ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

351

قدسیہ ملک
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے آج تک جس طرح سادہ لوح عوام سے حقائق چھپانے کا سلسلہ جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چہرے بدل گئے ہیں لیکن ہتھیار وہی ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملکہ برطانیہ کے توسط سے ہندوستان میں رسائی، شہزادے کے علاج کے بہانے محلوں تک رسائی، سوات کے مقام پر پہلی تجارت کوٹھی کا قیام، رفتہ رفتہ ڈھائی لاکھ کی فوج تیار، بمبئی تک انگریزوں کا اثر و نفوذ، تمام ملک کی تجارت کا آہستہ آہستہ برطانیہ کے ہاتھوں میں چلے جانا، بنگال کا قحط، عام دنوں کی نسبت قحط سالی میں 300 گنا مہنگا غلہ بیچنے سے ایک کروڑ افراد بھوک و خوراک نہ ملنے سے مر گئے، مقامی جولاہوں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے، مقامی مزدوروں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے، مقامی صنعت تباہ و برباد کردی گئی، ہندوستان جو سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، وہاں بھوک و فاقے سے ڈھائی سو افراد موٹ کے گھاٹ اتر گئے، ٹیکس کی شرح 40 فیصد سے بڑھاکر 60 فیصد کردی گئی۔ انگریزوں نے رفتہ رفتہ تمام ہندوستان کو قبضے میں لینے کے لیے مقامی غداروں کو ساتھ ملانا شروع کیا۔ کہیں پلاسی میں میر جعفر میسر آگیا جس نے توپ کے دہانے انگریز حکومت کے خلاف کھولنے سے منع کردیا، تو کہیں میر صادق میسر آگیا جس نے شیر میسور ٹیپو سلطان کی شہادت اور انگریز سرکار کی میسور تک رسائی کو یقینی بنادیا۔ انگریزی فوج غداروں اور انعام و مراعات کے لالچی لوگوں کے باعث بآسانی ریاستوں کے قلعے فتح کرتی رہی۔ لیکن پھر چند مٹھی بھر مجاہدین اٹھے اور انگریز حکومت کے خلاف علَم بغاوت بلند کیا۔ امیرالمومنین سید احمد کی سپہ سالاری میں شاہ اسماعیل شہید کے ساتھیوں نے سرحد کے سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ کی آلاتِ حرب سے لیس دس ہزار فوج سے بہادری سے لڑتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ وہ چند مٹھی بھر مجاہدین سپردِ خاک تو ہوگئے لیکن ہندوستان کے باسیوں میں انگریزوں سے آزادی کی شمع روشن کردی، جس کے باعث 1857ء میں آزادی کے متوالے ہاتھوں میں شمع آزادی لیے انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انگریزوں کے خلاف عوامی بغاوت پھوٹ پڑی۔ ہندو، سکھ، مسلم، پارسی سب انگریزوں کے ظلم کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ لیکن جنگِ آزادی کے اختتام پر انگریز حکومت کے ہاتھوں آزادی کے یہ تمام رکھوالے گرفتار ہوئے۔ سیکڑوں سولی چڑھائے گئے، سیکڑوں مسلمانوں کو توپ کے دہانوں پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے درختوں پر ان حریت پسندوں کی لاشیں دن رات لٹکی عبرت کا نشان بنی رہتیں۔ چار ہزار انگریز فوجیوں کے قتل کا بدلہ انگریز حکومت نے تین لاکھ ہندوستانیوں کو شدید ذہنی و جسمانی تکالیف دے کر موت کے گھاٹ اتار کر، لیا۔ پورے ہندوستان پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائیوں کو آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا گیا۔ کٹر مولویوں کو وہابی قرار دیا گیا۔ آخری دو اہم کام انگریزوں نے یہ کیے کہ اپنے وفاداروں سے اس تحریک آزادی کو غدر لکھوا کر اپنے تمام مظالم کو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف سزائیں اور وعدہ خلافی لکھوا کر تاریخ کی کتابوں میں محفوظ کروا لیا۔ ہندوستان میں ایسی انگریزی تعلیم اور لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نافذ کیا جس کے باعث لوگ انگریزوں کو اپنا نجات دہندہ اور آزادی کے متوالوںکو حقیقت میں دہشت گرد اور انتہا پسند سے تعبیر کرنے لگے۔ انگریزی زبان سے محبت اور فارسی سے نفرت پیدا کی جانے لگی۔ ظالم انگریز معزز ٹھیرے اور حریت پسند دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔
یہ ایک خاص قسم کا پروپیگنڈا ہوتا ہے جس کے تحت شخصیات، واقعات اور مہمات کو مشہور یا بدنام کرنے کے لیے حقائق سے زیادہ جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ جھوٹ اتنا زیادہ بولا جاتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے، اور لگتے لگتے سچ بن بھی جاتا ہے۔ ہمارے اپنے معاشرے میں اس طرح کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی مثلاً 11/9 کا واقعہ، جس میں بغیر ثبوت مسلمانوں کو ملوث کیا گیا، اور اس الزام کی اتنی تکرار کی گئی کہ بعض دفعہ ہم بھی شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
پروپیگنڈے کی تین اقسام ہیں:
1۔ سفید پروپیگنڈا، جس میں صرف سچ سے کام لیا جاتا ہے۔
2۔ سیاہ پروپیگنڈا، جس میں سو فیصد جھوٹ سے کام لیا جاتاہے۔
3۔گرے پروپیگنڈا، جس میں جھوٹ اور سچ دونوں سے کام لیا جاتا ہے۔
یہ پروپیگنڈے کی سب سے خطرناک قسم ہے جس کے باعث سادہ لوح لوگوں کو بآسانی گمراہ کیا جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بنگالیوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے اس طرح کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ان کو غدارِ وطن، کمزور اور اخلاقی گراوٹ کا شکار گردانا جانے لگا، اور اس کے بعد پاکستان دولخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان میں آج تک پاکستان سے محبت کی پاداش میں سولیوں کو چومنے والے یقینا پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ 10000 پاکستانی سانحہ سقوط ڈھاکا میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسی پروپیگنڈے کے تحت ملک سے محبت کرنے والے دہشت گرد قرار پائے اور ملک کو دولخت کرنے والے ہیرو بن گئے۔ اسی پروپیگنڈے کے تحت جامعہ حفصہ میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والی معصوم طالبات مجرم قرار دے کر فاسفورس بم کا نشانہ بنادی گئیں جبکہ مساج سینٹر والی رقاصائیں ملک کا سافٹ امیج واضح کرکے مشہور ہوگئیں۔ داڑھی اور پردہ والے طالبان دہشت گرد قرار پائے لیکن انہیں گوانتاناموبے میں سخت اذیتیں دینے والے انسانی حقوق کے چیمپئن بن گئے۔ ایوان ریڈلے مشہور صحافی طالبان کے حُسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر قید کے بعد مسلمان ہوگئی۔ لیکن اس کی کسی نے نہ سنی، کیونکہ میڈیا کا کام ایک خاص ایجنڈے کے تحت اپنے خیالات لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست کرنا ہے۔ مختاراں مائی کیس ہو یا ملالہ کیس، سوات میں 17 سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے والی جھوٹی ویڈیو ہو یا سانحہ بلدیہ فیکٹری میں حقائق مسخ کرنے والے واقعات… میڈیا ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت اپنے خیالات کو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھاتا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی منیبہ مزاری کا حالیہ واقعہ سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم اذہان تک رسائی پانے والی منیبہ مزاری سے متعلق کچھ حقائق سوشل میڈیا ہی کی زبانی آپ کے سامنے ہیں:
منیبہ مزاری آج کل ایک بہت مشہور عوامی مقرر ہیں، فیس بک اور ٹویٹر پر ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں، جو ان سے تحرک لیتے ہیں، بعض تو بے چارے ایسے جذباتی مداح ہیں کہ ان کی تقاریر سنتے سنتے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ بقول منیبہ مزاری، وہ ایک ’’کنزرویٹو‘‘ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، بہت چھوٹی (اٹھارہ سال کی) عمر میں ان کی شادی ہوگئی، پھر کار حادثہ ہوا، شوہر کار میں سے کود گیا، میرا آدھا جسم کام چھوڑ گیا… ’’میرے اپنے‘‘ میرا ساتھ چھوڑ گئے، میری زندگی منجمد ہوگئی، میری زندگی کو دیمک لگنا شروع ہوگئی، کسی کام کی نہیں رہی تو شوہر نے طلاق دے دی… پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں ابھروں گی… اس طرح کی تقریر وہ ہر فورم پر کرتی ہیں اور پھر پورا ہال آنکھوں میں نمی لیے تالیاں پیٹتا ہے۔
محترمہ بڑھتے بڑھتے امن کی سفیر، معذوروں کی مشیر بن گئیں۔ مختلف کارپوریٹ اداروں (پونڈز اور باڈی شاپ وغیرہ) کی برانڈ ایمبیسیڈر بن گئیں، اور آج کل چغتائی لیب کی ’’کمیونٹی سوشل ریسپانسیبلٹی‘‘ کی انچارج ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، اور وہ یہ کہ منیبہ مزاری کی شادی 2005ء میں ائرفورس کے ایک آفیسر فائٹر پائلٹ سے ہوئی (ائرفورس تمام فورسز میں ایک ایلیٹ پیشہ ہے اورفائٹر پائلٹس ایلیٹ آف ایلیٹس مشہور ہیں)۔ 2008ء میں کوئٹہ سے اپنے آبائی گھر جاتے ہوئے جیکب آباد کے قریب ان کی کار کی ٹکر ایک گدھا گاڑی سے ہوئی، دونوں زخمی ہوئے، اور جس طرح زیادہ تر ایکسیڈنٹ میں ہوتا ہے کہ سیکنڈ سیٹر کو زیادہ چوٹ لگتی ہے بالکل ایسے ہی منیبہ مزاری زیادہ زخمی ہوئیں، ان کے شوہر نے ان کا علاج سرکاری ملٹری ہسپتال کے بجائے آغا خان ہسپتال میں کروایا کہ کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ بعدازاں ان کے سماجی کام بڑھتے بڑھتے سفارت خانوں، ڈپلومیٹک ملاقاتوں اور غیر ملکیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے تک جا پہنچے۔ وزارتِ دفاع کے کسی بھی ملازم یا اس کے گھر والوں کے لیے غیر ملکیوں سے ملاقاتیں یا کسی بھی ملک کے سفارت خانے، خانہ فرہنگ، این جی او سے رابطہ رکھنا تادیبی جرم ہے۔ خرم شہزاد نے جب منیبہ کو ایسا کرنے سے منع کیا تو وہی ہوا جو شوبز کے ذریعے شہرت کی بلندیوں پر جانے والی سیڑھیوں پر قدم رکھنے والی ہر خاتون کو روکنے پر ہوتا ہے۔ 2014ء میں انھوں نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا، اور ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت میڈیا میں بآسانی اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔
ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اسے Post- Truth Era کہتے ہیں، جہاں رائے عامہ اور نظریات حقائق پر نہیں جذبات پر بنائے جاتے ہیں۔ احساسات سے چھیڑ چھاڑ کرکے سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اور رائے عامہ کو اپنے پیمانے پر ہموار کیا جاتا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

حصہ