موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔۔۔

311

آمنہ نذیر بنت قاضی
معلمہ جامعات المحصنات کراچی
انسان مدنی الطبع ہے وہ زندگی گزارنے اور معمولات زندگی کو جلا بخشنے کے لئے رشتوں کا محتاج ہے ۔انسان تنہا زندگی نہیں گزارسکتا۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ:
’’لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑابنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے اسی خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتے اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ‘‘(سورہ النساء آیت۲۔۱)
انسان کی تخلیق کے بعد اس کے نظام کی بنیاد اللہ کے بتائے ہوئے نظام پر رکھی گئی ہے ۔انسانوں کو ایک دوسرے سے صلہ رحمی سے جوڑا گیا ۔اور انسانی معاشرے کی بنیاد خاندانی حکمت عملی پر رکھی گئی ہے اسی پر انسانی معاشرے کی تنظیم بھی ہے۔اسلام میں مسلمانوں پر قرابت داروں کے درجہ بدرجہ حقوق ہیں۔قرابت۔۔۔ اقربا سے نکلا ہے ۔اقربا کے معنی قریب ترین کے ہیں۔ہمارے اقربا میں خاندان شامل ہیں اور خاندان میں ننھیال ،ددھیال،میکہ،سسرال وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔اس تقسیم کے ساتھ پورے خاندانی نظام کا’’ نظم ‘‘ ہمارے مثبت رویوں پر منحصر ہے۔مگر اس خاندان کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے ؟؟ خاندان کی جدا جدا حیثیت کو ہم نے ایک کرنے کے بجائے ان میں اپنے رویوں سے صدیوں کی دوریاں پیدا کردی ہیں قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وھوالذی خلق من المآء بشر افجعلہ نسباً و صھراً ۔وکان ربک قدیراً۔
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ الگ سلسلے چلائے‘‘(سورہ فرقان ٓیت ۵۴)
نسب منسوب سے نکلا ہے منسوب سے مراد کسی خاص چیز ،ملک یا رشتے سے منسلک ہونا۔دوسرا لفظ صھراًہے اس کے معنی پھیلانے اور قریب و نزدیک کرنے کے ہیں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ایک طرف منسوب کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف نزدیک اور قریب کیا جا رہا ہے ۔حماۃ ’’ ساس ‘‘ کو کہتے ہیں اور حمو ’’سسر‘‘ کوکہا جاتا ہے۔نصب اور صھراًساتھ ساتھ چلتے ہیں ایک طرف والد اور اور ان کی نسبت سے دادا،دادی،پھوپھی،چچا،تایا۔دوسری طرف والدہ تو ان کی مناسبت سے نانی نانا، ماموں ،خالہ پھر ان کی اولادیں یہ ایک مکمل خاندان بن جاتا ہے۔صھراً سے نسب کا سلسلہ چلتا ہے ساس اورسسر بھی اقارب میں شامل ہیں ۔صھراً اور نسب میں برابری کا حکم ہے مگر بد قسمتی سے آج کے معاشرے میں میکہ اور سسرال دو فریق دو مد مقابل گروہ کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔اس تفریق کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔میکہ ہمارا بہت اچھا ہوتا ہے اورسسرال میں تمام خرابیاں نظر آتی ہیں ۔اگر ہم ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیں تو بڑے فتنوں سے بچا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک لڑکی بیاہ کر سسرال گئی۔سسرال میں لڑکی کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔اور گھر بنانے کے لئے کچھ قربانیاں دینی ہوں گی دوسری طرف ساس اور نندوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرکے پیار اور محبت کے ساتھ لڑکی کو گھر میں جگہ بنانے کا موقع دینا ہوگا۔
یہاں پر لڑکی کا کام اس لئے زیا دہ ہے کیونکہ اس کے آنے سے کئی خدشات بھی جنم لیں گے ماں سے بیٹا نہ چھن جائے ،بہنوں سے پیار کر نے والا بھائی جدا نہ ہو جائے۔ان رشتوں کو جوڑنے میں اور خدشات کو رفع کرنے میں پل کا کام اس لڑکی کو ہی ادا کرنا ہے ۔ہم صرف چھوٹی چھوٹی باتوں پر بدگمان ہو جاتے ہیں اس میں کئی خرابیاں ہیں مثلاً’’بدگمانی‘‘ ایسا کیڑا ہے جو دیمک کی طرح اندر ہی اندر تمام رشتوں کو کھا جاتا ہے۔
ولاتقف ما لیس لک بہ علم
’’جس چیز کے بارے میں تمہیں پاک یقین نہیں اس کی پیروی مت کرو‘‘ (بنی اسرائیل) ظن سوء۔۔ ایک وضہ اور بے بنیاد بات کو لے کر پوری کہانی بنا لینا۔حدیث کی روح سے ۷۰ پرتبہ اچھاگمان کرنے کا حکم ہے مگر ۔۔۔ہمارا عمل کیسا ہوتا ہے؟ بغیر تحقیق و تصدیق کے اپنے گمان کے محل تعمیر کر لیتے ہیں شیطان دراصل خاندان میں نفرت پیدا کرنے کے لئے اسی راستے کو اختیار کرتا ہے لہذا بدگمانی سے بچنا ہے ۔اس کے ساتھ مزید بیماریاں جو ہمارے خاندان کو کاٹنے کا باعث بنتی ہیں ان میں حسد،کینہ، بغض ،حرص،غیبت شامل ہیں یہ وہ تمام اخلاقی بیماریاں ہیں جن کو قرآن بڑی شدت سے روکتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ:
’’تو جو درگزر سے کام لے اور اصلاح کرے اس کا اجراللہ کے ذمہ ہے ‘‘
ہمیں حسن ظن اور حسن سلوک سے کام لے کر درگزر کرنا ہوگا۔
گھر کو جوڑنے کا ایک اور اسمَِ اعظم ’’خدمت‘‘ ہے۔ حضرت فاطمہ کی ساس بنت اسد کا بیان ہے کہ ’’جس قدر میری خدمت حضرت فاطمہ ؓ نے کی ہے شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی ہو ‘‘ ۔ساس کی بہو کے حق میں گواہی ایک بہت اہم چیز ہے ۔آج رشتوں کو خود ہم نے دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ایک طرف نند دوسری طرف بہن ،ماں اور بہن آنکھ کا تارا ۔۔۔ ساس اور نند بوجھ ۔۔۔کیا یہ ہمارا دہرا معیار نہیں کہ ہم بھابی ایسی چاہتی ہیں جو ماں کی خدمت کرے مگر جب خود بھابی بنتے ہیں تو معیار تبدیل ہوجاتا ہے ،یہ تضاد کیوں؟ان بدگمانیوں میں مبتلا ہوکر اصل مقصد یعنی اولاد کی تربیت اور اس کے مستقبل سے لاپرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اپنی ہی اولاد کو حقیقی رشتوں سے دور کرتے چلے جاتے ہیں یہ ایسی گھمبیر صورتحال ہے کہ آپ کی اولاد اپنے سگے رشتوں کے نام سے بھی نفرت کرنے لگتی ہے ۔داد ا،دادی، پھوپھی،چچا،تایا نفرت کی علامت بن جاتے ہیں ۔ادب و احترام کے رشتے بھی ختم ہونے لگتے ہیں ۔
لیکن اگر ان رشتوں میں دوریاں پیدا کردیں گے تو یقینا آپ کی اولاد ایک مکمل اور کامیاب شخصیت نہیں بن سکے گی اور اس عمل کا لازمی نتیجہ پچھتاوہ ہے۔
یقیناً رشتوں کو جوڑ کر رکھنا بہت صبر طلب کا م ہے لیکن جب آپ جب اس عظیم کام کے لئے کمر کس لیں تو اللہ تعالی آپ کے ہاتھ،آپ کے قدم بن جاتا ہے۔ باہم مل جل کر رہنے سے اللہ کی برکت سے فیضیاب ہوجائیںگی کیونکہ تنہا زندگی بسر کرنا انسان کے اختیار سے باہر ہے وہ مجبور ہے کہ ایک خاندان کے ساتھ منسلک ہوکر رہے آپ کی زندگی آسان اور سہل ہوجائے گی۔کیونکہ آپ تنہا رہ کر سکون کی زندگی نہیں جی سکتے، کیونکہ۔۔۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

حصہ