عبادت نجی معاملہ ہے

996

تنویر اللہ خان

انسان اپنی عام زندگی میں کسی کام یا منصوبے کی ترتیب اس کے لیے ضروری تربیت اس کی تنظیم اور اہمیت وافادیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اس پرعمل بھی کرتا ہے مثلاً کوئی بھی طالب علم میڑک پاس کیے بغیر انٹر میں داخلے کے لیے کالج نہیں جاتا یا کوئی بھی انٹر میں مطلوبہ نمبر لیے بغیرمیڈیکل یا انجینرنگ کالج یا یونیورسٹی جانے کی کوشش نہیں کرتا، اسی طرح کسی کا دعویٰ نہیں ہوتا کہ اُسے مقابلے کا امتحان پاس کیے بغیر ڈاریکٹ افسر لگا دیا جائے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فوج میں کمیشن لینے کا خواہش مند آئی ایس بی بی جائے بغیر کاکول اکیڈمی میں تربیت کے لیے پہنچ جائے یا کاکول کی تربیت کے فوری بعد سیکنڈ لفٹینٹ جوائن کرنے کے بجائے فوراسٹار جنرل بننے کا مطالبہ کردے، اسی طرح کوئی یہ نہیں کہتا کہ سبزی ترکاری کھا پہلے لیں اور اسے پکائیں بعد میں غرض زندگی کے ہر معاملے، ہر شعبے اور ہر کام میں ہم ترتیب، تنظیم اور تربیت وغیرہ کا خیال رکھتے ہیں اور اس کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر، انجینیر، وکیل، استاد وغیرہ کی تعلیم عام طور پرسولہ سال میں مکمل ہوجاتی ہے اور اسی سولہ برس کی تعلیم کے بَل پر وہ زندگی بھر اپنے اپنے شعبے میں کام کرتے ہیں کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ میں بہت ذہین ہوں لہٰذا مجھے اتنے سارے سال لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے میں ڈاریکٹ کام شروع کروں گا۔
لیکن دین کے معاملے میں ہم ترجیحات، موخر و مقدم کا تعین اپنی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں، میرے ایک دوست پی ٹی سی ایل میں پڑھے لکھے بڑے افسر ہیں ان کی ساری زندگی اسلامی پسندی میں گُزری ہے اور وہ آج بھی وہ اپنے آپ کو اچھا مسلمان کہلانا پسند کرتے ہیں اُن کا فرمانا ہے کہ نماز میں زیادہ وقت لگانے کے بجائے کوئی اور کام کرلوں تو زیادہ مفید ہے۔
نماز کے بجائے کو ئی اور اہم کام، حج وعمرے کے بجائے اس رقم سے کسی مریض کا علاج، قربانی کے بجائے کسی یتیم کے اسکول کی فیس جیسی تھیوریاں پہلے بھی بہت دین داری اور دردمندی کے ساتھ بیان کی جاتی رہی ہیں اور آج پھر سے ایسی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔ عبادت تو سراسر ربّ کی مرضی کو پورا کرنا ہے اس میں اپنی منشاء شامل کردی تو پھر غلامی نہیںبغاوت ہے۔
کئی دھائیوں پہلے غلام احمد پرویز اسی طرح کے خیالات کا پرچار کرتے رہے ہیں پرویز نے سلیم نامی نوجوان کے خطوط کے ذریعے کیے جانے والے سوالات اور اُن کے جوابات پر مشتمل ایک رسالہ ’’سلیم کے نام‘‘ شائع کیا تھا اس کا ایک اقتباس کچھ اس طرح تھا ’’مسجد میں شیخ صاحب بڑے جوش وخروش اور خوشی خوشی اپنی جیب سے کئی لاکھ روپے کا قالین بچھوا رہے تھے اور ٹھیک منبر کے سامنے والے گھر میں ثریا نامی لڑکی چند ہزار کا جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے بالوں میں سفیدی نظر آنا شروع ہوگئی تھی کیا اچھا ہوتا کہ شیخ صاحب مسجد کے قالین کے بجائے ثریا کے جہیز کا انتظام کردیتے، آج کل جاوید چوھدری جیسے قمکار جن کا خیال ہے کہ دُنیا کی معیشت صرف اعداد و شمار کی دم سے چل رہی ہے وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک سال حج نہ کیا جائے یا ایک سال قربانی نہ کی جائے تو ملکی خزانے کو اتنے ارب زرمبادلہ کی بچت ہوسکتی ہے، اس رقم سے اتنی لاکھ شادیاں ہوسکتی ہیں ، اتنے ہسپتال بن سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ اب پھر سے ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہورہا ہے جو خوداپنے کو اسلام کے مطابق بنانے کے بجائے اسلام کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
دُنیاوی خداوں کے اشاروں پر چلنے والوں کو جب پاکستان میں کسی اور ازم کے چلنے کی امید نہ رہی تواب اُنھوں نے نیکی کے نئے نئے پیمانے تراشنا شروع کر دیئے ہیں، دین کو نجی معاملہ قرار دے کر اُس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کو ذاتی فعل بناکر بے عملی کا راستہ کھول رہے ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اگر میں نمازپڑھتا ہوں تواپنے لیے پڑھتا ہوں اور اگر روزہ رکھتا ہوں تو اپنے لیے رکھتا ہوں لہذا یہ میرا اور میرے اللہ کا معاملہ ہے یعنی یہ عبادات انجام دوں یا نہ دوں اصل نیکی تو انسانیت کی خدمت ہے، لوگوں کے کام آنا ہے، کسی کی مدد کرنا ہے، کسی معذور کا ہاتھ پکڑ کر منزل تک پہچانا ہے بلاشبہ یہ سارے کام نیکی ہیں لیکن انہیں اصل قرار دے کر ساری عبادات و عقائد کو صفر کردینا غلط ہے یا ان نیکیوں کو نماز، روزے، جہاد کا بدل بنادینا محض دھوکہ ہے۔
بلاشبہ قرآن کا بڑا حصہ انسانی معاملات کی ہدایت پر مشتمل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام زندگی گُزارنے کا طریقہ تفصیل سے بیان کیا ہے وراثت، ملکیت، ماں باپ سے سلوک رحمی رشتے قرابت داری وغیرہ پر زیادہ بات کی ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ عقائد و عبادات کو چھوڑ کر ہم اپنے معاملات کو درست رکھ سکیں جس طرح ایک طالب علم سولہ سال کی تعلیم کی بنیاد پرپوری زندگی خدمات انجام دیتا ہے اسی طرح پانچ وقت کی نماز ایک مہینے کے روزے اور دیگر عبادات زندگی کے اور معاملات میں عمل کا فیول فراہم کرتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی کو آخرت میں اجر کا یقین نہ ہو اور وہ اپنے حق سے دست بردار ہوجائے یا اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے۔
یہاں یہ بات کی جاسکتی ہے کہ امریکہ یورپ میں بھی تو دین سے لاتعلق لوگ انسانوں کی خدمت کا کام کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انفرادی عبادات سے عملی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اسلام ایک ہمہ جہت نظام حیات ہے وہ ذاتی، انفرادی، اجتماعی، حکومتی، ریاستی، عالمی غرض ہر سطح پر ہدایت دیتا ہے یعنی ایک مسلمان اپنی ذات، ماں باپ، بیوی بچے، بہن بھائی، محلہ پڑوس، ملک اور عالمی کردار ادا کرنے کا پابند ہے،اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ماں باپ چند منٹوں کی ملاقات سے محروم رہیں اور دُنیا بھر کے ساتھ روادری کا سلوک کیا جائے، باپ اپنے بچوں کی کفالت نہ کرے اور مہاجرین کے کسی کیمپ میں جاکر کھانا تقسیم کرے، جب کہ گورا ایسا ہی کررہا ہے اُس کے ماں باپ اس کی قربت سے محروم ہیں اور وہ دُنیا بھر کو پولیو ویکسن کے ٹیکے لگانے پر لگا ہوا ہے۔
عبادات ایک مسلمان کو متوازن زندگی گُزارنے کی تربیت دیتی ہیں لہذا عبادات کو انفردی فعل قرار دے کی انسانی خدمت کا کام بے غرضی سے اور مسلسل انجام نہیں دیا جاسکتا۔
جدید دُنیا نے انسانیت کے نام سے ایک نیا خدا تراش لیا ہے، کتوں کا علاج کراو، بلیوں کو کھانا کھلاو، مریضوں میں گل دستے تقسیم کرو، اسکول بناو، چپل پہناو، بس یہی سب کچھ ہے بلاشبہ یہ سب بہت کچھ ہے لیکن اسے سب کچھ بنا دینا ٹھیک نہیں ہے، عبادات کو نظرانداز کرکے انسانیت، خدمت وغیرہ محض دھوکہ ہے، کم ازکم مسلمان کو اس دھوکے میں نہیں آنا چاہیے ارشادِ باری تعالٰی ہے ’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکے بازی کررہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ نے ہی اُنھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں توکسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کے خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں کفر اور ایمان کے درمیان ڈانوڈول ہیں (القران) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوہی سکتا تھا جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھتا ہو، عبداللہ بن ابی بھی نماز پڑھتا تھا۔
لہذا اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسلام کی جو ترتیب، ترجیح، تنظیم بتائی ہیں وہی اصل دین ہے باقی سب دھوکہ ہے، سراب ہے۔

حصہ