اخبارِ ادب

281

ڈاکٹر نثار احمد نثار
آزاد خیال ادبی فورم کے تحت کے ۔ ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں ممتاز شاعر و ماہر تعلیم سید علی جبرائیل کے لیے تعزیتی ریفرنس اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ حیات رضوی امروہوی نے صدارت کی، سرور جاوید نے نظامتی فریضہ کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی سید علی جبرائیل مرحوم کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج سے 40سال قبل، کسی بات پر ناراض ہو کے گھر سے چلے گئے تھے میری ان سے ملاقات 40سال بعد ہوئی تھی جب وہ خیام قادری کے مشاعرے میں اپنی غزل سنا رہے تھے اس کے بعد میں نے ان کی منت سماجت کی اور وہ بڑی مشکل سے میری بہن کے گھر مارٹن کوارٹر شفٹ ہوگئے۔ انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی وہ ٹریڈ یونین میں تھے لیڈری کرتے تھے۔ وہ ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ فیکٹری مالکان کے نازیبا رویوں کے خلاف احتجاج کرتے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں ملازمت سے فارغ کردیا جاتاتھا انہوں نے ٹیوشن پڑھائی اور غربت میں زندگی گزاری وہ بہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ان کی شاعری بہت اچھی تھی وہ گزشتہ پانچ برسوں سے اپنی بہن کے گھر رہ رہے تھے وہیں ان کا انتقال ہوا، ان کے اشعار بہت مضبوط ہیں انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی وہ لابنگ کے آدمی نہیں تھے اپنی ذات میں مگن رہتے تھے ان کا زیادہ تر وقت نیو کراچی میں گزرا ہے ان کا کلام منظر عام پر نہیں آسکا۔ اس موقع پر سرور جاوید نے اعلان کیا کہ وہ بہت جلد سید علی جبرائیل کی شاعری کو کتابی شکل دیں گے۔ اس تعزیتی اجلاس میں شمس الغنی، حیات رضوی امروہوی ، حامد علی سید، احتساب عامراور علی اوسط جعفری نے بھی سید علی جبرائیل کو خراج عقیدت پیش کیا ان تمام حضرات کا کہنا تھا کہ سید علی جبرائیل ایک پختہ کار شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں جدید لفظیات کے ساتھ ساتھ غزل کے روایتی مضامین بھی نظر آتے ہیں وہ طرحی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے تھے ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی تھی وہ اپنے ارد گرد کے مناظر کو بڑی خوب صورتی سے نظم میں ڈھال دیتے تھے وہ بے حد حساس تھے انہوں نے صاف ستھری زندگی گزاری۔ ان کے بارے میں آج تک کسی نے منفی ریمارکس نہیں دیے۔ ان کی خود ارادیت کا یہ عالم تھا کہ وہ بھوکا رہنا پسند کرتے تھے لیکن کسی کے سامنے اپنی بھوک کا اظہار نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کے آگے دستِ طلب دراز کرتے تھے۔ وہ خاموش طبع انسان تھے ان کے اشعاروں میں تازہ کاری اور انفرادیت ہے۔ ہمیں ان کی کمی کا احساس ہے باالفاظ دیگر ہم ایک شاعر سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں شعری نشست ہوئی جس میں حیات رضوی امروہوی، سرور جاوید، علی اوسط جعفری، راقم الحروف، شمش الغنی، سخاوت علی نادر، قاضی دانش، احتساب عامر، حامد علی سید اور دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
٭٭٭
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو علم دوست شخصیت ہیں اور شاعر بھی ہیں وہ اپنے دفتر میں ہر ہفتے ایک پروگرام منعقد کرتے ہیں جس میں پہلے مذاکرہ ہوتا ہے پھر شعری نشست! اسی تناظر میں انہوں نے سابق چیئرمین، اکادمی ادبیات پاکستان، سندھی ادب کے معروف ادیب، غلام ربانی آگرو کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام کیا۔ عرفان عابدی نے صدارت کی۔ پروین حیدر اور نجیب عمر، مہمانان خصوصی تھے، قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحب صدر نے کہا کہ غلام ربانی آگرو نے اپنے زمانے میں پاکستان کی تمام زبان و ادب کے فروغ کے لیے قابل قدر خدمات انجام دی تھںی وہ ایک ذہین انسان تھے۔ معاشرتی رویوں پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ سندھی ادب کے نامور دانشور تھے لیکن انہیں اردو سے بھی محبت تھی وہ قلم کاروں کے مسائل کے حل میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ غلام ربانی آگرو بہت اہم شخصیت تھے وہ ابدی طور پر بلند قامت انسان تھے انہوں نے اکیڈمی ادبیات پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے قابل ستائش اقدام سر انجام دیے فروغ علم و ادب ان کی زندگی کا محور تھا وہ منکسر المزاج انسا تھے ۔ چھوٹوں سے پیار کرتے تھے اور بڑوں کی عزت کرنا ان کا شعار تھا ان کی تحریریں سندھی ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ اس مشاعرے میں عرفان عابدی، پروین حیدر، نجیب عمر، قادر بخش سومرو، غازی بھوپالی، اقبال افسر غوری، سجاد احمد، سید مٹھل شاہ، صدیق رضا، طاہر سلیم سوز، شگفتہ شفیق، قمر جہاں قمر، روبینہ ممتاز روبی، زیب النساء زیبی، عشرت حبیب، ڈاکٹر لبنیٰ عکس، صبیحہ صبا، دلشان احمد دہلوی، محمد رفیق مغل، اسلم بھٹی، سید صغیر احمد، ڈاکٹر رب نواز، عارف شیخ، تاج علی رانا، اوسط جعفری، مشرف رضوی، عمران سعید، زینت لاکھانی، شاہد الیاس اور تنویر سخن نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
٭٭٭
سلام گزار ادبی فورم، ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جو کہ پاکستان کے کئی اہم شہروں میں رثائی ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہے ان کے مشاعرے طرحی ردیف کے مطابق ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی غیر طرحی مشاعرے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اس تنظیم کے روح رواں مقبول زیدی ہیں ۔ اس مہینے جو طرحی مشاعرے اصغر علی سید کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا اس کی ردیف ’’ دریا‘‘ تھی۔ اس مشاعرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کرنی تھی جو کہ اپنی علالت کے سبب مشاعرے میں نہیں آسکے لہٰذا عقیل عباس جعفری نے صدارت کی، مجید راجپوت مہمان خصوصی تھے۔ افتخار حیدر نے نظامت کی۔ دانیال علی زیدی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی، نقی لاہوتی اور دیگر نے نعت رسول مقبولؐ اور سلام پیش کیے۔ اس موقع پر جن شعرا نے حضرت امام حسینؓ کو سلام پیش کیے ان میں صاحب صدر، مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرے کے علاوہ اصغر علی سید، مقبول زیدی، رانا خالد محمود قیصر، محسن رضا، حنیف عابد، مصطفی کاظمی، ذوالفقار پرواز، شارق رشید، عدنان عکس، اخلاق احمد درپن، جمیل ادیب سید، پرویز نقوی، خمار زیدی، کشور عدیل جعفری، رفیق عباس جعفری، شاعر حسین شاعر اور حجاب فاطمہ شامل تھے۔ اس مشاعرے کے حوالے سے مقبول زیدی نے راقم الحروف کو بتایاکہ رثائی ادب میں سلام کی صنف، خصوصی اہمیت کی حامل ہے شعراء کرام اپنے اشعار میں حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ واقعات کربلا بھی نظم کرتے ہیں انسانی تاریخ میں کربلا کا واقعہ، ناقابل فراموش تاریخ ہے امام حسین نے اور ان کے ساتھیوں نے جس جرأت مندی کے ساتھ اپنی جانیں قربان کیں اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم سچائی کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ ذکر حسین ؓ ہماری اسلامی روایات کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو شعاعری کابہت بڑا حصہ رثائی ادب پر مشتمل ہے ۔ برصغیر کے شعرا نے رثائی ادب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔
٭٭٭
جماعت اسلامی، اولڈ سٹی ایریا کراچی کے زیر اہتمام 9دسمبر2017ء کو عید گاہ پٹھان مسجد موسیٰ لائن کراچی میں نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت اعجاز رحمانی نے کی۔ سید عبدالرشید، نجیب ایوبی، قمر وارثی اور اجمل سراج، مہمانان اعزازی تھے۔ جب کہ جہانگیر خاں نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اور خطبۂ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی زون اولڈ سٹی کراچی ہر سال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوئوں کی ترویج و اشاعت کے لیے سیرت کانفرنس اور نعتیہ مشاعرے کا انعقاد کرتی ہے یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ مزید برآں یہ کہ جماعت اسلامی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کی حامی ہے اس سلسلے میں سیاسی و عملی جدوجہد جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے ہم جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل کرتے رہے ہم کامیاب رہے ہم مسلمان ہیں اور نعت لکھنا ہمارے لیے باعث ثواب ہے تاہم غیر مسلم شعراء نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتیں لکھی ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے۔ امیر جماعت اسلامی ضلع جنوبی عبدالرشید نے کلمات تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کی روح پرور محفل میں بہت اچھی اچھی نعتیں پیش کی گئیں۔ نعتیہ مشاعرہ زونل کمیٹی کے تحت ہر سال ہوتا ہے ہماری دعوت پر ہمارے شعرا طویل فاصلے طے کر کے یہاں آتے ہیںمیں تمام شعراء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں ان کا ممنون و شکر گزار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نعتیں قبول فرمائے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم جماعت اسلامی کے ہر زون میں سیرت کانفرنس/ نعتیہ مشاعرے شروع کریں انہوں نے مزید کہا کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے تمام مسائل کا حل ہے اگر پاکستان میں مدینہ طیبہ جیسی حکومت قائم ہو جائے تو ہمیں یقین ہے کہ پاکستان ترقی کرے گا۔کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا ، امن و امان قائم ہوگا۔ انہوں نے اس موقع پر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کئی اہم واقعات بھی پیش کیے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسوۂ رسولؐ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں آج کے نعتیہ مشاعرے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں پر اشعار کی شکل میں خراج تحسین پیش کریں کیوں کہ نعت لکھنا، نعت کہنا اور نعت پڑھنا باعث نجات و ثواب ہے تاہم نعت کہنے کے لیے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ بہت ضروری ہے اس صنف سخن میں جھوٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ اجمل سراج نے اپنا نعتیہ کلام سنانے سے قبل کہا کہ ایک زمانہ میں نعتیہ مشاعروں میں صدر، مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کا سلسلہ نہیں ہوتاتھا تاہم سینئر شاعر آخری شاعر کے طورپر کلام سناتاتھا ۔ اب یہ صورت حال ہے کہ نعتیہ مشاعروں میں بھی بہاریہ مشاعروں کی طرح صدر، مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی بنائے جارہے ہیں۔ اس موقع پر اجمل سراج نے اپنے مقام پر کلام سنایا۔ اس مشاعرے کے انتظامات قابل تعریف حد تک بہترتھے لیکن تقدیم و تاخیر کے مسائل موجود تھے ناظم مشاعرہ کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ کس شاعر کو کہاں پڑھوانا ہے۔ مشاعرے کے آرگنائزر سید طاہر اکبر، امیر جماعت اسلامی زون اولڈ سٹی کراچی تھے۔ ہر شخص نے ان کے حسن انتظام کی تعریف کی۔ شعراء کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں، عشائیہ بھی دیاگیا، کستوری دودھ اور چائے سے تواقع بھی کی گئی۔ مشاعرے میں سامعین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو کھل کر ہر شاعر کو داد دے رہے تھے۔ وہ سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بھی لگا رہے تھے۔ اس پروگرام میں جن شعراء نے نعتیہ کلام پیش کیا ان میں اعجاز رحمانی، قمر وارثی، راشد نور، عبدالوحید تاج، اختر سعیدی، اجمل سراج، راقم الحروف، عبدالمجید محور، جمال احمد جمال، صفدر علی انشاء، آس سطانی، شارق رشید، صاحبزادہ عتیق الرحمن، نجیب ایوبی، زاہد عباس، الحاج نجمی، نعیم الدین نعیم، صدیق راز ایڈوکیٹ اور اکرم راضی شامل تھے۔
٭٭٭
7دسمبر 2017ء کو نیازمندان کراچی کے تعاون سے ایوان ادب کے زیر اہتمام شاہدہ عروج کی رہائش گاہ پرمحسن اعظم ملیح آبادی کی زیر صدارت مشاعرہ منعقد ہوا۔ عقیل اشرف (برطانیہ)، رفیع الدین راز(امریکا) مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانان اعزازی، یشب تمنا (برطانیہ)، پروفیسر رضیہ سبحان (امریکا)، رضوان صدیقی اور فاروق ساگر( برطانیہ) تھے۔ راقم الحروف نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یاسر صدیقی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی سعد الدین سعد نے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔ نیازمندانِ کراچی کے روح رواں رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ میں کہاکہ میرے نزدیک کراچی میں اچھا ادب تخلیق کیا جارہا ہے۔ دبستان لکھنو، دبستان دہلی اور بھارت کے دیگر شہروں سے ہجرت کر کے آنے والے قلم کاروں نے کراچی کے ادبی منظرنامے کو چار چاند لگائے ہیں یہ شہر اردو زبان و ادب کے محافظوں کا شہر ہے۔ جب تک ہم زندہ ہیں اردو کی خدمت کرتے ہیں۔ اس کے فروغ کے لیے کام کرنا ہماری زندگی کا منشور ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہدہ عروج، افسانہ نگار بھی ہیں اور شاعرہ بھی۔ یہ شعر و ادب کی ترویج و ترقی میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں ۔ اس موقع پر رونق حیات نے جوش ملیح آبادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتاتو آج ہر طرف جوش ملیح آبادی کے گن گائے جارہے ہوتے۔ مقام افسوس ہے کہ ان کے 123واں یوم پیدائش کے موقع پر کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا گیا۔ لہٰذا ہم آج کے اس مشاعرے کو جوش ملیح آبادی کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ ایوان ادب کی کنوینر شاہدہ عروج نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کے میدا ن میں بھی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اس وقت کراچی میں شاعرات کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے یہ ایک اچھا پیغام ہے کہ صنف نازک ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایوان ادب کے تحت ہر مہینے ایک شعری نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ وہ ایک سامع کی حیثیت سے مشاعروں میں شریک ہوئے ہیں تاہم انہوں نے بڑے بڑے مشاعرے آرگنائز کیے ہیں لیکن اب مشاعرے، گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ سامعین ہم سے روٹھ گئے ہیں ۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ انہوں نے عقیل اشرف کی خدمات کا اعتراف کیا اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حامد میاں کے یہاں کا پروگرام عقیل اشرف کے کہنے پر لکھا تھا ، خدا کا شکر ہے کہ وہ پروگرام بہت کامیاب رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑے بڑے مشاعروں میں لوگ ہر شاعر کو توجہ سے نہیں سنتے لیکن چھوٹی چھوٹی گھریلو نشستوں میں ہر ایک کا کلام پورے انہماک سے سنا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بڑے مشاعروں میں شعراء اپنا وہ کلام سناتے ہیں جس پر انہیں داد مل چکی ہوتی ہے وہ کوئی نیا کلام سنانے کا رسک نہیں لیتے تاہم گھریلو نشستوں میں وہ تازہ کلام سنا کر اندازہ لگاتے ہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور وہ کس حد تک کامیاب نشست ہے جس کا کریڈیٹ شاہدہ عروج اور رونق حیات کو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ اب یہ زبان انٹرنیشنل زبان بن چکی ہے ۔ اردو ادب کے سرمایے میں دن بہ دن اضافہ ہو رہاہے۔ فی زمانہ اس زبان میں نئے نئے استعارے اور تلمیحات شامل ہو رہی ہیں۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر، مہمانان خصوصی اور ناظم نسیم نازش، خالد محمود، سلمان صدیقی، سحر علی، رانا خالد محمود ، تبسم صدیقی، ضیا شاہد، عرفان عابدی، سعد الدین سعد، زیب النساء زیبی، تزئین راز زیدی، تنویر سخن، ڈاکٹر لبنیٰ عکس، فرخ اظہار، مشرف رضوی، سلیم حامد، یاسر صدیقی اور شاہدہ عروج نے اپنا اپنا کلام نذر ِ سامعین کیا۔

حصہ