٰذا ہم نے ان تمام اسٹالز کو باری باری دیکھا خوبصورت صحت مندانہ اس تفریح نے واقعی میں دل خوش کر دیا ایک اسٹال پر ایک درمیانی عمر کی خاتون کے سامنے چھ سات چھوٹے بچے بیٹھے بڑی دلچسپی اور انہماک سے اس کی بات سن رہے تھے نزدیک جا کر دیکھا تو وہ بچوں کو ایک دلچسپ کہانی کتاب میں سے دیکھ کر بڑے خوبصورت انداز میں سنا رہی تھی اگلے اسٹال پر چند جوان لڑکے اور لڑکیاں جھوٹے اور بڑے بچوں کے چہروں پر فیس پینٹنگ کر رہے تھے ایک اسٹال پر دو لڑکیاں خوبصورت غباروں میں ہوا بھر کر بچوں کے حوالے کرتی جا رہیں تھیں غرض کہ تمام اسٹالز پر آج بچوں کے لیے مفت رنگا رنگ، تفریح کے اور ذہنی و جسمانی صحت کے لیے سرگرمیاں منعقد کی گئیں تھیں جس سے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اذان مغرب کی آواز پر تھوڑی دیر خاموشی ہو گئی پھر اکثریت (مسلمانوں کی) مسجد کی طرف چل پڑی فرحت اور ان کے والد نے مردانہ مسجد کے حصے میں جبکہ میں نے اور نمل (بہو) نے خواتین کی مسجد میں نماز مغرب ادا کی مغرب کی نماز پر خواتین کی تعداد زیادہ نظر آئی۔ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو فرحت نے کہا کہ اگر آپ لوگ تھکے ہوئے نہیں ہو تو ’’کتابوں کی نمائش‘‘ دیکھنے چلیں کیونکہ اس نمائش کے باقی دو دن رہتے ہیں اور آفس سے آتے آتے دیر ہو جاتی ہے۔ اس نمائش کے اوقات شام چھ بجے تک تھے لہٰذا ہم سب نے مناسب سمجھا کہ آج ہی دیکھ لیتے ہیں دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر یہ نمائش تھی۔ نمائش حال میں داخل ہوئے تو سامنے لاتعداد خوبصورت رنگا رنگ کتابوں، کھلونوں اور کھانے پینے کے اسٹالز تھے یہاں بھی بچوں کے لیے تفریح کے بے پناہ مواقع فراہم کیے گئے تھے اور انعامات کا سلسلہ بھی رکھا گیا تھا ہر موضوع پر دلچسپ رنگا رنگ کتابوں کے اسٹالز تھے بہت سے ملکوں کے کتب کے یہ اسٹالز لوگوں کی توجہ کے مرکز تھے جس میں قطر، لبنان، اردن، کویت، ہند وغیرہ کے ممالک شامل تھے یہ تمام کتب عربی اور انگریزی زبان میں تھیں ایک آدھ اسٹالز کچھ اردو کتابوں پر نظر پڑی جو نہ ہونے کے برابر تھی اور افسوس اس بات پر ہوا کہ پاکستانی اسٹال کوئی نظر نہ آیا۔ بچے رنگ برنگی تصاویر والی کہانی کی کتابوں کو خریدنے میں دلچسپی لے رہے تھے اسلامی اسٹالز پر خوبصورت قرآنی نسخے دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ واپسی میں ہم چاروں تمام وقت اس بات پر تبصرہ کرتے رہے کہ آج کا تمام دن یوں لگ رہا تھا حکومت نے ’’بچوں کے نام‘‘ کر دیا ہو۔ اس کی دلچسپی، خوشی، ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے یہ صحت مندانہ سرگرمیاں قابل تجسس ہیں افسوس اس بات پر ہو رہا تھا کہ ہمارے ملک میں بچوں اور بڑوں کے لیے جو زمین باغات وغیرہ کے لیے مختص کی جاتی ہے وہ بھی لینڈ مافیا کے حرص کی نذر ہو جاتی ہے اسکولوں و کالجوں میں بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما کے لیے سرگرمیوں کے لیے جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں وہ حق داروں تک پہنچنے سے پہلے ہی ارباب سکندر کی جیبوں تک منتقل ہو جاتے ہیں پچھلے ہفتے میڈیا پر ایک خبر دیکھ کر اور سن کر خوشی اور حیرانی بھی ہوئی کہ حافظ آباد کے سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے اسکول کو ملنے والے فنڈز سے گائوں کے اس اسکول کو چار چاند لگا دیے کیا دوسرے اس مثال سے متاثر نہیں ہو سکتے پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے کھیل کود، تفریح بڑی اہمیت کی حامل ہیں اس طرف صرف زبانی جمع پونجی نہیں بلکہ خلوصِ دل کے ساتھ حکمت عملی اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو خوشگوار ماحول، یادیں مہیا کرسکیں۔

حصہ