(میں انزلیکاہوں (دوسری قسط

216

فارحہ کمال
اس دن میں کلاس کے بعد واپس اپنے اپارٹمنٹ کی طرف آرہی تھی کہ راستے میں بنے کیفے ٹیریا سے گزرتے ہوئے ایک اسٹوڈنٹ سے ٹکر ہوگئی۔ غلطی شاید میری تھی مگر کینیڈا میں رہنے والے جانتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مینرز کو بڑی خوش دلی سے نبھاتے ہیں اور اس کے اثرات آنے والے امیگرنٹس پر بھی کچھ نہ کچھ پڑتے ہی ہیں۔
’’معاف کیجیے گا میں آپ کو دیکھ نہیں سکا تھا۔‘‘ اس لڑکے نے میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی سوری کرلی۔
’’آپ فارغ ہیں تو آئیں کافی ساتھ پیتے ہیں۔‘‘ میں مسکرا کر آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ اس نے مجھے پیشکش کردی۔ میری دونوں دوست، جو رشیا سے میرے ساتھ آئی تھیں، اب مضامین الگ ہونے کی وجہ سے اُن سے کم ہی سامنا ہوتا تھا، وہ دونوں کلاسز دور پڑنے کی وجہ سے رہائش بھی تبدیل کرنے کا سوچ رہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد مجھے اپنے اپارٹمنٹ کے لیے نئے کرائے دار کی ضرورت پڑنے والی تھی، کیوں کہ میں اکیلے اس کا کرایہ ادا نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے سوچا شاید اسی طرح PR کچھ بڑھ جائے، اور اس لڑکے کی پیشکش قبول کرلی۔
کافی پینے کے دوران بات چیت سے پتا چلا کہ اس کا نام سلیمان ہے اور وہ مشہور عرب ریاست کے کسی شہزادے کا پوتا ہے۔ میری اسلام کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہ تھیں، بس ٹی وی چینلز پر چلتے پھرتے جو کچھ کان میں پڑا تھا وہی جانتی تھی۔ تاہم مجھے وہ لڑکا اچھا لگا اور چند ہی دنوں میں ہماری دوستی اتنی بڑھ گئی کہ میری سہیلیوں کے اپارٹمنٹ خالی کرنے پر وہ میرے ساتھ شفٹ ہوگیا۔ اب ایک کمرے میں مَیں، ایک میں سلیمان، اور تیسرا کمرہ فی الوقت خالی تھا، تاہم سلیمان مجھے اس ایک کمرے کے لیے ہی اتنی رقم دیتا تھا جو دونوں مل کر بھی ادا نہ کرتی تھیں۔ اس طرح مجھے تیسرا کمرہ کرائے پر اٹھانے کی ضرورت نہ پڑی۔ یہ ہماری پرائیویسی کے لیے بھی اچھا رہا۔ آہستہ آہستہ ہماری دوستی اتنی بڑھی کہ وہ میرے کمرے ہی میں سونے لگا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے گروپ کے سارے ہی مسلمان دوست گوری لڑکیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اگرچہ میرا خاندان نسبتاً قدامت پسند ہے مگر یہاں رہ کر میں بھی خاصی آزاد خیال ہوچکی تھی اور یہاں کے ماحول میں رچ بس جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔ سلیمان شاید ابتدائی ملاقاتوں میں پہچان نہ پایا تھا کہ میں رشین ہوں کیوں کہ جب اسے پتا چلا تو وہ بہت حیران بلکہ شاکڈ نظر آیا۔ اس نے مجھے منع کیا کہ میں اس کے دوستوں کو یہ بات نہ بتائوں۔ مجھے برا تو لگا مگر اس کے ساتھ جھگڑنا یا تعلق توڑنا میرے لیے آسان نہ تھا۔ دن بڑی تیزی سے گزرتے جارہے تھے۔ یونیورسٹی میں میرا دوسرا سال ختم ہونے کو تھا۔ وہ موسم سرما کی ایک انتہائی سرد رات تھی جب سلیمان کو رات کے بارہ بجے اچانک Tim Horton جاکر کافی پینے کا خیال آیا۔ میرا بالکل موڈ نہ تھا کیونکہ سمسٹر اینڈ پر تھا اور امتحانات سر پر تھے۔ تمام تفریحات کے باوجود میری اوّلین ترجیح تعلیم تھی جس کی وجہ سے میں اپنے والدین اور اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آئی تھی۔
سلیمان اصرار کرنے لگا۔ پہلے محبت سے اور پھر میرے مسلسل انکار پر اس کے لہجے میں غصہ در آیا۔ میں اس اندازِ گفتگو کی بالکل بھی عادی نہ تھی۔ ’’سلیمان مجھے معلوم ہے کہ یہ تمہاری مذہبی تربیت کا نتیجہ ہے کہ تم لوگ عورتوں سے بدتمیزی کرتے ہو اور ان کی بے عزتی کرکے خوش ہوتے ہو۔ مجھے تم سے تعلق ہی نہیں رکھنا چاہیے تھا۔‘‘
یہ بات سنتے ہی سلیمان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ نظریں چرا کر بولا ’’انزلیکا! مذہب کو بیچ میں نہ لائو، میں مذہب کو فالو ہی کہاں کرتا ہوں؟‘‘ لیکن یہ دوسری دفعہ تھا کہ اس نے مجھ سے اس برے طریقے سے بات کی تھی۔ میں نے ضروری سمجھا کہ اسے تنبیہ کردوں کہ وہ مجھ سے اس طرح بات نہ کرے۔ اسی دوران مجھے نہ جانے کی سوجھی کہ میں بول اٹھی:
’’لیکن میں جانتی ہوں تم تمام مسلمان ایسے ہی ہوتے ہو، تنگ نظر، عورتوں پر اپنی مرضی تھوپنے والے اور ان کو خود سے کم تر سمجھنے والے۔‘‘ سلیمان کو نظریں چراتا دیکھ کر میں اور چڑھ کر بولی۔ مجھے لگا گویا میں نے اس کا ویک پوائنٹ پکڑ لیا ہے۔
’’انزلیکا! تمہیں کافی پینے نہیں جانا تو نہ جائو مگر بات کو غلط رخ پر لے کر نہ جائو۔‘‘ یہ کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
میں اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی مگر میرا ذہن الجھ چکا تھا ’’یہ کیوں نہیں مانتا کہ یہ اس کی مذہبی تربیت کا اثر ہے؟ مجھے فرصت ملنے پر خود اس کی کتابوں سے دلیل نکال کر اس کے سامنے پیش کرنی پڑے گی تاکہ میں اس پر اپنی بات ثابت کرسکوں۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے میں نے دوبارہ اپنے نوٹس کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے فوکس کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد بھی سلیمان سے میری لڑائی ہوئی مگر جلد ہی ہمارے بیچ صلح ہوجاتی، کیوں کہ وہ ہمیشہ معافی مانگنے میں پہل کردیتا تھا۔
پچھلے سال کی طرح اِس سال بھی میرا رزلٹ بہت اچھا رہا تھا۔ ماما، پاپا بھی میرے رزلٹ سے بہت خوش تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ میں سمر میں رشیا اُن سے ملنے آئوں۔ میں بھی اپنے وطن جانے کے لیے بے چین ہورہی تھی۔ ماما، پاپا کا لمس، دریائے نیوا کے کنارے سینٹ پیٹرز برگ کی نرم اور ٹھنڈی ہوائیں، ذائقے دار کھانے، کالج کی سہیلیاں… کیا کیا نہیں یاد آتا تھا! ماما نے میری بکنگ بھی کرا دی تھی اور میں سمسٹر کے فوراً بعد رشیا جانے کی تیاری کررہی تھی۔ ماما پاپا کے لیے میں نے خوب سارے تحفے لیے اور آخری پیپر کے اگلے دن سلیمان نے مجھے ایئر پورٹ ڈراپ کیا تو میں رشیا کے لیے فلائی کرگئی۔ اتنے دنوں کے بعد وطن کی مٹی، اس کی فضا اور اپنوں کی قربت نے دل کو خوشی اور اطمینان سے بھر دیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ یہ دن کبھی ختم نہ ہوں اور میں ہمیشہ ایسی بے فکری کی زندگی گزارتی رہوں۔
اس دن میں ایک بک اسٹور میں کچھ کتابیں دیکھ رہی تھی کہ میری نظر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے روشن ترجمے پر پڑی۔ بڑا دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ صفحات تھے۔ میں نے وہ خرید لیا تاکہ سلیمان سے ثبوت کے ساتھ بات کرسکوں، تاہم مجھے اس کو چھپاکر رکھنا پڑا کہ کہیں پاپا کی نظر پڑ گئی تو سخت ناراض ہوں گے۔
ڈیلٹا ایئرلائن کی فلائٹ اٹینڈنٹ اپنی مدھر آواز میں سیاٹل ایئرپورٹ پر اترنے کی خبر دے رہی تھی جب میری آنکھ کھلی۔ تقریباً پورا راستہ میں سوتی رہی تھی۔ جہاز میں ہلچل سے لوط بھی کسمسانا شروع ہوگیا تھا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب میں نے ماضی کی یادوں میں ڈوبتے ابھرتے نیند کے وادی میں قدم رکھ دیا تھا۔ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے بعد ایمسٹرڈم کے لیے اگلی فلائٹ تھی۔ میں نے جہاز کے دروازے سے لوط کا اسٹرالر لیا اور سیدھی واش رومز کی طرف چل دی۔ لوط کا بھی ڈائپر تبدیل کیا۔ وہ نیند لے کر کافی خوش نظر آرہا تھا۔ کافی شاپ سے ڈونٹ اور کافی لے کر میں ٹرمینل پر دروازے کے قریب ہی بیٹھ گئی اور لوط کے لیے دودھ بنانے اور پلانے میں مصروف ہوگئی۔ زندگی اتنی تیزی سے پلٹے کھا رہی تھی کہ میں انزلیکا مکارتھی جو صرف اپنی مرضی اور من مانی کرنے کی عادی تھی اب مشکل ہی سے کبھی ایسی فرصت پاتی تھی جس میں صرف اپنی خواہش اور مرضی پوری کرنے کی متحمل ہوسکتی۔ مجھے ایسا لگتا کہ میری زندگی ایک پہیے پر سوار ہے جو کبھی اوپر ہوتا تو ساری دنیا اپنی لگتی اور اگلے ہی لمحے چکر کھا کر نیچے پہنچتا تو میں زمین چاٹنے پر مجبور ہوجاتی۔ انتظار کا وقت تیزی سے گزر گیا۔ لوط بھی کھیل کر خوب تھک گیا تھا، مجھے امید تھی کہ فلائٹ کے اڑنے تک وہ دوبارہ سونے کے لیے تیار ہوجائے گا۔ یوسف کا کہنا واقعی صحیح تھا، اس نے مجھے میری توقع سے کافی کم تنگ کیا اور اب میں نے سفر کا مزا اٹھانا شروع کردیا تھا۔ مجھے دوبارہ رشیا میں اپنا آخری قیام یاد آرہا تھا جب صرف میں تھی اور ماما پاپا۔ چھٹیوں کا وہ ایک مہینہ خواب کی طرح گزر گیا تھا اور میری واپسی کی تاریخ سر پر آگئی تھی۔ ماما پاپا سے بچھڑنا اِس دفعہ زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوا۔ مگر دل پر پتھر رکھ کر واپس کینیڈا آگئی۔ میری پڑھائی ابھی کافی باقی تھی۔
واپس آئی تو میں یہ جان کر حیران رہ گئی کہ سلیمان میرا اپارٹمنٹ چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اس کی پڑھائی مکمل ہوگئی تھی اور اسے کوئی جاب مل گئی تھی۔ میرے لیے یہ خاصا بڑا صدمہ تھا۔ کبھی کبھار کے جھگڑے کے سوا وہ ایک صاف گو اور خیال رکھنے والا دوست تھا جو ہمیشہ میری مدد کے لیے تیار رہتا تھا۔ مجھے تکلیف تو ہوئی کہ وہ اس طرح اچانک مجھے چھوڑ کر چلا گیا، مگر وہ شاید ہمارے مابین بڑھتی ہوئی ٹینشن سے پریشان ہوگیا تھا۔ میں اُن دنوں اسی افسردگی کے فیز سے گزر رہی تھی جب ایک دن میں نے قرآن کا ترجمہ نکالا۔ اس کو خریدنا مجھے اتنا مشکل نہ لگا تھا جتنا کھول کر پڑھنے کی ہمت کرنا۔ میں نے دل میں دعا کی ’’اگر کوئی واقعی آسمانوں میں ہے تو میری صحیح راستے کی طرف رہنمائی کر۔‘‘ نکال کر پڑھنا شروع کیا تو رک ہی نہ سکی۔ اگرچہ ترجمہ کا معیار کچھ خاص نہ تھا مگر مجھے جہاں مشکل پیش آتی، میں لیپ ٹاپ پر انگریزی ترجمہ نکال کر دیکھ لیتی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے رشین چھوڑ کر انگریزی ترجمہ ہی پڑھنا شروع کردیا۔ میں نے خواتین کے متعلق منفی آیات تلاش کرنے کے لیے ہی یہ کتاب خریدی تھی مگر ابتدائی چند آیات پڑھنے کے بعد میں اپنا یہ مقصد بھول ہی گئی۔ میرے دل کی عجیب سی حالت ہورہی تھی۔ بالآخر میں نے گھبرا کر قرآن بند کردیا۔ سمسٹر بریک ختم ہونے کو تھا اور اسی دوران ماہِ رمضان کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ گزشتہ سال جب سلیمان میرے ساتھ تھا تو کبھی کبھی جمعہ کا روزہ رکھتا تھا، اس کو دیکھ کر میں نے بھی کچھ روزے رکھے تھے۔ دن بھر کھانا کھانے کی فکر سے چھٹی رہتی اور پڑھائی کے لیے خوب وقت مل جاتا تھا۔ اِس رمضان میں اکیلی تھی۔ اپنی فرصت کا وقت قرآن پڑھنے، سمجھنے اور آسمانی رب سے دعائیں کرنے میں لگا رہی تھی۔ پہلے چیپٹر ’’الفاتحہ‘‘ کو پڑھ کر میرے دل کی گہرائیوں سے ’’آمین‘‘ کی صدا نکلی۔ یہی دعا تو مجھے چاہیے تھی۔ ہر دفعہ قرآن کھولتی تو اسی چیپٹر کو پڑھتی اور اسی پر ٹھیر جاتی۔
(جاری ہے)

حصہ