(برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں (چودہواں حصہ

900

نجیب ایوبی
قسط نمبر 115
اسلامی دستور کو ناکام بنانے کے لیے اور اسلامی لہر کا راستہ روکنے کے لیے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے سازشیوں نے جو تانا بانا تیار کیا تھا اس کے نتیجے میں حکومت کو کامیابی تو خیر کیا ملنا تھی ؟ مزید رسوائی ان کے گلے پڑ گئی۔ مولانا مودودی رہا ہوکر جیل سے باہر آچکے تھے۔ اگست 1955 میں غلام محمد کے سبکدوش ہوجانے کے بعد اقتدار کے تخت پر اسکندر مرزا کو بحیثیت گورنر جنرل پاکستان بنا کر بٹھایا گیا۔ دو دن کے بعد 11 اگست کو چودھری محمد علی نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھا یا۔یہ 1955ء سے 1956ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ معقول اور دھیمے مزاج کے سیاستدان تھے۔ یہ حکومت مسلم لیگ اور یونائیٹڈ فرنٹ کے الحاق کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ برطانوی راج میں چودھری محمد علی کا شمار اچھے اور اعلیٰ مسلمان سول سرونٹس میں ہوتا تھا۔ چودھری محمد علی نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اس کے بعد 1955ء میں گورنر جنرل اسکندر مرزا نے آپ کو محمد علی بوگرہ کی جگہ پاکستان کا وزیراعظم نامزد کیا۔ چودھری محمد علی کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کے لیے پہلا آئین کی منظوری تھا، جو 1956ء میں نافذ العمل ہوا۔
چودھری محمد علی کے وزیر اعظم بنتے ہی دو ماہ کے اندر اندر سا بق گورنر غلام محمد کا تجویز کردہ منصوبہ ” ون یونٹ ‘ کا بل منظور کرلیا گیا۔
اس لحاظ سے مغربی پاکستان کو صوبے کا درجہ حاصل ہو ا۔ اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں یعنی سندھ ،سرحد ، بنجاب اور بلوچستان کو ضم کرکے ایک یونٹ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس نئے سیٹ اپ میں نواب مشتاق گورمانی مغربی حصے کے پہلے گورنر اور ڈاکٹر خان وزیر اعلی بنائے گئے۔
یہ دونوں نام پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بدنام ترین ناموں میں سے تھے۔ مشتاق گورمانی کے حوالے سے مقتول وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل میں ملوث ہونے کی خبریں ہر ایک کی زبان پر تھیں اسی طرح صوبے کے وزیر اعلی ڈاکٹر خان کی وجہہ شہرت ہندو نواز عبدالغفار خان کے بھائی اور کانگریسی انقلابی شدت پسند رہنما کے طور پر تھی۔ مگر اسکندر مرزا کی دوستی کے سبب وہ اقتدار میں آچکے تھے (اسکندر مرزا جب پشاور کا ڈپٹی کمشنر تھا ڈاکٹر خان اور اس کی دوستی اسی وقت سے تھی )۔ گورنر جنرل اسکندر مرزا بہت شاطر آدمی تھا۔ بقول قدرت اللہ شہاب کے اسکندر مرزا نے اس انقلا بی کانگریسی کو خوش رکھنے کے لیے چند افسران کی خصوصی ڈیوٹی لگائی تھی یہ کہہ کر کہ ” اس کا خاص خیال رکھو ، اس شخص نے ساری عمر جیل میں گزاری ہے یا پولیس کے ڈنڈے کھائے ہیں ہم اسے بڑی مشکل سے گھیر گھار کر حکومت میں لائے ہیں۔اب اسے گڈ۔لائف کا ایسا چسکا لگاؤ کہ وہ اس پنجرے سے با ھر نہ نکل سکے “۔
جماعت اسلامی کے اسلامی دستور کے مطالبے کو بالآخر ایک طویل جدوجہد کے بعد 1956 میں کامیابی مل گئی۔ اسلامی دستور کے مخالفین
قا دیانی اور مغربی لابی اپنی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسلا می دستور کا راستہ روکنے میں ناکام رہی۔ اسلامی دستور کا یہ مسودہ 22 کے مقابلے میں 42 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے پورے ملک میں یوم تشکر منایا گیا۔ اور شکرانے کے نوافل ادا کے گئے۔
قیام پاکستان کے بعد کے دس سال پاکستان میں سیاسی چا لبازیوں اور گٹھ جوڑ کے سال قرار دے جاتے ہیں۔ اس دوران مرکز میں اقتدار کی جو اکھاڑ بچھاڑ ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آزادی حاصل کرنے کے محض دس سالوں کے اندر اندر 1947سے 58 تک اقتدار کی لالچ اور محلاتی سازشوں کی بدولت سات وزیراعظم اپنے گھروں کو لوٹا دئیے گئے۔
خاص طور پر گورنر جنرل ملک غلام محمد کے سبکدوش ہوجانے اور اسکندر مرزا کے گورنر جنرل بن جانے سے نوکر شاہی ( اسٹیبلشمنٹ ) ، عسکری قوتوں اور سول انتظامیہ نے مل کر جس گھناؤنے کھیل کی ابتداء کی وہ اب تک کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے۔ اس کھیل میں کھلاڑی جب سانس پھولنے پر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں تو جمہوریت کے نام پر ٹائم آوٹ لیا جاتا ہے۔
ان دس سالوں میں سول انتظامیہ اور جرنیل طاقت کا اصل محور اور مرکز تھے۔ لیاقت علی خان کے بعد سے ہی امریکا کا اثرورسوخ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اس نے انتخابات میں امریکا مخالف سیاسی رہنما ؤں اور اسلامی عناصر کی کامیابی کے خوف سے اسکندر مرزا اور جنرل ایوب کے ہاتھوں مارشل لاء￿ نافذ کرادیا اور ون یونٹ کے قیام نے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان حائل خلیج کو مزید گہرا کردیا۔
اسکندر مرزا اسلامی دستور کی منظوری کے بعد تو گویا کانٹوں کی سیج پر تھا۔ آئین پاکستان کے حوالے سے مشرقی اور مغربی حصے میں غلط فہمیوں کو پروان چڑھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ اس طرح مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی و جمہوری رشتہ غلط فہمیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
1956 میں مغربی پاکستان میں جوڑ توڑ کے اس کھیل نے ایک نیا سیاسی بحران پیدا کردیا۔ ڈاکٹر خان اسکندر مرزا اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر نئی سیاسی جماعت ” ریپبلکن پارٹی ” کے قیام کا اعلان کیا مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنماء جن میں افتخار ممدوٹ ، قاضی فضل اللہ ، پیرزادہ عبدالستار ، سردار عبدلحمید دستی ، اور مخدوم سید حسن محمود مسلم لیگ کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ڈاکٹر خان کی پارٹی میں شامل ہوکر نئی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں وزیراعلی ابو حسن سرکار نے استعفی دیدیا گورنر مشرقی پاکستان نے اس نئی پیدا ہونے والی صورت حال میں عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ پاکستان کے وزیر اعظم چودھری محمد علی نے مسلم لیگی رہنماؤں کی سیاسی قلابازیوں سے تنگ آکر وزارت عظمی سے استعفیٰ دے دیا اور اسطرح مشرقی پاکستان میں مسٹر حسین شہید سہروردی جو عوامی لیگ اور حکومتی ریپبلکن پارٹی کے مشترکہ امیدوار تھے ، کو وزارت بنانے کی دعوت دے دی گئی۔ سہروردی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے ملک میں دو رنگی کی فضاء کو پروان چڑہانے کے لیے جداگانہ اور مخلوط طریقۂ انتخاب کا بل منظور کروالیا۔ حسین شہید سہروردی کا یہ فیصلہ زبان اور قومیت کی بنیاد پر علیحدگی کی پہلی کڑی ثابت ہوا۔
سیاسی چالبازیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو سیاستدان ون یونٹ کے حق میں لمبی چوڑی تاویلات پیش کرتے تھے ان میں سے اکثر اس کے خلاف ہوگئے۔ وہ حکومت سے ” اپنا حصہ ” وصول کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ اگر پالیسی سے اختلاف ہوتا تو غلام محمد کے زمانے میں ہی اختلاف کرتے جب اس کا منصوبہ بنایا جارہا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ون یونٹ کے قیام کے خلاف تحریک چلانے والوں میں خان عبدالغفار خان ، پیر صاحب ما نکی شریف ، جی ایم سید ، شیخ عبدالمجید ، اور سردار صمد خان شامل تھے۔ مسلم لیگ کے علاوہ کسی بھی پارٹی کی رائے ون یونٹ کے حق میں نہیں تھی۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ مخالفت میں تحریک چلا نے والوں میں وہی سیاستدان شامل تھے جنہوں نے پہلے اس کے حق میں دلائل دئیے تھے۔
مثال کے طور پر صوبہ سرحد کے وزیر اعلی سردار عبدا لرشید پہلے ون یونٹ کے حق میں تھے بعد میں مخالفین کی صف میں شامل ہوگئے۔ جس کی وجہ سے ان کی وزارت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ پنجاب کے وزیر اعلی فیروز خان نون کا بھی یہی معاملہ رہا۔ ان کی وزارت بھی ختم ہوئی۔ سندھ کے پیر علی محمد را شدی بھی پہلے حمایتیوں میں تھے مگر پھر سخت ترین مخالف ہوگئے۔ حسین شہید سہروردی جس زمانے میں وزیر قانون تھے تو ان کی وزارت میں یہ ون یونٹ کا آرڈر گورنر جنرل کے کہنے پر ان کی منظوری سے تیار ہوا تھا۔ مگر بعد میں یہی سب سے بڑے مخالف ہوئے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ رہی ہوگی کہ وہ باوجود خواہش کے وزیر اعظم نہیں بن سکے تھے۔
ون یونٹ کے حوالے سے جماعت اسلامی نے مدلل انداز میں اپنا موقف سامنے رکھا اور جداگانہ طریقۂ انتخاب کی تجویز پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سالانہ اجتماع منعقدہ نومبر 1955 کو مولانا مودودی نے دو ٹوک الفاظ میں اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ” جس مخلوط حکومت کا نظریہ پیش کیا جارہا ہے۔یہ ملک دین کی بنیاد پر قائم ہوا تھا نہ کہ وطنیت کی بنیاد پر۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کس جغرافیائی رو سے ایک وطن ہیں ؟ صرف مذھب ہی اس کی بنیاد ہے۔اگر اس کی بنیاد وطنیت یا قوم پرستی کی بنیاد پر قائم رکھنے کی کوشش کی گئی تو مشرقی پاکستان میں بنگالی نیشنلزم ترقی پائے گا اور آخر کار وہ مغربی پاکستان سے کٹ جائے گا۔مخلوط انتخاب کی حمایت وہی شخص کرسکتا ہے ، جو پاکستان کے ان دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کردینا چاہتا ہے۔ ”
ان سیاسی چالبازیوں اور اسٹبلشمنٹ کے چلائے ہوئے چکروں میں جو سب سے بڑا نقصان ہوا وہ یہ تھا کہ انتظامیہ اور جرنیل سیاست کے منحوس سائے ملک کے اوپر منڈلانے لگے۔ جرنیل اور عسکری ادارے طاقتور ہو تے چلے گئے۔ جو کھیل گورنر جرنیل غلام محمد نے شروع کیا تھا اس کے پیشرو اسکندر مرزا نے اس کو خوب آگے تک پہنچایا۔ داخلی اور خارجی محاذ دونوں پر اسلامی آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی تھیں۔امریکا کا اثرورسوخ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اس نے انتخابات میں امریکا مخالف سیاسی رہنمائوں کی کامیابی کے خوف سے ا سکندر مرزا اور جنرل ایوب کے ہاتھوں مارشل لاء نافذ کرادیا اور اس طرح مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی و جمہوری رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔
حوالہ جات : جہد مسلسل ؛ مرتب۔محمود عالم صدیقی
شہاب نامہ : قدرت اللہ شہاب
(جاری ہے )

حصہ