صفائی آدھا ایمان ہے

226

نجمہ نسیم
عبدالرحمن نے گھر سے قدم باہر نکالا تو گلی میں جمع پانی کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ اس نے اپنی شلوار کے پائنچے (جو پہلے ہی سنت کے مطابق تخنے سے اونچے کیے ہوئے تھے) اور اونچے کر لیے اور حدیقہ کو گھر کا دروازہ بند کرنے کو کہا۔
وہ جیسے ہی کچھے آگے بڑھا تو گلی کے کونے پر چپس کے کچھ خالی ریپرز ڈسٹ بن کے پاس پڑے نظر آئے۔ اس نے جھک کر وہ اٹھائے اور ڈسٹ بن میں ڈالنے لگا تو پیچھے سے ہنسنے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
عبدالرحمن نے پلٹ کر دیکھا تو اسی کے ہم عمر 5-4 بچے محلے ہی کے بچے کھڑے نظر آئے۔ جو عبدالرحمن کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اوہو! دیکھو وہ آگئے گلی کے ٹھیکے دار۔ جمعدار صاحب اس بات کو عبدالرحمن نے خاموشی اور حیرت سے سنا کہ یہ بچے اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں۔ امی تو ہمیں بار بار بتاتی ہیں بیٹا یہ ہمارا گھر ہے ہماری گلی ہمارا محلہ ہمارا شہر ہے اسے صاف رکھنا چاہیے۔ اور کچرا ڈسٹ بن میں ہی ڈالنا چاہیے۔
جب وہ گھر واپس آیا تو الجھن اس کے چہرے سے نظر عیاں تھی امی نے کہا بیٹا ہاتھ دھو لو اور دودھ پی لو۔ جب عبدالرحمن دودھ پینے بیٹھا تو امی نے پوچھا بیٹا کیا ہوا کیا بات ہے۔ اس نے امی کو تمام باتیں بتائیں کے بچے کس طرح میرا مذاق اڑا رہے تھے۔ پھر اس نے سوال کیا امی کیا میں نے غلط کیا؟ امی نے مسکراتے ہوئے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سمجھایا۔ بیٹے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نے فرمایا۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ تو بیٹا جو بچے آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ اس بات سے بے خبر ہیں۔
آپ ساتھی بچوں کو بتائیں کے داغ اچھے نہیں ہوتے۔ گندگی تو گندگی ہی ہے ایک مسلمان کو پاک اور صاف رہنا چاہیے اور بیٹے ان بچوں کی بات سے دل چھوٹا نہ کرو بلکہ حضور اکرمؐ کا پیغام ان بچوں تک بھی پہنچائو۔ اور صفائی کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتائو کے وہ کتنی ضروری ہے۔ تاکہ تمہارے ہم عمر بچے اور دوست بھی حضور اکرمؐ کی سنت پر عمل کرکے اچھے مسلمان بننے کی کوشش کریں۔
اس دن سے عبدالرحمن نے خود بھی اس بات پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس بات کے لیے راضی کیا کے خود اپنے کپڑوں کو۔ گلی کو اپنے پارک کو صاف رکھیں گے۔ کیونکہ
پاک صاف مسلمان
جیوے جیوے پاکستان

حصہ