(حضرت ہود علیہ السلام اور قومِ عاد (تیسرا حصہ

1357

سید مہر الدین افضل
۔31واں حصہ
میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا
(تفصیل کے لیے دیکھیے سُورَۃُ ہود حاشیہ نمبر: 56 سُورَۃُ الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر: 79سُورَۃُ الاَحقَاف حاشیہ نمبر:31)
کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
ارشاد ہوا:۔ اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟ (سُورَۃُ ہُود آیت نمبر51) اس سے بڑھ کر بے عقلی کی دلیل کیا ہو گی کہ آدمی اس شخص کی نصیحت قبول نہ کرے جو اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر انسانوں کو ان کی بہتری اور کامیابی کی طرف بلا رہا ہو۔۔۔ اور اس کے لیے بے شمار مصیبتیں جھیل رہا ہو، جس کی کوششوں اور محنتوں میں آپ کسی طرح کے شخصی یا خاندانی مفاد ات نہ پاتے ہوں۔۔۔ سوچنا چاہیے کہ وہ ضرو ر اپنے دل میں ایمان و یقین کی کوئی ایسی بنیاد۔۔۔ اور اپنے ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ، رکھتا ہے جس سے اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر۔۔۔ اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بے پروا ہو کر۔۔۔ اپنے آپ کو اس آزمائش بھرے کام میں ڈالا ہے کہ صدیوں کے رچے، بسے اور جمے ہوئے عقائد، رسوم اور طرزِ زندگی کے خلاف آواز اُٹھائے اور اس وجہ سے ساری دنیا سے دشمنی کر لے۔ ایسے شخص کی بات کم ازکم اتنی بے وزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یو ں ہی ٹال دیا جائے۔۔۔ اسی لیے حضرت ہودؑ نے ان سے کہا کہ تم میری بات کو جس طرح سرسری طور پر نظر انداز کر رہے ہو اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے؟ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ سامنے کی بات ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے کیا جانے والا کام چھپائے نہیں چھپتا۔۔۔ چاہے وہ دین کا نام لے کر کیا جائے یا سیاست وحکومت کا۔۔۔ نذرانے وصول کیے جاتے ہیں۔۔۔ لنگر جاری ہوتے ہیں۔۔۔ جائدادیں بنتی ہیں اور فقیر کی جھونپڑی یا سیاست دان کی بیٹھک اور اوطاق دیکھتے ہی دیکھتے شاہی دربار بن جاتے ہیں۔ جب کہ نبی کی ذاتی زندگی اخلاق کی بلندیوں پر ہوتی ہے۔۔۔ وہاں ذاتی فائدہ اٹھانا تو دور کی بات وہ تو اپنا سب کچھ اسی خدمت پر قربان کر دیتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر کوئی شخص جو عقل بھی رکھتا ہو۔۔۔ اور بے انصاف بھی نہ ہو، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ آخر ایک اچھا بھلا آدمی، جو اطمینان کی زندگی گذار رہا تھا، کیوں بلا وجہ ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھے جب کہ اسے کوئی فائدہ اس جھوٹ سے نہ ہو۔۔۔ ایسے شخص کو بدنیت یا خود غرض سمجھنا خود اس شخص کی اپنی بدنیتی کا ثبوت ہوتا ہے جو ایسے آدمی پر یہ الزام لگا ئے۔
ارشاد ہوا:۔ ان کو ہم نے کان، آنکھیں اور دل، سب کچھ دے رکھے تھے، مگر نہ وہ کان ان کے کسی کام آئے، نہ آنکھیں، نہ دل، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے، اور اسی چیز کے پھیر میں وہ آ گئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (سُورَۃُ الاَحقَاف آیت نمبر 26) اس مختصر سے فقرے میں ایک اہم حقیقت بیان کی گئی ہے۔ خدا کی آیات ہی وہ چیز ہیں جو انسان کو کائنات کی حقیقت اور اس میں اس کے مقام کا فہم دیتی ہیں۔۔۔ اور معاملات کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھنے کا شعور بخشتی ہیں۔ یہ فہم اور شعور انسان کو حاصل ہو تو وہ آنکھوں سے ٹھیک دیکھتا ہے۔۔۔ کانوں سے ٹھیک سنتا ہے، اور دل و دماغ سے ٹھیک سوچتا اور صحیح فیصلے کرتا ہے۔۔۔ لیکن جب وہ آیاتِ الٰہی کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔۔۔ تو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی وہ حق کو پہچان نہیں پاتا۔۔۔ کان رکھتے ہو ئے بھی وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتا۔۔۔ اور دل و دماغ کی جو نعمتیں خدا نے اسے دی ہیں ان سے الٹا سوچتا اور ایک سے ایک غلط نتیجہ نکالتا چلا جاتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ اس کی ساری قوتیں خود اس کی اپنی ہی تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
میرا اجر اللہ کے ذمہ ہے:۔
سُورَۃُ الشُّعَرَآء آیت نمبر109 میں حضرت نوحؑ کا قول ہے:۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے۔ پھر آیت نمبر127 میں یہی قول حضرت ہودؑ آیت نمبر 145 میں حضرت صالحؑ آیت نمبر 164 میں حضرت لوطؑ آیت نمبر180 میں حضرت شعیبؑ کا نقل ہوا ہے اور حضرت محمد مصطفیؐ سے سورۃ سبا آیت 47 میں کہلوایا گیا‘‘۔ ان سے کہو، ’’اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔۔۔ اور سورۃ (ص) آیت 86 میں ارشاد ہوا:۔ (اے نبیؐ) ان سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سورۃ الفرقان آیت نمبر 57 میں ارشاد ہوا۔ اے نبیؐ، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔ یہ انتہائی اہم دلیل ہے جسے قرآن مجید نے بار بار انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ اور ہر زمانے میں انبیا اپنے مخاطبین کو بار بار اس جانب متوجہ کرتے تھے۔ اس میں آج اور ہر آنے والے دور کے داعیانِ حق کے لیے کُھلا پیغام ہے کہ ان کا ہر کام ذاتی اور گروہی مفاد سے بالا تر ہونا چاہیے۔۔۔ اور انہیں اس کا بار بار اعلان بھی کرنا چاہیے۔
نبی اور غیر نبی کا فرق:۔
یہاں یہ فرق بھی ذہن میں رہے کہ انبیا اللہ کی طرف سے مامور ہوتے تھے۔۔۔ اور لوگوں کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا فیصلہ ان کی بات ماننے یا نہ ماننے پر منحصر ہوتا تھا ۔۔۔ وہ لوگوں کو اللہ کی بندگی اور اپنی اطاعت و پیروی کی دعوت دیتے تھے۔ لیکن کسی غیر نبی کو یہ مقام حاصل نہیں کہ وہ اپنی اطاعت اور پیروی کی طرف بلائے۔۔۔ اب تو اللہ کی بندگی اور رسول اللہﷺ کی پیروی کی طر ف بلانا ہے۔۔۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ مسلمان معاشرے میں معاملہ اور نازک ہو جاتا ہے۔۔۔ کیوں کہ ہر کوئی اللہ کی بندگی اور رسولؐ سے محبت کا دعوے دار ہے۔۔۔ یہاں تو پہلے اللہ کی بندگی اور رسولؐ سے محبت کے تقاضے بتانے ہوں گے۔۔۔ اور اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور رسولؐ کے سچے پیرو کا ر ہیں۔۔۔ ہم اقتدار نہیں اصلاح چاہتے ہیں۔۔۔ مکمل اور زندگی کے ہر پہلو اور ہر دائرے میں اصلاح۔۔۔ اور اس کے لیے ہر مسلمان کو اچھے اخلاق و کردار کا مالک ہونا چاہیے۔۔۔ ایسا کردار جو اللہ کی بندگی اور رسولؐ کی محبت کے دعوی ٰ سے مطابقت رکھتا ہو۔ دعوت دینے والوں کو معاشرے میں سب سے بڑھ کر اعلیٰ اخلاق و کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ انہیں بار بار یہ بات دہرانی چاہیے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اقتدار ہمارے حوالے کر دو۔۔۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اپنی اصلاح کرو۔۔۔ اور اقتدار صاحب کردار لوگوں کے حوالے کر دو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صاحب اقتدار طبقہ اگر صالح اور با کردار ہونے کے بجائے مفسد اور بد کردار ہو تو معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔۔۔ اس لیے ان کی اصلاح یا تبدیلی کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔۔۔ اور یہی انبیا کا طریقہ ہے انہوں نے ایک ساتھ دونوں کو خطاب کیا ہے۔ اس معاملے میں افراط و تفریط سے بچنا چاہیے !!! جو لوگ صرف اخلاق و کردار کی اصلاح کی بات کرتے ہیں ان کی باتیں اقوال زریں تو بن جاتی ہیں لیکن عملی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں۔۔۔ اور جو لوگ اقتدار کی تبدیلی اور حصول کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہ اقتدار کے بھوکے بن جاتے ہیں۔
عاد کا کبر و غرور اور ان کی سیاست:۔
سُورَۃُ ہُود آیت نمبر 59،60 میں ارشاد ہوا:۔ یہ ہیں عاد، اپنے ربّ کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسُولوں کی بات نہ مانی، اور ہر جبّار دُشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرِ کار اس دُنیا میں بھی ان پر پھِٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے ربّ سے کُفر کیا، سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُودؑ کی قوم کے لوگ۔ سُورَۃُ حٰم السَّجدَۃ آیت نمبر 15 تا 18 میں ارشاد ہوا:۔ عاد کا یہ حال تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے ’’کون ہے ہم سے زیادہ زور آور‘‘ ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے، آخر کار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی۔ تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزا چکھا دیں، اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے، وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔
عاد پر ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے کبر و غرور کی وجہ سے آیا ا نہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔۔۔ یہ آیات وہ بھی تھیں جو حضرت ہودؑ انہیں اللہ کی طرف سے سناتے تھے۔۔۔ اور خود حضرت ہودؑ کی ذات اور آپ پر ایمان لانے والوں کا ذاتی کردار بھی ان کے لیے آیات کا درجہ رکھتا تھا۔۔۔ لیکن انہوں نے اللہ کے ان نیک بندوں کو جھٹلایا۔۔۔ اور ہر اس شخص کے پیچھے چل پڑے جو طاقت، قوت اور اقتدار رکھتا تھا اور بہ حیثیت قوم وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے۔۔۔ وہ ساری دنیا کو چیلنج کرتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ (قوم عاد پر عذاب کی تفصیل آیندہ مضمون میں ملاحظہ فرمائیں )۔
اللہ سُبٰحانہٗ و تعٰالیٰ ہَم سَب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اَور اُس فہم کے مُطابق دین کے سارے تقاضے، اَور مُطالبے پُورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعو ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ