بچوں کیلیے خود کو وقف کرنے والے مسعود احمد برکاتی

443

محمد طارق خان
لوگ وہی یاد رکھے جاتے ہیں جو خود کو وقف کردیتے ہیں۔خود کو کسی مقصد میں کھپادیتے ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی بڑے نام کو لے لیجیے، وہ اپنے چنے ہوئے میدان کا باکمال کھلاڑی ہوگا۔ وہ اپنی فیلڈ میں اپنی ساری زندگی تج دیتے ہیں۔ وہ آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے کہ کہیں چند لمحے ضائع نہ ہوجائے۔ اِنھیں ناموں میں ہمیں مسعود برکاتی کا نام نظر آتا ہے۔ اُنھوں نے بچوں کے لیے اپنی زندگی کے ماہ وسال وقف کردیے۔ ہمدرد نونہال جیسے رسالے کامعیار اتنا بہتر بنایا کہ وہ اپنی عمدہ زبان کی وجہ سے باعث تقلید بنا۔ اُنھوں نے خالص اور صاف ستھری اُردو بچوں میں متعارف کروائی۔
مسعود احمد کا اصل نام سیدمسعود احمد برکاتی اورقلمی نام صرف مسعود احمد برکاتی ہے۔ آپ ۱۵ ؍اگست ۱۹۳۳ء کو ریاست ٹونک (راجھستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ چار بہن بھائی تھے، ۲۰۱۳ء میںآپ کے بڑے بھائی علامہ سید محمود احمد برکاتی (محقق و مصنف) کو شہر قائد کے ’حق پرستوں‘ نے شہید کردیا۔
آپ کے دادا حکیم برکات احمد ایک جید عالم دین تھے۔ سید مناظر احسن گیلانی اور مولوی معین الدین اجمیری، برکات احمد کے شاگردوں میں شامل تھے۔ اس علمی ماحول میں مسعود احمد برکاتی نے عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبان کی تعلیم کے علاوہ طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ نے کراچی کے ایک ادارے سے روسی زبان بھی سیکھی۔
مسعود احمد برکاتی کی عمر ابھی محض چودہ برس تھی جب اُنھوں نے اپنے دادا برکات احمد کے نام پر البرکات کے نام سے ایک قلمی رسالے کا اجرا کیا۔ اسی رسالے میں سب سے پہلی تحریر شائع ہوئی۔ البرکات ایک قلمی رسالہ تھا جو کہ لائبریریوں میں رکھا جاتا تھا۔ 16 سال کی عمر میں مسعود احمد برکاتی نے انجمن ترقی اُردو کے رسالے معاشیات میں مضامین لکھناشروع کیے۔ اس سلسلہ مضامین پرباباے اُردو مولوی عبد الحق نے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ 1948ء میں مسعود احمد برکاتی اپنے بڑے بھائی اختربرکاتی کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور حیدرآباد میں قیام کیا۔
حیدرآباد میں رہائش کے دوران میں گزر اوقات کے لیے آپ نے چھہ روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا۔ چند ماہ بعد آپ کراچی آگئے۔ کراچی میں ایک دوست کی معرفت آپ کی ملاقات ہمدرد وقف کے بانی حکیم محمد سعید سے ہوئی۔ حکیم سعید نے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی۔
اس بابت ماہنامہ ساتھی کراچی کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوں نے اپنی زبانی بتایا کہ ’’ویسے تو میں نے بڑوں کے لیے لکھنا شروع کیا تھا، باباے اُردو نے ایک رسالہ ’’معاشیات‘‘ کے نام سے کراچی سے جاری کیا تھا۔ میں نے اس میں اشتراکیت کے موضوع پر مضامین لکھے۔ ۱۹۵۲ء میں ہمد رد سے وابستہ ہوا تو ۱۹۵۳ء میں شہید حکیم محمد سعید ؒ نے بچوں کا رسالہ’’ہمدرد نونہال‘‘جاری کیا تو مجھ سے کہا کہ آئو بچوں کے لیے لکھو اور اسے سنبھالو جب سے بچوں کے ادب سے وابستہ ہوں۔‘‘(ماہنامہ ساتھی نومبر2010ء)
اس طرح مسعود احمد برکاتی 1952ء میں ادارہ ہمدرد سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی تاوفات برقرار ہی۔ حکیم محمد سعید نے مسعود احمد برکاتی کو ہمدرد وقف کے ٹرسٹیز میں بھی شامل کیا۔ 1953 میں بچوں کے رسالے نونہال کے اجرا پر اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ تقریباً 65 سال اس ذمہ داری کو نہایت احسن طریقے سے نبھایا۔
1953 سے برکاتی صاحب اس رسالے کی رہنمائی کررہے تھے۔مسعود احمد برکاتی نے رسالہ نونہال کے حوالے سے ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ ٹرین سے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کررہے تھے کہ اچانک ان کی طبیعت ناساز ہو گئی، وہ ایک اسٹیشن پر اُتر گئے، نزدیکی کسی اسپتال میں ڈاکٹر کے پاس گئے اور اپنا تعارف کرایا، مسعود احمد برکاتی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور کہا کہ وہ رسالہ نونہال پڑھ کر ہی جوان ہوا ہے ،اگر نونہال نہ پڑھتا تو شاید آج وہ ڈاکٹر بھی نہ ہوتا۔ ڈاکٹر کے مطابق اسے پڑھنے لکھنے کا جو شوق تھوڑا بہت شوق پیدا ہوا، اس کی وجہ بھی نونہال رسالہ ہی ہے۔
ڈاکٹر رئیس صمدانی کو اپنے ایک انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ حکیم صاحب اُن پر بھرپور اعتماد کیوں کرتے تھے۔آپ نے بتایا کہ ’’حکیم صاحب مجھے مخلص سمجھتے تھے اور میری صلاحیتیوں کے بارے میں بھی حسن ِ ظن رکھتے تھے۔ حکیم صاحب کی عادت تھی کہ جب وہ تجربے سے کسی شخص کے متعلق یہ اندازہ کرلیتے کہ یہ شخص غیر مخلص نہیں ، خود غرض نہیں بلکہ باوفا ہے، یعنی ان سے تعلق خاطر رکھتا ہے۔ ان کی تحریک ، ان کے مشن کا سچائی کے ساتھ حامی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو اس مشن کے لیے استعمال بھی کرتا ہے تو وہ اس کی قدر کرتے تھے، اس پر اعتماد کرتے تھے، اس کی خامیاں بھی بڑی حد تک برداشت کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ شہید حکیم محمد سعید مجھے بھی قابلِ اعتماد سمجھتے تھے۔‘‘
حکیم صاحب سے فکری ہم آہنگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:’’ فکری ہم آہنگی اور آرا سے’’ کامل اتفاق‘‘ میں میرے نزدیک فرق ہے۔ دو افراد میں فکری ہم آہنگی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ لازماً ہر مسئلے، ہر معاملے، ہر فیصلے میں ہم خیا ل اور ہم راے ہوں۔ حکیم صاحب سے میں بڑی حد تک فکری ہم آہنگی رکھتا تھا۔ ملک و ملت کے بارے میں ان کی سوچ ، میری سوچ اور طرزِ فکر ایک تھی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ یہ اور بات کہ تفصیلات میں یا بعض مسائل کی بابت حکیم صاحب سے مختلف راے رکھتا تھا اور اس کا مناسب طریقے سے اظہا ر بھی کیا کرتا تھا۔‘‘
عقیل عباس جعفری نے ہمدرد نونہال کی اہمیت کے حوالے سے مسعود برکاتی کا سنایا گیا ایک مزے کا واقعہ سنایا۔ کہنے لگے ’’ہمدرد کی انتظامی میٹنگ جاری تھی۔ اکائونٹنٹ کے پاس ایک موٹی سی فائل رکھی تھی۔ حکیم صاحب نے اسے مخاطب کیا اور پوچھا: ’’اس فائل میں کیا ہے۔‘‘
اکاونٹنٹ نے فائل حکیم صاحب کو پیش کی اور کہا: ’’ہم نے ہمدرد نونہال کی آمدنی اور خرچ کا دس سالہ گوشوارہ بنایا ہے ، اس کے اسٹاف کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کروڑ سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ آمدنی صرف چند لاکھ ہے۔ یہ رسالہ مسلسل خسارے میں ہے اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسے بند کردیا جائے۔‘‘
حکیم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری ’فائل‘ ایک طرف سرکائی اور اکائونٹنٹ کو مخاطب کرکے بولے: ’’اس رسالے سے جو منافع ہوتا ہے اسے سمجھنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ آگے چلیے…‘‘
اس زمانے میں کراچی میں کچھ نوجوان نونہال پاکستان کے نام سے بھی ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے۔ ہمدر دوقف کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے نونہال کا نام بعد میں ہمدرد نونہال کر دیا گیا۔ آپ پاکستان کے ممتاز طبی جریدے ہمدردصحت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض نہایت تندہی سے سرانجام دیتے رہے۔ آپ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے کوریئر (Courier) کے اُردو ایڈیشن پیامی کے شریک مدیر بھی رہے۔ کوریئر کی مجلس ادارت کی، میٹنگ منعقدہ پیرس میں بھی شریک ہوئے۔ بعض رسائل کی مجلسِ ادارت میں بھی شامل رہے۔ مسعود احمد برکاتی نے پاکستان میں اور بیرون ممالک مختلف علمی اجلاسوں اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ بعض بین الاقوامی مجالس کی صدارت بھی کی۔ کئی اخبارات و رسائل میں مسعود احمد برکاتی کی مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی تحریروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ مسعود احمد برکاتی کوان کی قابل قدراورمسلسل خدمات کے اعتراف میں آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کی جرائد کمیٹی نے 2 مارچ، 1996ء میں نشان ِسپاس اور اے پی این ایس کی جانب سے 2012ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا گیا۔
مسعود احمد برکاتی نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے کئی کتابیں تصنیف کیں۔جن میں مفید غذائیں: قدیم و جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں، ادبی مقالاتِ سعید، قیدی کا اغوا (بچوں کے لیے کہانیاں)چور پکڑو، مضامین،ایک کھلا راز، مضامین، دو مسافر دو ملک، سفرنامہ، یہ اُردو زبان میں بچوں کے لیے پہلا سفر نامہ مانا جاتا ہے۔ انکل حکیم محمد سعید، سعید پارے، وہ بھی کیا دن تھے،مرد درویش–حکیم عبد الحمید کی عظمت کے چند گوشے، صحت کی الف بے،جوہر قابل (مولانا محمد علی جوہر کی کہانی اورکارنامے) مونٹی کرسٹو کا نواب، الیگزنڈر ڈوما کے مشہور فرانسیسی ناول کی اردو تلخیص، ،ہزاروں خواہشیں، چارلس ڈکنز کے مشہور ناول کی تلخیص ترجمہ،تین بندوقچی، الیگزنڈر ڈوما کے مشہور فرانسیسی ناول کی اردو تلخیص،چھوٹی سی پہاڑی لڑکی، فرہنگ اصطلاحات طب شامل ہیں۔
مسعود احمد برکاتی طویل عرصے سے علیل تھے،آپ عارضہ قلب میں بھی مبتلا تھے۔ 85سال کی عمر میں پاکستان کے نامور ادیب، محقق، مترجم اور حکیم محمد سعید کے ساتھی مسعود احمد برکاتی کراچی میں انتقال کرگئے۔ آپ کو سخی حسن قبرستان کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔
٭…٭

حصہ