دیے بغیر کچھ ممکن نہیں…۔

1100

عابد علی جوکھیو
کائنات کو وجود بخشنے والے نے ہر چیز کو وجود دینے کے ساتھ ساتھ اس کی حدود و قیود بھی مقرر کردی ہیں، کوئی بھی شے ان حدود و قیود سے ماورا نہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جہاں ہر مخلوق کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں، وہیں ان کی کچھ حدیں بھی ہیں، جن کو وہ پار کرنا چاہے تب بھی پار نہیں کر سکتی۔ یہ معاملہ انسان کا ہے، اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس کی بھی کچھ حدیں ہیں، وہ آزاد ہونے کے باوجود اتنا ہی آزاد ہے جتنا اس کو اختیار دیا گیا ہے، اگر بغور دیکھا جائے تو انسان پر ’’جوچاہوں کروں‘‘ کا جملہ صادق نہیں آتا، اپنی مرضی کا مالک ہونے کے باوجود وہ کسی ہستی کی مرضی (چاہت) کا پابند ہے۔انسان کے اعمال مشروط ہوتے ہیں، ایک عمل کا دارومدار دوسرے پر ہوتا ہے۔چونکہ انسان اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری، اس لیے اس کی کامیابی کا تعلق اس کے عمل سے ہے، جیسا عمل ویسا بدلہ۔ یہ قائدہ دونوں جہانوں کے لیے یکساں ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بیج تو سرسوں کا بوئے او رامید چاول یا گندم کی لگا بیٹھے… اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس دنیا میں انسان اعمال بد کرتا پھرے اور بدلے میں جنت کی آس لگائے… اگرچہ جنت تو اللہ کے فضل و کرم سے ہی ممکن ہے لیکن صرف آس و امید سے کام نہیں بنتا ، اس کے لیے انسان کو جنتیوں والے کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔ یہ ایک موٹی سے بات ہے، جو بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی ، ایک ٹی وی پروگرام میں کسی نے سوال کیا کہ مسجد کے مولوی صاحب نے کہا کہ جو کوئی مسجد کے لیے پلاٹ خریدکر دے گا اللہ اسے جنت میں داخل کریں گے، کیا یہ بات ٹھیک ہے…؟ اس بات سن کر وہ مذہب پرست دانشور صاحب مولویوں پر برس پڑے کہ یہ فساد ہی مولویوں کا پیدا کردہ ہے کہ لوگوں کو جنت اور جہنم کی اسناد تقسیم کرتے پھرتے ہیں، ہم کسی کو جنتی جہنمی نہیں کہہ سکتے،اور نہ ہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں،انسان کے اعمال چاہے جیسے بھی ہوں، ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے، کسی بھی عمل پر جنت کی خوشخبری اور جہنم کی وعید نہیں بتاسکتے وغیرہ وغیرہ…یہ وہ مذہب بیزار بیمار ذہنیت ہے جوایک طرف تو اپنے آپ کو پکا سچا مسلمان کہتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب اسلام اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب ان بے وقوفوں کو کون سمجھائے کہ اگر کسی نیک عمل پر اللہ اور اس کے رسول نے خوشخبری سنائی ہو یا کسی برے فعل پر سزا و وعید بتائی ہو تو کیا اسے بیان نہ کیا جائے، یا نعوذ باللہ اسے بھی شک سے دیکھا جائے، مانا کہ ہم کسی پر جنتی اور جہنمی ہونے کا فیصلہ صادر نہیں کر سکتے لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے جنتیوں والے اعمال کی تعریف اور اس کے بدلے میں ملنے والے انعامات کا تذکرہ اور جہنمیوں والے برے افعال کی وعید وسزاتو بیان کر سکتے ہیں۔ چونکہ انسان کا ہر عمل کوئی نہ کوئی اثر رکھتا ہے اس لیے یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کا کوئی بھی عمل اسے جنت یا جہنم سے قریب یا دور نہ کردے۔
انسان کی کامیابی کادارومدار اس کے اعمال سے ہے، عمل کے بغیر کچھ بھی نہیں، خالق نے انسان میں فطرت میںایسی کوئی چیز نہیں رکھی جس سے وہ اعمال سے ماورا اورممتاز ہوجائے۔اقبال نے فرمایا تھا ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہ اسی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو انسان کو ملتا ہے، نتیجہ خوشگوار بھی ہوسکتا اور ڈراؤنا بھی… جیسا عمل ویسا نتیجہ۔ لیکن آج ہمارا مسئلہ نیک یا بد عمل نہیں بلکہ نفس عمل ہے، جی ہاں! عمل… ہم کوئی کام کرنا ہی نہیں چاہے، ہم کام کیے بغیر ہی اس کا بہترین صلہ چاہتے ہیں، ہم بغیر پڑھے اور محنت کیے اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ہم بغیر مشقت اٹھائے مالدار بننا چاہتے ہیں، ہم اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیے بغیر ہی کامیابی چاہتے ہیں، اپنی ہستی کو مٹائے بغیر عزت کے خواہاں بنے ہوئے ہیں، ہم بغیر کچھ داؤ پر لگائے اپنی مرضی کا نتیجہ چاہتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ بغیر محنت کیے، داؤ پر لگائے کچھ نہیں مل سکتا، خالق کائنات نے بھی فرمادیا کہ ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس کے نے کیا۔‘‘ (مفہوم آیت، النجم39)اشفاق احمد (باباجی) نے زاویہ میں بیان کیا ہے کہ ’’جب تک ہاتھ سے، اور پلے سے کچھ نہیں دیاجائے گا، اس وقت تک کسی بھی قسم کی فلاح، اور ترقی نہیں ہو سکے گی۔ کسان اپنے گھر کے اندر جا کر اپنی بھڑولی کھول کر اس میں سے اناج نکال کر، یا بوری کی تناویں کاٹ کر اس میں سے دانے نکال کے، جھولی بھر کے کھلے میدان میں جاتا تھا، اور وہ اچھے بھلے دانے… اچھا بھلا اناج جس سے اس کے گھرانے کی زندگی کا سامان بڑی آسانی سے کیا جا سکتا تھا، باہر لے جا کر یا تو پورے کے ذریعے یا بیج در بیج… یا چھٹے کے ذریعے ایک عجیب غریب زمین پر پھینک کر اس امید پر، اور اس سوچ پر چلا آتا تھا کہ اس کے اندر سے اب ایسے ہی بے شمار دانے، ستر، ستر اور سات سات سو، اور سات سات ہزار ہو کر نکلیں گے۔ یہ پہلے دینا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد لینا ہوتا ہے۔ یہ تصور ہمارے ساتھ تھا کہ دیں گے، تو ہم دے چکنے کے بعد کیاریوں دروازوں میں سے چھوٹے چھوٹے پودے جھانک کر دیکھتے تھے کہ گھر والے کھیت میں آئے ہوئے ہیں کہ نہیں، یا ہم اکیلے ہی نشوونما پا رہے ہیں۔ تو کبھی کبھی بونے والے وہاں موجود تھے، اور کبھی نہیں بھی ہوتے تھے، لیکن وہ پودے نشونما پاتے چلے جاتے تھے، اور جب وہ بڑے ہوتے تھے، تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔‘‘
ہمارا آج کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لاابالی زندگی گزار رہے ہیں، یہاں میرے اصل مخاطب خاص طور پر نوجوان ہیں، ہمیں پتا ہی نہیں کہ ہمیں کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس کی منصوبہ بندی کس کرنی چاہیے، اس کے لیے کون کون سے وسائل درکار ہونگے، اس منصوبہ بندی سے مجھے اور معاشرے کو کیا فائدہ ہوگا،اور اہم سوال کہ میری منزل یا نصب العین کیا ہے…؟یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن سے ہم بالکل دور ہوچکے ہیں، ایک عام نوجوان تو اپنی جگہ، تحریک سے وابستہ نوجوان بھی ان سوالوں سے کوسوں دور ہیں۔ اگرچہ یہ میرا یقین ہے کہ جنہوں نے اپنی نوجوانی دین کی سربلندی کے لیے وقف کردی، اللہ تعالیٰ ان کا مستقبل ضرور روشن کرتے ہیں، ان کو ضائع نہیں کرتے، وہ پریشان نہیں ہوتے، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارا نوجوان تحریک کے کام کے ساتھ ساتھ اپنی دریافت کرتے ہوئے اپنے لیے خود مستقبل کے راستے کا انتخاب کرے تاکہ مزید بہتر اور مثبت انداز میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر سکے۔ ہمیں ایسے کئی افراد ملتے ہیں جو اپنے معاشی ، دفتری یا دیگر مسائل کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ان مسائل کو نمٹنے کے لیے خود کیا تیاری کی تھی… ایک صاحب گزشتہ پانچ برس سے کسی دفتر میں ایک ہی پوزیشن پر کام کر رہے ہیں، اور انہیں اپنی ترقی نہ ہونے پر شکوہ ہے۔ اب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے ان پانچ سالوں میں اگلے گریڈ پر ترقی کے حصول کے لیے کیا منصوبہ بندی یا محنت کی تھی، کیا آپ نے مطلوبہ تعلیمی قابلیت حاصل کی، کیا اپنے اندر اس مقام کے لیے مطلوبہ صلاحیت پیدا کی، کیا گزشتہ پانچ برس میں آپ نے دفتری کاموںمیں ’’احسان‘‘ کے درجے کا مظاہرہ کیا… یہ تو ایک فرضی بات ہے، لیکن ہم میں سے ہر ایک اسی بات کو رونا رو رہا ہوتا ہے، اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ہم بغیرمحنت کیے سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں،ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ لینے سے پہلے دینے کا عمل ہوتا ہے، یہ اس کائنات کا دستور ہے کہ بغیر دیے کچھ مل نہیں سکتا، ہم پہل نہیں کرتے، بلکہ دوسرے کا انتظارکرتے ہیں کہ وہ خود ہی ہم پر مہربان ہوجائے، ایسا نہیں ہوتا… اور سونے پر سہاگا کہ اسے اپنا حق بھی سمجھ بیٹھتے ہیں، کڑھتے رہتے ہیں، شکایتیں کرتے ہیں، اپنی صحت خراب کردیتے ہیں لیکن اصل کرنے کا کام نہیں کرتے۔ میرا یقین ہے کہ انسان اپنی نیت اور سمت درست رکھتے ہوئے مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کرتا رہے تو اسے ضرور بہ ضرور کامیابی ملے گی، کیونکہ میرا اللہ کے کلام پر یقین ہے جس میں وہ فرماتا ہے کہ وہ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔
جب بھی ہمارا رویہ دینے کے بجائے صرف لینے والا ہوگا، ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ناکامی اور بربادی کی طرف ہی جائیں گے، کیونکہ اس رویے کے نتیجے میں معاشرے میں کوئی بھی اپنا حصہ ملانے والا نہیں ہوگا، سب معاشرے سے لینے والے ہونگے، ایسے میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب معاشرے کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہوگا ۔ اشفاق احمد (باباجی) نے اسی حوالے سے زاویہ میں بیان کیا تھا:ہمارے پاس وقت کچھ بھی نہ تھا۔ ہم اپنی دولت، شہرت، عزت، شفقت، محبت، مروت، یہ سب کچھ لے کر اپنے وطن کی بنیادوں میں ڈالنا چاہتے تھے، لیکن ہمارے پاس سوائے ہمارے بدنوں کے، ہمارے وجود کے، اور سوائے ہمارے اپنے خون کے کچھ بھی نہ تھا۔ ہم نے اپنے وجود کو، اپنے جسم کو، اپنے خون کو اس وطن کی بنیادوں کو پیش کیا۔ جو الحمدللہ اس نے بڑی خندہ پیشانی سے قبول کیا اور یوں اس ملک کی بنیاد پڑی۔ یہ تصور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ساتھ یہ تصور بھی دھندلانے لگا کہ دینا اتنا ضروری نہیں ہے، اور ان کھیتوں میں ان مرغزاروں میں، ان باغوں میں ایسے لوگ بھی آئے جنہوں نے کاشت میں کوئی مدد نہ کی۔ البتہ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اس کی طرف پل پڑے، اور یہ ہمارے ذہنوں سے نکلتا گیا کہ ہمیں دینا بھی ہے، کیونکہ دیے بغیر کام آگے نہیں چل سکتا، اور جوں ہی دینے سے ہاتھ روکتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں اس کا اثر ضرور پڑتا ہے، اور ویرانی، اور بربادی کے سامان ضرور شروع ہو جاتے ہیں۔

حصہ