بیت المقدس کی آبادی‘یثرب کی ویرانی

406

اوریا مقبول جان
پوری دنیا خصوصاً پاکستان کا لبرل، سیکولر اور مغرب زدہ بددیانت دانش ور طبقہ جب آج کے دور کے مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے، انہیں احساسِ کمتری کے اندھے کنویں میں دھکیلنا چاہتا ہے تو ان کے سامنے یہودی اور خصوصاً اسرائیلی سائنس دانوں، موجدوں، محققوں، ادیبوں اور عالمی سطح کے دانشوروںکی ایک فہرست پیش کرتا ہے، جن میں لاتعداد ایسے ہوتے ہیں جنہیں نوبل پرائز جیسے عالمی انعامات ملے ہوتے ہیں، اور پھر پوری مسلمان امت کو شرم دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ تم اس قوم سے لڑنے جارہے ہو، تم میں ہمت ہے ان کا مقابلہ کرنے کی! تم ایک محتاج اور محکوم امت ہو، اس لیے تم خاموشی سے اپنی شکست تسلیم کرلو۔ یہ بددیانت دانشور طبقہ اس مسلمان امت کو یہ نہیں بتاتا کہ اس یہودی قوم کو یہ عروج اُس دن سے حاصل ہونا شروع ہوا جب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہم ایک خدا، ایک تورات، ایک شریعت کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ ہم میں سے کوئی جرمنی میں رہتا ہو یا امریکا میں، نائجیریا میں ہو یا فلپائن میں، وہ ایک قوم ہے اور اس کا اُس ملک سے محبت کا کوئی رشتہ نہیں ہے، بلکہ اسے اس بات پر کامل ایمان اور مکمل یقین رکھنا چاہیے کہ اسے ایک دن اس ارضِ مقدس یروشلم میں لوٹنا ہے جہاں ان کا مسیحا آئے گا اور وہ ان کے لیے حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ جیسی عالمی حکومت قائم کرے گا۔ اس یقین و ایمان کے ساتھ وہ اس بات کے لیے بھی مسلسل تیاری کررہے ہیں کہ انہیں اس عالمی حکومت کے قیام کے لیے مسلمانوں سے ایک بہت بڑی عالمی جنگ لڑنی ہے۔
یہ تصور جس دن سے ان کے دماغوں میں راسخ ہوا اور انہوں نے بحیثیت قوم اس پر یقین کرتے ہوئے عملدرآمد شروع کیا، اس کے بعد ان کی ترقی کی منزلیں طے کرنے کی رفتار ناقابلِ یقین حد تک تیز ہوگئی۔ اس کے بعد سے آج تک انہوں نے اس عالمی حکومت کے قیام کے عقیدے کے راستے میں آنے والے ہر سیکولر، لبرل اور آزاد خیال، روشن خیال، نام نہاد مذہبی اسکالر کو اپنے ہاں پنپنے نہیں دیا۔ ان کے ہاں کوئی مرزا غلام احمد کی طرح جھوٹا مسیحا بن کر نہیں ابھرا، اور نہ ہی ان میں غلام احمد پرویز اور جاوید غامدی جیسے اسکالروں نے عزت حاصل کی جو دلیلوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسیحا کی آمد کا تصور ایک جھوٹ ہے اور یہ یہودیوں کو بے عمل بنانے کی ایک سازش ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ انہیں باعمل بنایا ہی اس تصور نے ہے کہ ایک دن ان کا مسیحا آئے گا اور عالمی حکومت قائم کرے گا۔
تقریباً دو ہزار سال کی غلامی اور بدترین ذلت اور محکومی کی زندگی گزارتے ہوئے یہ قوم ایک معاشرتی لعنت بن چکی تھی۔ ہر کوئی ان سے نفرت کرتا، انہیں اپنے شہروں سے دربدر کرتا، علیحدہ لباس پہننے اور گلے میں شناخت کے لیے تختی لٹکانے کو کہا جاتا۔ ملکوں ملکوں بکھری یہ ذلیل و رسوا قوم 1896ء میں ایک جگہ اکٹھا ہوئی اور انہوں نے اس تصور کے مطابق آگے بڑھنے کا ارادہ کیا جو ان کی مذہبی کتابوں میں درج تھا کہ تمہارا مسیحا آئے گا اور پھر تم یروشلم سے پوری دنیا پر حکومت کرو گے۔ آئندہ آنے والے برسوں کے لیے انہوں نے ایک ہدایت نامہ ترتیب دیا جسے Protocols of the Elders of Zion (صہیونیت کے بزرگوں کا مسودہ) کہتے ہیں۔ اس کے ٹھیک گیارہ سال بعد انہوں نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے پوری دنیا کی قوموں سے یہ بات منوا لی کہ دنیا بھر میں بسنے والے تمام یہودی ایک قوم ہیں، خواہ وہ کوئی زبان بولتے ہوں یا کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کو ارضِ فلسطین میں آباد ہونے کا حق حاصل ہے۔
9 نومبر 1914ء کو برطانوی کابینہ میں پہلی دفعہ صہیونیت اور پروٹوکول زیر بحث آئے اور چار دن بعد انہوں نے خلافتِ عثمانیہ سے جنگ کا اعلان کردیا۔
21 جنوری 1915ء کو برطانوی کابینہ میں ہربرٹ سیموئل کا میمورنڈم ’’فلسطین کا مستقبل‘‘ پیش ہوا۔ اس کے بعد جدید بینکاری اور سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ترین یہودی ستون لارڈ روتھ شیلڈ (Rothschild) نے 12 جولائی 1917ء کو پہلا ڈرافٹ تحریر کیا۔ اگست میں بالفور نے چند لفظوں کی تبدیلی کی، وہ بھی گرائمر کی حد تک، اور پھر یہ الفاظ تاریخ میں گونجے کہ ’’برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی مادرِ وطن کے قیام میں تمام کوششیں صرف کرے گی اور دنیا بھر میں بسنے والے یہودیوں کو ایک قوم تصور کرتے ہوئے وہاں بسنے کا حق ہوگا۔‘‘
اس کے بعد 1919ء میں پہلا یہودی قافلہ لندن، پیرس، برلن اور نیویارک جیسے ماڈرن شہروں میں اپنی اربوں ڈالر کی جائدادیں اور کاروبار چھوڑ کر بحرِ طبریہ عبور کرکے حیفہ اور تل ابیب کے ریگستان میں جاکر آباد ہونے کے لیے پہنچا، اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ وہ وہاں کسی پُرتعیش زندگی گزارنے، سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی اور علم کی پیاس بجھانے نہیں آئے بلکہ ایک سو سال سے ایک بڑی عالمی جنگ لڑنے کے لیے آرہے ہیں جو انہیں مسلمانوں سے لڑنی ہے، اور پھر ایک ایسی سلطنت قائم کرنی ہے جو فرات کے ساحلوں تک ہوگی جس میں اردن، شام، قطر، بحرین، کویت، یو اے ای، یمن اور مدینہ تک آئیں گے۔ ہر یہودی یہ خواب دیکھتا ہے اور اس کے لیے گھر بار چھوڑ کر اسرائیل آجاتا ہے، یا پھر جہاں کہیں بھی ہے، اپنی دولت سے خطیر حصہ اس اسرائیل کی ترقی کے لیے بھیجتا ہے، اس کے اسلحہ کی خریداری کے لیے اور اس کی معاشی بہتری کے لیے۔ 31 سال کے بعد مغرب نے انہیں حیفہ اور تل ابیب کے ریگستانی علاقے پر مشتمل ملک 1948ء میں بنا کر دے دیا، اور اپنے قیام کے پہلے 19 سال انہوں نے ہمسایہ عربوں سے مسلسل جنگ جاری رکھی اور 1967ء میں یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک مشرق وسطیٰ میں امن نہ آسکا۔ بالفور ڈیکلریشن کے ٹھیک سو سال بعد آج ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ اس کے بعد وہی ہوگا جو بالفور ڈیکلریشن کے بعد ہوا کہ پہلے فرانس اور پھر تمام عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے تصور کی حمایت کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ آج کا دن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردار کرنے والی اس حدیث میں بتائی گئی پیش گوئی کے آغاز کا دن ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’بیت المقدس کی آبادی اور مدینہ (یثرب) کی ویرانی بڑی جنگ کا ظہور ہے‘‘ (ابودائود، مسند احمد، طبرانی، مستدرک، مصنف ابن ابی شیبہ)۔ تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں یہ درج ہے اور اسے حسن حدیث مانا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم حدیث ہے جو آخر الزمان کے واقعات کی ترتیب بتاتی ہے، جو دجال کے خروج تک جا پہنچتی ہے۔ اس وقت میں حرم کعبہ میں موجود ہوں جہاں ہزاروں لوگ کعبہ کا طواف کررہے ہیں، لیکن ان میں شاید ہی کوئی یہ احساس کررہا ہو کہ بربادی ان کے سروں پر آپہنچی ہے۔ یہ تصور کہ آخرالزمان میں ایک یہودی عالمی حکومت بنے گی، اس نے یہودیوں کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ وہ آج مرکزِ قوت و اقتدار ہیں اور میرے ملک کا دانشور اس قوم کو آج بھی درس دے رہا ہے کہ کسی مسیحا کا انتظار ایک افیون ہے جو قوم کو ناکارہ اور بے کار بنادیتی ہے۔

حصہ