سوشل میڈیا رائونڈ اپ…یروشلم‘ ٹرمپ‘عالم اسلام

375

سوشل میڈیا پر گذشتہ ہفتہ اسلام آباد اور پھر لاہوردھرنوں کی گونج کے بعد اس ہفتے کا آغازکراچی میں ایک نوجوان کے بہیمانہ قتل پر اُس کو انصاف دلانے سے شروع ہوا۔اس دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ایک اور متنازعہ بیان پر مبنی پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرائی گئی تاکہ مخصوص سیاسی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔ویسے یہ سوشل میڈیا بھی اب اس طرح کے مقاصد کے لیے استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے ۔انہی دنوں یہ خبر بھی اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنی کے مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا کنٹرول اپنی نگرانی میں لیاہے۔ان سب میں اہم ترین معاملہ امریکی صدر کے بیان سے ابھرا۔ موصوف دنیا بھر میں ایک بار پھر اپنے متنازعہ پالیسی بیانات و اعلانات کی وجہ شہرت رکھتے ہیں ۔امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے حامیان اور مخالفین کے جانب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سخت جنگ بھی شروع ہوئی جو تاحال اپنا ’اسکیل ‘بڑھاتی جا رہی ہے ۔
بات شروع کرتے ہیں کراچی سے جہاں ’ظافر‘نامی اُس 18سالہ نوجوان ( کچھ جگہ 24سال بھی رپورٹ ہوا ہے) کے لرزہ خیز قتل کی واردات ہوئی ۔گذشتہ اتوار کی صبح کراچی کے ساحل سمندر کے مشہور فوڈ اسپاٹ ’’دو دریا ‘‘پر یہ واقعہ ہوا۔ظافر نامی اس نوجوان کے قتل کے بعد اُس کو انصاف دلوانے کی خاطر سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے خوب شور مچایا۔’وی وانٹ جسٹس ‘(ہمیں انصاف چاہیے اورRIP Zafir کا ہیش ٹیگ تیزی سے وائرل ہوا ۔ ایک مقامی چینل کے رپورٹرنے جو شاید وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچا تھا ، پولیس اور کچھ مبینہ ملزمان کے ساتھ ہونے والی مڈبھیڑ پر مبنی موبائل ویڈیو شیئر کرائی تو ایشو کو مزید ہوا ملی۔پھر کیا تھا پولیس نے ایسی پھرتی دکھائی کہ فائرنگ کرنے والے 4ملزمان کو دو دن کے اندر گرفتار کر لیا گیا۔اس معاملے میں کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت نہیں تھی اس لیے اس ایشو کو اور عمومی ہوا ملی اور مرحوم ’ظافر‘ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ میں پہنچ گیا۔اس ضمن میں ہمارے نوجوان دوست اور معروف مقرر محمد عطیب نے اس کیس کو فالو کرتے ہوئے اور مستقل اپڈیٹ رکھنے کا کلیدی کام انجام دیا۔’مقتول کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے ۔‘’ ایک اور شاہ رخ جتوئی ۔وڈیرے کا بیٹا ‘۔’آواز اٹھانا ہم پر فرض ہے ۔‘’قتل کرنے کا حق کسی کو نہیںاس لیے آواز اٹھاؤ۔‘’’بگڑے امیرزادوں اپنی اوقات میں آجائو ظافر کے قاتلوں کے لیے پیغام ..!‘
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی تھی آستین
اُس کو خبر نہیں کہ لہوبولتا بھی ہے
جیسے مختصر ٹوئیٹ اور اسٹیٹس کی بھرمار ہو گئی ۔
مزید یہ ہوا کہ پولیس کی تحویل میں ایک مرکزی ملزم ’خاور برنی‘ جس نے فائرنگ کی تھی اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے (تفتیشی افسر) کے سامنے جو بیان ریکارڈ کرایا وہ بھی سوشل میڈیا پر پہنچ گیا۔بس پھر کیا ہو سکتا تھا آپ سوچ لیں۔ ایسا نہیں کہ یکطرفہ معاملہ چلا ، گرفتار ملزم کے چاہنے والوںنے بھی دکان سجا ڈالی ’وی اسٹینڈ فار خاور برنی‘ کے عنوان سے پیج بنا کر غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی گئی۔
کئی بلاگ ، نیوز سائٹس نے اس ایشو پر خوب مصالحہ لگا کر توجہ لی۔صوبائی وزیر داخلہ نے مرحوم بچے کے گھر جا کر تعزیت کی۔کئی بڑے ٹی وی ٹاک شو کا موضوع بھی بن گیا۔اہم بات یہ بھی ہے کہ اس واقعہ سے چند دنوں قبل ہی اسی طرح کے ایک اور نوجوان کے قتل کے کیس میں نامزد مجرموں کی سزا ئیں سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے کر از سر نو سماعت کے لیے سیشن کورٹ کیس منتقل کر دیا۔یہ کیس پاکستان میں ’شاہ زیب مرڈر کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ، جس کے تمام ملزمان گرفتار ہوئے اور عدالت سے سخت ترین سزائیں بھی ملیں ، پانچ سال سے ’ایک طرح کی قید ‘میں تھے مگر با اثر والدین نے طاقت اور پیسے کا جو ’استعمال ‘ کیا جا سکتا تھا وہ کیا۔البتہ یہ بات اپنی جگہ قائم رہی گی کہ اس کیس میں ملزمان کو قانون کے دائرے میں لانے میں بھی سوشل میڈیا کے اس ’اوزار‘نے بڑا موثر ابلاغی کام انجام دیا۔اس واقعے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر بحث شروع ہو گئی تھی، جس میں سندھ کے طاقتور جاگیرداروں اور اشرافیہ کے جرائم کی جواب داری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔یہی معاملہ اس بار بھی رہااور ظافرکی تصویر کے ساتھ خوب ہیش ٹیگ ، لائکنگ اور شیئرنگ نے گویا سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا۔ویسے لگتا یہ ہے کہ اب ملزمان کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ جیب میں پیسہ ہو تو گرفتاری دینے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔
بات ویڈیو کی شروع ہوئی ہے ، اسمارٹ فون نے زندگی میں سکون نام کی چیز کو ختم کر دیا ہے اس پر تمام ڈاکٹرز ، ماہرین اعصاب و دماغ کا مکمل اجماع ہو چکا ہے ۔میڈیا پرہم وقتاً فوقتاً بات کر رہے ہوتے ہیں اسی سے ملتے جلتے موضوع پر اِس وقت ہمارے مقامی چینل سے ایک قسط وار ڈرامہ جاری ہے جس میں ایک خاتون کا موبائل چھن جاتا ہے ، جسمیں اُنکی اپنی ’انتہائی نجی ویڈیو ‘ موجود تھی ، جو بعدمیں وائرل ہو کر اُن کی زندگی تباہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔اب چلتے ہیں ایک اور تازہ اور ممکنہ وائرل ویڈیو کی جانب جو کہ ابھی تو موضوع نہیں بنی مگر اُس کے تیور اچھے نہیں ۔ویڈیو تو ہمارے ایک بڑے نیوزچینل پر نشر ہو چکی ہے جس میں پشاور کی ایک جامعہ ( بے نظیر یونیورسٹی)میںایک طالبہ مکمل باحجاب حالت میں ایک خاص رقص (بیلے ڈانس) عوام کے سامنے پیش کر ر ہی ہیں ۔ویڈیو کے اجراء کو ایک ہی دن ہوا ہے مگر اس کے خدو خال بتا رہے ہیں کہ یہ ضرور ’دما دم مست قلندر ‘کرے گی۔اسی طرح ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خاصی بحث کا موجب بنی ،جسے کسی شرارت کے تحت ہی پھیلایا گیا تھا۔ویڈیو کئی سال قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کسی نجی محفل میں گفتگو کی تھی ۔اس گفتگو میں انہوں نے اپنی ماضی میں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد سے کہی ہوئی ایک بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’’زیادہ تر جو داڑھی والے سیاست کرتے ہیں اُن میں 80فیصد دو نمبر ہیں اور 20فیصد پر مجھے شک ہے ۔‘‘بس اس جملہ کو ایک خاص منصوبے کے ساتھ سوشل میڈیا پر اتارا گیا اور اس ضمن میں خوب بھڑاس نکالی گئی ۔مذمت ، شعائر اللہ کی توہین ، جہالت، معافی کا مطالبہ، کسی نے مہاتما نیازی کا لقب دیا تو کئی لوگ داڑھی کے فضائل یا د دلاتے نظر آئے ، یہ ٹریفک بھی یکطرفہ نہیں تھاعمران خان ، تحریک انصاف کی ٹیم بھی اپنے قائد کے دفاع میں اتری رہی ۔
امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ، اس حوالے سے بھی معروف ہیں کہ سوشل میڈیا پراُن کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہونے والی ٹوئیٹس پورے امریکی معاشرے پر تو گہرے سیاسی، سماجی، معاشی اثرات مرتب کرتی ہیں اور بالعموم دنیا بھر میں ہلچل مچادیتی ہیں ۔امریکہ کے 45ویں صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ بنام’ پریزیڈنٹ ٹرمپ ‘ پر اس وقت 21.4ملین فالورز ہیں ، جبکہ اُن کے اپنے ذاتی اکاؤنٹ پر44.3ملین فالورز ہیں یہ صرف ایک سال کے اندر پائی گئی شہرت کا نتیجہ ہیں ۔مستقل بڑھتی ہوئی تعداد کے حساب سے دیکھیں تو دو مرتبہ صدارت سنبھالنے والے بارک اوباما کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس وقت صرف97.7ملین فالورز ہیں ۔عمران خان نے ڈانلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر ایک دلچسپ تبصرہ اس انداز سے کیا کہ ’’ٹرمپ ایک ایسا شخص ہے جسے تاریخ کا کچھ پتہ نہیں ،نہ وہ گہری سوچ رکھتا ہے ، وہ صرف نفع نقصان کا سوچتا ہے ، اُس نے یہودیوں کو طاقتور لابی جان کر اُن کی پشت پناہی کرتا ہے اور اُنہیں ہی خوش کرنے کا منصوبہ لے کر چل رہا ہے ۔‘‘چند ماہ قبل بھی امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور حقائق سے عاری بیان داغ کر خاصا شور برپا کیاتھا۔فلسطین کی سر زمین پردنیا کے قدیم ترین مقدس شہر ( یروشلم) جس کے معنی ہی مقدس کے ہیں ،کوئی ستر سال سے اسرائیلی افواج کے ظالمانہ قبضہ میں ہے ۔مسلمانوں کا اہم ایمانی مرکز قبلہ اول( ابیت المقدس) اسی شہر میں ہے۔اسرائیل نے اس شہر کو اپنا دار الخلافہ نامزد کیا ہوا تھا، جسے تسلیم کرنے میں سب نے لیت و لعل سے کام لیا تھا۔ دار الخلافہ کی حیثیت سے تمام اہم دفاتر و سفارت خانے یہاں منتقل ہونے تھے ۔ اس سے قبل کئی معاہدے کیے گئے مگر سب نے امن عامہ کے مفاد کے پیش نظر کسی معاہدے کو عملی نہیں کیا۔بیت المقدس کی الگ حیثیت برقرار رہی اور ٹالا جاتا رہا۔1995سے تمام امریکی صدور اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ، بظاہر سیکیورٹی کے پیش نظر ( تل ابیب) میں واقع امریکی سفارت خانے کی یروشلم میں منتقلی کے فیصلے کو موخر کرتے رہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں اس کا وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بن کر ایسا اقدام کریں گے اور انہوں نے چھ ماہ کی تاخیر سے بالآخر یہ فیصلہ کر ہی دیا۔امریکی سفارت خانہ جو ناجائز اسرائیل کے شہر تل ابیب میں قائم تھا اب اُس کے دار الحکومت یروشلم میں منتقل ہو جائے گا۔ اس بات کی منظوری ڈانلڈ ٹرمپ نے 4 دسمبر کو دیتے ہوئے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر کے ، بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔اس اعلان کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔پریزیڈنٹ ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر ایک مختصر ویڈیو بھی ڈالی گئی کہ (1995سے )ماضی کے تمام صدور نے وعدہ پورا نہیں کیا اور ہم نے کر دکھایا ۔بظاہر تو یہ صرف امریکی سفارت خانے یعنی ایک دفتر کی منتقلی ہے مگر اس بات کا بہت شدید رد عمل سامنے آیا ہے ۔سوشل میڈیا پر ’یروشلم ‘مستقل ٹرینڈ لسٹ پر ہے ۔ترکی کے صدر نے او آئی سی اجلاس کا اعلان کیا ہے ۔پاکستان ، بھارت، سعودی عرب، ایران، افغانستان، روس، چین، کینیڈاسمیت دنیا بھر سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے ۔اس عمل کو عالمی امن کے لیے سخت خطرہ قرار دیا گیاہے، گوکہ اس سے قبل کئی کوششیں کی گئیں کہ اس مبارک مسجد اقصیٰ کو شہید کیا جائے ، مگر الحمدللہ یہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔اس وقت بھی تمام تر اسرائیلی تشدد کے باوجود مقامی مسلمان اپنی جان کی بازی لگا کر ، قربانیوں کی لازوال تاریخ مقرر کرتے ہوئے اس ارض پاک کی حفاظت کر رہے ہیں۔سوشل میڈیاپر شدید رد عمل مختلف شکلوں میں مستقل جاری ہے،فیس بک پیجز ، ٹوئٹر ، انسٹا گرام پر تاحال اس حوالے سے پابندی نہیں دیکھنے میں آئی اور ٹرمپ کو مستقل دھویا جا رہا ہے ۔جہاں ایک جانب ٹرمپ کا باجا بجایا جا رہا ہے وہاں پچاس سے زائد مسلم ممالک کی بزدلی اور اجتماعی خاموشی اور عدم حکمت عملی پر شدید افسوس اور سخت تنقید بھی کی جا رہی ہے ۔اگر پچاس مسلم ممالک کے ہوتے ہوئے امریکہ اپنے ماضی کے تمام صدور کی پالیسی سے انحراف کر سکتا ہے تو قصور اُس کا نہیں ہمارے بے وزن ہونے کا ہے۔ٹرمپ کی پالیسیوں کے حامیوں کا ایک اور حقائق سے عاری بیانیہ یہ بھی جاری ہے کہ ’’یروشلم چار ہزار سال سے یہودیوں کیلے مقدس ہے، دو ہزار سال سے عیسائیوں کے لیے اور کوئی1400 سال سے مسلمانوں کے لیے—- یہ تاریخ ذہن میں رکھیں اور حق جتانے کے بجائے کوئی بہتر حل تلاش کریں۔‘‘اس کے جواب میں ایک ٹوئیٹ مزید آیا کہ،’’تیرہ سو سال پہلے یروشلم یہودیوں کا تھا، اس فارمولے سے دیکھیں تو تیرہ سو سال پہلے اسپین اور فرانس بھی مسلمانوں کے تھے۔ ‘‘اسی طرح چند مقبول ٹوئیٹ یہ بھی رہے کہ’’ایک امریکی دفتر کی منتقلی پر سیخ پا ہونے والوں ، ستر سال سے اسرائیلی افواج کا قبضہ کیوں بھول جاتے ہو۔‘‘ہم فلسطینی بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکی سفارت خانے پر ایم کیو ایم کا جھنڈا لہرا دیں پھر دیکھیں کیسی مدد آتی ہے۔‘‘عزیز ہم وطنو نے یروشلم والے معاملے پر انٹرنیٹ کے ذریعہ سوشل میڈیا پر کافروں اور یہودیوں کی بینڈ بجا دی ہے ۔یہ ہوتا ہے دشمن کو گھر میں گھس کر مارنا۔‘‘’’شدت پسندی کی نئی لہر کا خمیازہ عالم اسلام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔‘‘

حصہ