محمد ﷺ مسکراتے تھے ہمیشہ مسکراتے تھے…!۔

1454

افشاں نوید
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے (جس کا نام عینیہ بن حصین تھا) اندر آنے کی اجازت چاہی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ برے قبیلے کا آدمی ہے‘‘۔ پھر اس کو آنے کی اجازت دے دی۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ آپؐ اس کے ساتھ ہنسنے لگے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! پہلے آپ نے اس کے بارے میں وہ کہا، پھر اس کے ساتھ ہنستے رہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بدترین شخص وہ ہے کہ لوگ اس کے شر کی وجہ سے اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘ (موطا امام مالکؒ)۔ حضرت عائشہ ؓ پر آپؐ نے اپنے عمل سے داعیانہ کردار واضح کیا کہ برے لوگوں کے ساتھ بھی خوش طبعی سے پیش آنا چاہیے اور ملنے جلنے سے گریز نہ کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے لوٹے تو میرے سر میں درد تھا۔ میں کہہ رہی تھی ہائے میرا سر، ہائے میرا سر۔ آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ ہائے میرا سر (بطور مزاح)۔ پھر آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے کہا: کوئی بات نہیں، اگر تم اس دردِ سر سے مرگئیں تو میں تمہیں کفن دوں گا، تمہاری نمازِ جنازہ پڑھائوں گا اور تمہیں دفن کردوں گا۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے کہا آپؐ یہ چاہتے ہیں کہ میرے بعد میرے گھر میں اور بیوی لے آئیں۔ یہ سن کر آپؐ مسکرا دئیے۔ (رواہ ابن ہشام سیرت النبی جلد چہارم)
ہزاروں سلام حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جنہوں نے امت کے لیے بڑی قربانی دی اور اپنی خانگی زندگی کے ہر واقعے کو بیان کردیا تاکہ امت کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ آجائے ۔ اس روایت میں حضرت عائشہؓ کی حاضر جوابی سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محظوظ ہوتے ہیں، یہ بھی دکھ بانٹنے کا نسخہ تھا۔
فتح مکہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف کررہے تھے۔ فضالہ نے آپؐ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ جب آپؐ کا اس کے قریب سے گزر ہوا تو پوچھا: کیا تو فضالہ ہے؟ اس نے کہا ہاں یارسول اللہ! آپؐ نے فرمایا: تُو اپنے دل میں کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے کہا: کچھ نہیں، میں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا تھا۔ یہ سن کر آپؐ مسکرائے اور اس سے کہا: استغفار کر۔ پھر اس کے سینے پر ہاتھ رکھا جس سے اس کا دل مطمئن ہوگیا۔ فضالہ کہتے ہیں: ابھی آپؐ نے میرے سینے سے ہاتھ اٹھایا بھی نہیں تھا کہ آپؐ ساری مخلوق سے زیادہ مجھے محبوب ہوگئے (رواہ ابن ہشام، سیرت النبی جلد چہارم)۔ بلاشبہ آپؐ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے تھے۔ آپؐ نے اپنی سیرتِ مطہرہ کے ذریعے امتیوں کو درس دیا کہ انقلاب تلوار سے نہیں حُسنِ اخلاق سے آتا ہے۔ آپؐ کے مبارک لمس سے دشمن کا قلب لمحے بھر میں قلبِ مطمئنہ بن گیا۔
حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے دونوں بھتیجے عتبہ اور معتب، ابی لہب کے بیٹے،کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ روپوش ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ان کو میرے پاس لائو۔ میں سوار ہوکر مقام عرفہ گیا، وہاں سے دونوں کو اپنے ساتھ لایا۔ آپؐ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، دونوں نے اسلام قبول کیا اور آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپؐ کھڑے ہوئے اور دونوں کا ہاتھ پکڑ کر بابِ کعبہ کے قریب دیر تک دعائیں مانگتے رہے۔ واپس آئے تو چہرۂ انور پر خوشی کے آثار ظاہر تھے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ مسرور رکھے، کیا بات ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اپنے چچا کے دونوں بیٹے مانگے تھے، اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کردیے اور میرے لیے ان کو ہبہ کردیا۔ (الخصائص الکبریٰ جلد اول)
ہمدان، یمن کا ایک بڑا قبیلہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو دین کی دعوت پہنچانے کے لیے بھیجا۔ وہ چھ ماہ وہاں رہے مگر کسی نے اسلام قبول نہ کیا۔ بعد میں آپؐ نے حضرت علیؓ کو خط دے کر روانہ فرمایا اور یہ فرمایا کہ خالد کو واپس بھیج دینا۔ حضرت علیؓ نے جاکر سب کو جمع کیا، آپؐ کا خط پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ سارا قبیلہ ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے تحریر کے ذریعے سے آپؐ کو اس کی اطلاع دی، آپؐ نے اطلاع ملتے ہی سجدۂ شکر ادا کیا اور فرطِ مسرت سے کئی بار یہ فرمایا: السلام علی ہمدان، السلام علی ہمدان یعنی قبیلہ ہمدان پر سلامتی ہو، قبیلہ ہمدان پر سلامتی ہو (رواہ البیہقی جلد سوم)۔ قبیلہ ہمدان کی خوش قسمتی دیکھیے، اس کے اسلام قبول کرنے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے سرشار ہوگئے۔ اللّٰھُم صلی علی محمد و علی الہ وسلم
تفسیر ابن کثیر میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ جنگِ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک تھیلی ملی۔ میں نے اس کو اٹھا لیا اور کہا آج اس جیسی چیز میرے سوا کسی کو نہیں ملی ہوگی۔ جب میں آپؐ کی طرف متوجہ ہوا تو آپؐ مسکرا رہے تھے (مجھے خبر نہ تھی کہ آپؐ میری بات سن رہے ہیں)۔ بکریوں کے ریوڑ چَرانے والے صحابہ جنہوں نے دنیا کا تمدن بدل دیا، چربی کی ایک تھیلی پاکر خوش ہورہے تھے۔ آپؐ اپنے ساتھی کی سادگی پر مسکراکر رہ گئے۔
حضرت تمیم داریؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہمیشہ شراب کا ایک مشکیزہ بطور ہدیہ لایا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شراب نہیں پیتے تھے۔ حرمت نازل نہیں ہوئی تھی، قبول کرکے کسی دوسرے کو ہدیہ کردیتے۔ شراب کی حرمت نازل ہونے کے بعد بھی ہدیہ لائے (غالباً ان کو حرمت کا علم نہ ہوا تھا)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو ہنس پڑے اور فرمایا: یہ تو اب حرام ہوگئی ہے۔
حضرت تمیم داریؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے نفع حاصل کرلیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے، جب ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی گئی تو انہوں نے اس کو پگھلا کر بیچا۔ خدا کی قسم شراب حرام ہے، اسی طرح اس کی قیمت سے نفع اندوز ہونا حرام ہے۔ (رواہ احمد، تفسیر ابن کثیر جلد دوم)
اس موقع پر آپؐ کراہت کا اظہار کرسکتے تھے کہ نجس اور حرام چیز تم میرے سامنے کیوں لے آئے! ان کی کم علمی پر تاسف کا اظہار کرسکتے تھے کہ تمہیں ابھی تک اس کا علم کیوں نہ ہوا کہ شراب حرام ہوگئی ہے! حضرت تمیمؓ ہدیہ لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے اس لیے آپؐ نے ان کا اکرام کیا، ایسی بات نہ کی جو اُن کو ناگوار گزرے۔ مسکراتے ہوئے شراب کی حرمت کے متعلق بتایا۔ البتہ بیچنے کی تجویز پرآپؐ نے کسی تامل کے بغیر انہیں اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی سے آگاہ کیا کہ حرام چیز بیچنا بھی شریعت کی نظر میں حرام ہے۔ تربیت کے خوبصورت انداز سے آپؐ نے مسِ خام کو کندن بنادیا۔
حضرت حمید بن ہلالؓ کہتے ہیں کہ علاء بن حضرمیؓ نے بحرین والوں سے جزیہ وصول کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ اتنا کثیر مال نہ پہلے کبھی آپؐ کی زندگی میں آیا اور نہ بعد میں۔ یہ اسّی ہزار تھا۔ اس کو صف پر پھیلادیا گیا اور اعلان کروایا گیا کہ جس کو مال چاہیے لے جائے۔ حضرت عباسؓ آئے اور اپنی چادر میں بہت سا مال جمع کرلیا، جب اس کو اٹھانے لگے تو اٹھتا نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریب کھڑے ہوئے تھے، ان سے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرے سر پر رکھ دیجیے۔ آپؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: اس کو کم کرو، جتنا اٹھا سکتے ہو اتنا لے جائو۔ (تفسیر ابن کثیر جلد دوم)
آپؐ بڑھ کر صحابہ ؓ کی مدد کیا کرتے تھے۔ اس موقع پرکہا کہ وزن کم کردو اور خود اٹھائو۔ آپؐ نے کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جس سے ان کی دل آزاری ہو، البتہ مسکراتے ہوئے پیغام دیا کہ مال کی حرص اچھی چیز نہیں۔
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی پھوپھی صفیہ بنتِ عبدالمطلب تشریف لائیں۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردے۔ آپؐ نے فرمایا: اے فلاں کی ماں، جنت میں بڑھیا داخل نہیں ہوگی۔ یہ سن کر وہ روتی ہوئی واپس چلی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کہا: جائو ان کو خبر دو کہ تم بڑھاپے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہوگی، جوان ہوکر داخل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم ان کو جوان اور باکرہ بنادیں گے۔ (رواہ الترمذی فی الشمائل)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ مجھے سواری کی ضرورت ہے، مجھے اونٹ عطا کردیجیے۔ آپؐ نے فرمایا (بطورمزاح): میں تو تجھے اونٹ کے بچے پر سوار کروں گا۔ اس شخص نے پریشان ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کروں گا؟ آپؐ نے فرمایا: بڑا اونٹ بھی تو اونٹنی نے ہی جنا ہے، یعنی یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے (رواہ الترمذی فی الشمائل)۔ آپؐ پر لاکھوں درود اور لاکھوں سلام۔ فداہ امی و ابی۔ آپؐکی خوش طبعی اور ظرافت نے ساتھیوں کے دل موہ لیے۔
حضرت ابی طلحہ انصاریؓ کہتے ہیں: ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ خوشی کے آثار آپؐ کے چہرۂ مبارک پر ظاہر تھے۔ میں نے عرض کیا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو آپ بہت خوش معلوم ہورہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میرے رب کی طرف سے وحی آئی ہے، جو شخص مجھ پر درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دیں گے، اس کے دس گناہ معاف ہوں گے اور اس کے دس درجات بلند ہوں گے۔ (احمد وطبرانی)۔ اللّٰھُم صلّ علیٰ سیدنا محمد وبارک وسلم وصل علیہ
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تھے، اچانک آپؐ پر غنودگی طاری ہوگئی۔ آپؐ نے مسکراتے ہوئے سرِ مبارک اٹھایا۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ آپ کیوں مسکرائے؟ آپؐ نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر سورۂ کوثر نازل ہوئی ہے۔ آپؐ نے اس کی تلاوت کی اور پوچھا: تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: خدا اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ وہ حوض کی طرح ہے، قیامت کے دن میری امت اس پر آئے گی، پینے کے برتن ستاروں کی تعداد جتنے ہوں گے۔ (مسلم وقرطبی)
حضرت حسنؓ روایت کرتے ہیںکہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔آپؐ مسکراتے ہوئے فرمارہے تھے کہ ہرگز ایک عسر دو یسروں پر غالب نہیں آسکتی، کیوں کہ قرآن میں ہے: ان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا (ابن جریر)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا آپؐ مسکرا رہے ہیں۔ کسی نے کہا: یارسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میری امت کے دو آدمی اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑے تھے۔ ایک نے کہا یارب اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے، آپ اس سے بدلہ لیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اپنے بھائی کا حق دو۔ دوسرا عرض کرے گا: میری نیکیاں تو ختم ہوگئیں۔ حق لینے والا کہے گا: اے رب میرے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے۔ یہ بیان کرتے ہوئے آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر فرمایا: یہ محتاجی کا دن ہوگا، اللہ تعالیٰ حق مانگنے والے سے کہے گا: اوپر دیکھ اور جنت دیکھ۔ وہ اوپر عجیب وغریب نعمتیں دیکھے گا اور پوچھے گا: یہ کس کے لیے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جو اس کی قیمت ادا کرے گا۔ وہ عرض کرے گا: اس کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تُو بھی ادا کرسکتا ہے۔ وہ عرض کرے گا: کس چیز سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: درگزر کرنے سے۔ وہ عرض کرے گا: اے رب! میں نے اس کو معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اس کو جنت میں داخل کردے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسلمانوں کے درمیان صلح کروائیں گے۔ (قرطبی)
اللہ رب کریم نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر غیب کے حالات ظاہر کیے، اس سے کبھی آپؐ خوش ہوجاتے تھے اور کبھی رنجیدہ۔ قیامت کے دن آپؐ کے امتی کس کس حال میں ہوں گے یہ آپؐ کو اس لیے دکھایا گیا کہ امت کو مکمل پیغام پہنچ جائے۔ لوگ روزِِ حشر یہ نہ کہہ سکیں کہ اگر ہمیں یہ سب پتا ہوتا تو ہم اپنی اصلاح کرلیتے، یا کوئی یہ حجت پیش نہ کرسکے کہ پیغام ادھورا تھا، ہم تو تاریک راہوں میں مارے گئے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام زمین ایک روٹی بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کو ایک ہاتھ میں لے لے گا جیسے تم روٹی ہاتھ میں لیتے ہو۔ اس سے اہلِ جنت کی مہمانی ہوگی۔ ایک یہودی آیا اس نے کہا: اے ابوالقاسم! اللہ تعالیٰ تجھ پر برکت نازل فرمائے، میں آپؐ کو بتائوں کہ قیامت کے دن جنتیوں کی مہمان داری کس چیز سے ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: بتا! اس نے کہا: قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی بن جائے گی جیسا کہ آپ پہلے فرماچکے تھے۔ اس کی بات سن کر آپؐ مسکرائے یہاں تک کہ آپ کے دندانِِ مبارک ظاہر ہوگئے۔ پھر اس نے کہا: جنت والوں کا سالن بتائوں؟ آپؐ نے فرمایا: بتا۔ اس نے کہا: بیل اور مچھلی کے جگر کے کباب ہوں گے جس کو ستّر ہزار آدمی مل کر کھائیں گے۔ (بخاری ، مسلم، قرطبی)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو جمع کرے گا تو عرش کے نیچے سے آواز آئے گی: کہاں ہیں اللہ کی معرفت حاصل کرنے والے؟ کہاں ہیں نیکی میں جلدی کرنے والے؟ کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور چلتے چلتے اللہ تعالیٰ کے سامنے پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ باوجود جاننے کے دریافت فرمائیں گے: تم کون ہو؟ وہ عرض کریں گے: ہم آپ کی معرفت حاصل کرنے والے ہیں اور آپ ہی نے ہم کو اس کا اہل بنایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تم سچ کہتے ہو۔ ان سے کہا جائے گا کہ جائو جنت میں، میری رحمت میں داخل ہوجائو۔ اس اعزاز واکرام کا ذکر کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، پھر فرمایا: مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے تم کو قیامت کے ہولناک منظر سے بچالیا۔ (قرطبی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت کا تذکرہ فرما رہے تھے۔ آپؐ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ایک شخص جنت میں کہے گا: اے رب! میں کاشت کاری کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے کہا جائے گا کہ اس جنت میں تیرے لیے ہر وہ چیز نہیں جو تُو چاہتا ہے؟ وہ عرض کرے گا: تمام نعمتیں موجود ہیں لیکن میں زراعت کو پسند کرتا ہوں۔ پس فوراً بیج ڈالا جائے گا اور ایک لمحے میں کھیتی پک جائے گی۔ صاف ہوکر (گندم کے) ڈھیر لگ جائیں گے، پہاڑوں کی طرح۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے: اے ابن آدم! تُو سیر نہیں ہوتا۔ ساری بات سن کر اس دیہاتی نے کہا: یہ چاہت تو صرف قریش یا انصار کریں گے کیوں کہ وہ زراعت پیشہ ہیں، ہم تو زراعت پیشہ نہیں ہیں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (بخاری، قرطبی)
حضرت ابی امامہؓ فرماتے ہیں: ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کس نے روزے کی حالت میں صبح کی؟ لوگ خاموش رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں نے یارسول اللہ۔ آپؐ نے پوچھا: آج کس نے مسکین کو صدقہ دیا؟ لوگ خاموش رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں نے یارسول اللہ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: آج جنازے کے ساتھ کون گیا؟ لوگ خاموش رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں یارسول اللہ۔ آپؐ نے پوچھا: آج مریض کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میں نے یارسول اللہ۔ یہ سن کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے اور فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے حق دے کر مجھے مبعوث کیا، جس شخص نے یہ عمل کیے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (مناقب العشرہ)
بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ یارِ غار ہیں، ان کا ایمان اور عمل، امت کے کسی بھی فرد کے ایمان اور عمل سے بڑھ کر ہیں۔ مجلس میں اس طرح کے سوال پوچھنے کا مقصد لوگوں کو نیکیوں کی رغبت دلانا تھا، ان اعمال کی فضیلت بتانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کو جنتی ہونے کی خوش خبری سنائی۔ امت کو تعلیم دی کہ یہ اعمال جنت کے حصول کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

حصہ