اپنی ثقافت کو اپنائیں

190

اسما ء اشفاق
آج کے تیز رفتار دور میں ہم کم ہی وقت نکالتے ہیں اپنی ثقافت‘ اپنے ملک کے ہیروز سے اپنی نسل کو آگاہی دینے کے لیے ایسے ماحول میں جب کہ میڈیا پڑوسی ممالک کے کلچر کو نشر کرکی ہماری نئی نسل کے اذہان پر سوار کرنے کی پوری کوشش کا جال بُنے ہوئے ہے۔ بچوں کے پروگرام ہی دیکھ لیں۔ صرف چند سال قبل بچوں کے تفریحی پروگرامات میں آنگن آنگن تارے‘ ہماری شام‘ عینک والا جن اور کڈز کلب وغیرہ نشر کیے جاتے تھے مگر اب جہاں بڑوں کے لیے مارننگ شوز میں کہیں شادیاں ارینج کرکے ہفتوں مہندی‘ مایوں جیسی لغویات میں وقت ضائع کیا جارہا ہے وہیں اب ڈانس کے مقابلے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مائیں جب اپنا وقت ان لغویات کی نذر کردیں اور ہماری نئی نسل انڈین کلچر اور اسی کی زبان جو کارٹونز کے ذریعے منتقل کی جارہی ہے‘ میں اپنی پہچان کھو بیٹھے اس وقت تمام مائوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ وہ ایسے پروگراموں سے اپنے بچوں کو بچائیں اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر رات کو سوتے وقت یا پھر دن میں کسی فارغ وقت اپنے ملک و قوم اور اسلامی ہیروز کی زندگیوں کے واقعات سنایا کریں تاکہ جہاں ایک طرف ان کی دل چسپی کے مثبت مواقع ہوں وہیں ان کی زندگی میں بہترین مسلمان بننے کے لیے رہنمائی ملے جیسے قائد اعظم محمد علی جناح کی وطن کے حصول کے لیے جو اسلامی ریاست نہیں تھی انگلستان میں اعلیٰ قیام رد کرکے برصغیر میں مستقل قیام کرنا۔ علامہ محمد اقبال کی علم کی شمع سے محبت اور نوجوانوں میں ان کے مقصد کی تڑپ پیدا کرنا‘ دنیا کے نقشے پر نہایت کم عمری محض سترہ سال میں ایک فاتح لیڈر کی حیثیت سے ابھرنے والے محمد بن قاسم‘ نو سال کی عمر میں شوقِ شہادت رکھنے والے کہ ایڑیاں اونچی کرکے کھڑے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ، ہمارے پیارے نبی پاکؐ کی صادق و امین کی ایسی صفت کہ دشمن بھی اقرار کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایک طرف غارِ حرا کا ذوقِ عبادت تو دوسری طرف اللہ کا حکم آنے پر لوگوں کو خبردار کرنے کی تڑپ میں طائف کے مظالم برداشت کرنا اور مسلسل جدوجہد کی زندگی اختیار کرنا جیسے واقعات سنائیں تاکہ وہ مستقبل میں اچھے انسان اور اچھے مسلمان کا کردار ادا کرکے اسلامی معاشرے کی تکمیل کا حصہ بنیں اور اپنی زندگی میں قیمتی اوقات کو جو سیکھنے کا بہترین وقت ہوتا ہے‘ غیر اسلامی روایات و کلچر سیکھنے کی نذر نہ کریں۔

حصہ