جمیل الدین عالی‘ فن اور شخصیت

2386

خالد معین
پاکستانی شعرو ادب میں جن چند شخصیات نے مجموعی طوپر اپنی انفرادیت اور تخلیقی اُپج کے ہے نقوش چھوڑے ہیں ،اُن میں جمیل الدین عالی کا نام سر ِ فہرست ہے ۔عالی صاحب کی تخلیقی شخصیت کے کئی حوالے ہیں ۔وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے مالک رہے ۔ایک جانب اُنہوں نے کئی مقبول اور یاد گار ملی نغمات لکھے تو دوسری طرف اُنہوں نے دوہے جیسی مترنم اور نغمگی سے بھرپور مگر نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی ۔یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعرو ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابل ِ ستایش ہیں ۔اُن کی علمی قابلیت اور دانش وارنہ شخصیت کا ادارک سب کو تھا ،اور اسی لیے اُن کے چاہنے والے اُنہیں جمیل الدین عالی کے بہ جائے عالی جی کہہ کے پکارتے تھے ۔ عالی جی کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔اس حوالے سے انجمن ترقی ِ اردو جیسے تاریخی ادارے سے طویل علمی وابستگی اور پاکستان کی پہلی وفاقی اردو یونی ورسٹی کے قیام کے ساتھ رائٹرز گلڈ جیسے ادارے میں مرکزی اور انتظامی کردار نے عالی جی کو اُن کی زندگی ہی میں لیجنڈ بنادیا تھا۔ اُنہیں جہاں گُل پاشی اور پوری اردو دنیا میں ستایش سے نواز گیا ،وہیں اُنہیں ایک زندہ شخصیت کی طرح کہیں کہیں اختلافات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔
جمیل الدین عالی کی شاعری کا سفر 1939ء سے نویں جماعت ہی سے شروع ہو گیا تھا ،تاہم جب مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تو استاد کی ضرورت محسوس ہوئی ،چچا سراج الدین خاں سائل کی شاگردی میں آئے لیکن اُن کے پہلی ہی مشورے پر عمل نہ کیا اور یوں آگے چل کر بھی کسی باقاعدہ استاد کی شاگردی میں نہ آئے،یہ عالی جی کا مزاج بھی نہ تھا ،تاہم کئی اساتذہ سے کسب ِ فیض حاصل کرتے رہے ۔کراچی میں معروف ادبی تنظیم’ حلقہ ء ارباب ذوق‘ کے تین بار سیکرٹری منتخب ہوئے ۔1956ء میں معروف مزاح نگار اور شاعر ابن ِ انشا جو عالی جی کے دوست تھے ،اُنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملوانے لے گئے ،اسی ملاقات کے بعد جمیل الدین عالی کی نیاز مندی مولوی عبدالحق سے قائم ہوگئی اور اسی نیازی مندی کے سبب وہ انجمن ترقی ِ اردو جیسے تاریخی ارادے سے جڑ تے چلے گئے اور یہ تعلق اُن کی آخری سانس تک قائم رہا ۔
عالی جی 1959ء سے 1976ء تک راٹرز گلڈ کے اعزازی سیکرٹری رہے ،اس کے بعد وہ 1976ء سے 1970ء تک رائٹرز گلڈ کے منتخب جنرل سیکرٹری بھی رہے ۔انجمن ترقی اردو سے طویل اور مرکزی وابستگی کے دوران وہ پہلے 1959ء سے 1962ء تک رکن ِ منتظمہ رہے ،اس کے بعد 1962ء سے انجمن ترقی اردو کے معتمد ِ اعزازی کے طور پر اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے ۔1998ء سے 2001ء تک اردو ڈکشنری بورڈ کے رکن اور اعزازی صدر نشیں بھی رہے ۔وفاقی وزیر ِ تعلیم ڈاکٹر عطا الرحمن کے تعاون سے وفاقی اردو کالج کو وفاقی اردو یونی ورسٹی کا درجہ دلانے میں کام یاب ہوئے ،لیکن اس کے پیچھے عالی صاحب کو ایک طویل اور صبر آزما جد وجہد سے گزرنا پڑا ۔
جمیل الدین عالی وسیع المطالعہ انسان رہے ،اسی کے ساتھ وہ وسیع القب بھی تھے ۔انجمن آرائی کے دل دادہ تھے ،اس حوالے سے اُن کا حلقہ ء احباب بھی وسیع رہا ۔ملک اور بیرون ِ ملک ادبی سیمینارز اور مشاعروں میں شرکت کرتے رہے ۔اس اعتبار سے اُن کی ہر دل عزیزی اور مقبولیت اوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ۔وہ مشاعروں کے حوالے سے اپنی منفرد شخصیت اور منفرد کلام کے ذریعے جہاں جاتے ،وہاں چھا جاتے۔مشاعروں میں وہ اپنی غزلیں ،اپنے مخصوص ترنم سے سناتے اور خاص طور پر لوگ اُن سے دوہے سنتے اور سنتے ہی چلے جاتے ۔وہ اکثر مشاعروں میں اپنے کلام کا اختتام ’جیوے جیوے پاکستان جیسے مقبول عام قومی ترانے پر کرتے اور لوگ دیوانہ وار اُن کے ساتھ اس لازوال قومی ترانے کو اُن کے ساتھ ساتھ دہراتے۔
عالی جی کا پہلا شعری مجموعہ ’غزلیں، دوہے، گیت ‘ 1957ء میں سامنے آیا ، ملی نغمات پر مشتمل مختصر مجموعہ ’جیوے جیوے پاکستان ‘1974ء میں شایع ہوا ۔اسی سال اُن کا غزلوں،نظموں اور دوہے پر مشتمل اہم مجموعہ ’لاحاصل ‘ بھی اشاعت پزیر ہوا ۔ عالی جی کا آخری شعری مجموعہ ’ اے مرے دشت ِ سخن ، کی صورت میں سامنے آیا۔انہوں نے خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’بس اک گوشہ ء بساط ‘ کے نام سے لکھی ،چندسفر نامے بھی لکھے ، عالی جی کی مزید کتابوں میں ،نئی کرن ،شنگھائی کی عورتیں اور ایشین ڈرامے شامل ہیں۔عالی صاحب کی ایک کتاب ،اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے ،اس نظم کی پہلی جلد 7800مصرعوں پر مشتمل ہے۔اُنہوں نے ’انسان ‘کو 1950 ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے ۔یہ نظم طوالت کے علاوہ،اپنی فارم،اپنے اسلوب ،اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفرہے ۔عالی جی کے ابتدائی شہرت حاصل کرنے والے دو کمال کے شعر :
کچھ نہ تھا یاد بہ جز کارِ محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے
تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
اُمید بھی رکھوں ا ور نا اُمید بھی نہ رہوں
دوسری جانب جمیل الدین عالی نے کئی دہائیوں تک ملک کے مشہور اور بڑے اردو روز نامے ’جنگ اخبار ‘ میں مسلسل کئی دہائیوں تک ،بڑی معتبر اورمعیاری کالم نگاری بھی کی ۔اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی ،تہذیبی اورسیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی ۔مختلف طبقات میں عالی صاحب کے یہ کالم پسند کیے جاتے رہے ،قارئین نہ صرف اُن کے انداز ِ تحریر کو سراہتے رہے بل کہ اُن کی علمیت اور جرات مندانہ موقف کو بھی ستایش کی نگاہ سے دیکھتے رہے ۔اُن کے منتخب کالموں کے مجموعے ’دنیا مرے آگے‘ ،’دعا کر چلے‘ اور’ وفا کر چلے‘ کے نام سے سامنے آئے۔اسی طرح انجمن ترقی ِ اردو کی سیکڑوں اہم تحقیقی ، علمی اور ادبی کتابوں پر جمیل الدین عالی نے ’حرف ِ چند ‘ کے نام سے جو مقدمے لکھے ،اُن کے انتخاب بھی ’حرف ِ چند ‘ کے نام سے چار جلدوں میں شایع ہوئے ۔
جمیل الدین عالی زندگی بھر کئی محاذوں پر نبرد آزما رہے ۔ایک جانب اُن کا خاندانی پس منظر ، بھرپور شخصیت ،ذہانت اور علمیت کے باوصف زندگی کے مختلف طبقات میں نمایاں رہی ۔علم وادب سے براہ راست وابستگی نے بھی اُن کی اہمیت میں چار چاند لگائے رکھے جب کہ بیوروکریسی میں شامل ہونے کے سبب وہ کئی اہم اور بڑے عہدوں پر فائز رہے ۔عالی جی کی قومی ،علمی اور ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ،وہ جس شعبے میں گئے ،وہاں نمایاں ترین کارکردگی دکھائی ۔اُن کی انتظامی صلاحیتوں نے بعض اداروں کو راتوں رات چمکا دیا اور مضبوط شخصیت کے اُن کی یہ انتظامی صلاحیتیں زندگی بھر اُنہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتی رہیں ۔اُنہیں 1991ء ’تمغہ ء حسن ِ کار کردگی ‘،1998ء ، میں’ہلال ِ امتیاز ‘ میں اور اکادمی ادبیات کی جانب سے ’کمال ِ فن ‘ایوارڈ بھی دیا گیا ۔ اسی طرح 1991 ء میں عالی جی کو کراچی یونی ورسٹی کی جانب سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی ۔اُنہیں دنیا بھر میں سیاحت اور مشاعرے پڑھنے کے مواقع ملے ،جن میں امریکا ،کینیڈا ،متحدہ عرب امارات ،ایران ،بھارت ،چین ،یورپی ممالک وغیرہ شامل ہیں ۔جمیل الدین عالی نے سات مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لیا لیکن ناکام رہے جب کہ ایم کیو ایم کی حمایت سے وہ 1997ء میں سینیٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے ۔
جمیل الدین عالی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کا ذکر اُن کے ملی نغمات کے بغیر اداھورا رہ جائے گا ۔اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اپنے اکثر مقبول ِ عام نغموں کی دُھنیں بھی خود عالی جی نے بنائیںکیوں کہ یہ اُن کا ذاتی شوق رہا ہے ،تاہم انہوں نے اپنی کسی دُھن کو موسیقارکے تخلیقی مزاج پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اس کام کو راضی بہ رضا ہی رہنے دیا اور اپنی کسی مقبول ِ عام دھن کا کریڈیٹ لینے کی کوشش تک نہیں کی ۔اُن کے مقبول ِعام ملی نغموں میں ،جو نغمے اور قومی ترانے سر ِ فہرست میں اُن میں:
جیوے جیوے پاکستان ،پاکستان پاکستان جیوے پاکستان
۔۔۔۔۔۔
دین ،زمین ،سمندر ،دریا ،صحرا ،کوہستان
سب کے لیے سب کچھ ہے اس میں ،یہ ہے پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وطن میرا وطن ،ایمان والوں کا وطن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو ،پاکستان کے سینئر پروڈیوسر ،نام ور موسیقار اور گلوکار مہدی ظہیر نے عالی صاحب کا ایک ایسا یادگار اور شان دار ترانہ ریکارڈ کرایا ،جس نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی ۔یہ ملی ترانہ پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ہنگامی طور پر عالی جی نے اُس وقت کے وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فرمایش پر راتوں رات لکھا ،اور مہدی ظہیر نے اپنی ولولہ انگیز آواز میں گا کے امر کر دیا :
ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی ،مصطفوی ،مصطفوی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے مائوں ،بہنوں ،بیٹیوں
قوموں کی عزت تم سے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے تمام ملی نغمات میں عالی جی کے لکھے ہوئے ،اس ملی نغمے کو ہمیشہ یاد گار حیثیت حاصل رہے گی ۔یہ ملی نغمہ جس خوب صورتی ،جذبہ ء حب الوطنی اور وارفتگی سے لکھا گیا ،میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی اور سُریلی آواز میں اُس ملی نغمے کو اُسی قدر سپردگی ،تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے فوجی بھائیوں کی نذر کیا :
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمھارے لیے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1971ء میں سقوط ِ ڈھاکا کے دل خراش موقع پر عالی صاحب کا لکھا ہوا یہ ملی نغمہ بھی عجب سوز و گداز رکھتا ہے :
اے دیس کی ہوائو
سرحد کے پار جائو
اوراُن کے چھو آئو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالی جی کاایک اور مشہور نغمہ :
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں ،پر کام کروں گا بڑے بڑے
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں
۔۔۔۔۔جمیل الدین عالی نے ایک طویل ،بھرپور ،خوش حال اور خوش خوش و خرم زندگی گزاری ۔وہ زندگی بھر علم و ادب ،تہذیب و اقدار کے ساتھ علم و ادب سے وابستہ لوگوں کے لیے آسانیاں فراہم کرتے رہے ،اُن کے کام آتے رہے ،عمر کے آخری چند برسوں میں وہ عارضہ ء قلب کی بڑھتی ہوئی پیچدگیوں کے ساتھ کچھ ضمنی امراض میں بھی مبتلا ہوئے اور اکیانوئے سال جینے کے بعد 23نومبر 2015ء کو خالق ِ حقیقی سے جا ملے ،تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور آیندہ بھی رہے گی ۔

حصہ