(برصغیری میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں(تیرہواں حصہ

360

نجیب ایوبی
قسط نمبر 114
مولانا مودودی کی سزائے موت منسوخ ہوکر عمرقید کی تجویز میں بدل دی گئی تھی۔ اس کی تفصیلات تو ہم پہلے لکھ ہی چکے ہیں مگر میرے نزدیک اہم بات اُن سختیوں اور حالات کو منظرعام پر لانا ہے جو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتابچہ لکھنے کی پاداش میں مولانا مودودی نے انگیز کیے۔ بلاجواز گرفتاری، اور مولانا کو بدنامِ زمانہ عقوبت خانوں میں رکھا جانا، قیدِ تنہائی اور پھر سزائے موت اور کال کوٹھری تک کا سفر!!!
حالات کی کوئی بھی سختی مولانا کے مضبوط اعصاب کو کمزور نہ کرسکی۔ مولانا مودودی راضی بہ رضائے خداوندی، ماتھے پر کوئی شکن تھی نہ لبوں پر آہ و فریاد…!
11 مئی 1953ء کو قادیانی لابی کے دباؤ میں آکر حکومتِ پاکستان کی فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی۔ گویا قادیانی لابی نے اپنے تئیں مولانا کا ’’پورا بندوبست‘‘ کردیا تھا۔ مگر گورنر جنرل کے آرڈیننس کی منسوخی اور انڈیمنٹی ایکٹ کے غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد 29 اپریل 1955ء کو مولانا کی رہائی عمل میں آئی۔
قید و بند کا یہ دورانیہ کُل ملا کے دو سال ایک ماہ بنتا ہے۔ مولانا مودودی نے 9 دن لاہور کے شاہی قلعہ میں، 2 راتیں پھانسی کی کال کوٹھری میں، اور بقیہ ایام لاہور، میانوالی اور ملتان کی جیلوں میں گزارے۔
مولانا مودودی کی صاحبزادی سیدہ حمیرا مودودی کے مطابق ’’پھانسی کی سزا کا اعلان ہونے کے بعد جب ہم اسکول سے واپس گھر آئے تو ہمارا گھر خواتین سے پٹا پڑا تھا۔ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ جو خواتین اظہارِ ہمدردی کرنے آئی تھیں وہ رو رہی تھیں۔ اماں جان ان کو صبر کی تلقین کررہی تھیں۔ اور یہی حال ہماری دادی اماں کا بھی تھا۔ جب ہم کو دیکھا تو اماں جان نے بس اتنا کہا ’’بیٹا گھبرانا نہیں، صبر کرنا‘‘۔ اور پھر ہم سب کو اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایا، اور جاکر خواتین کے ساتھ بیٹھ گئیں… اماں جان نے ساری رات نوافل پڑھتے گزاری۔ رات کو میں نے جب بھی دیکھا (ایسی ہولناک رات میں بھلا نیند کس کو آنی تھی) انہیں جائے نماز پر بہ چشمِ تر نفل پڑھتے دیکھا۔ فجر کی اذان سنتے ہی ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اماں جان نے تلاوت کے لیے قرآن کھولا اور وہی سلسلہ جہاں سے روز پڑھتی تھیں، پڑھنا شروع کیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ جو آیت سامنے تھی وہ یہ تھی:
(ترجمہ) ’’پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمہیں جنت میں داخلہ مل جائے گا؟ حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، وہ ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں، اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘(البقرہ 2 :214)
اس آیت کو اماں جان پڑھتی گئیں اور روتی گئیں… پھر سارا دن اماں مطمئن رہیں۔ 13 مئی کو اماں جان نمازِ عصر سے فارغ ہی ہوئی تھیں کہ جماعت اسلامی کے ایک کارکن آئے اور انھوں نے پیغام بھجوایا ’’بیگم صاحبہ کو دروازے کے پاس بلائیے‘‘۔ ہم سب ڈر گئے کہ پتا نہیں کیسی خبر ہے؟ اماں جان بڑی گھبرائی ہوئی دروازے پر آئیں کہ ہم سب کو یک دم دروازے کے پیچھے سے آواز آئی’’بیگم صاحبہ مبارک ہو، مولانا کی سزائے موت 14 سال قیدِ بامشقت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف بیان دینے پر مزید سات سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے‘‘۔ وہ صاحب تو اپنی کہے جارہے تھے، ادھر اماں جان پہلا جملہ سنتے ہی سجدے میں گر گئیں۔‘‘
مزید لکھتی ہیں کہ ’’اس روز اماں جان نے ہم کو اپنا ایک خواب سنایا، جو ابا جان (مولانا مودودی) کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے سے صرف ایک دن پہلے انھوں نے دیکھا تھا۔ کہنے لگیں’’میں نے دیکھا کہ ایک ہوائی جہاز اترا ہے اور اس میں تمہارے ابا جان ہم سب کو لے کر سوار ہوگئے ہیں۔ جہاز ہے کہ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ آسمان کی طرف عمودی پرواز کررہا ہے، مجھے سخت چکر آرہے ہیں اور بڑی گھبراہٹ محسوس ہورہی ہے۔ پھر یکلخت ہوائی جہاز کہیں اتر جاتا ہے اور تمہارے ابا جان میرا ہاتھ پکڑ کر، سہارا دے کر جہاز سے اتار رہے ہیں۔ اِدھر میری جان پر بنی ہوئی ہے اور اُدھر تمہارے ابا جان کی آواز آتی ہے ’’ذرا نیچے دیکھو تو سہی کہ تم کتنی بلندی پر آگئی ہو‘‘… پھر میں نیچے دیکھتی ہوں تو واقعی لوگ سڑکوں پر بونوں کی طرح نظر آرہے ہیں اور بڑی بڑی عمارتیں کھلونوں کی طرح نظر آرہی ہیں۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔‘‘ خواب سنا کر کہنے لگیں ’’آج اس کی تعبیر سامنے آئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کو جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرانا مقصود نہیں تھا، بلکہ باپ کو خلیل اللہ اور بیٹے کو ذبیح اللہ بنانا تھا، اسی طرح ہم گناہ گاروں کو بھی اس بھاری آزمائش سے بخیروخوبی گزارنا مقصود تھا‘‘۔
آخرکار 29 اپریل 1955ء کو مولانا مودودی قانونی سقم کی بنیاد پر 25 ماہ کی قید وبند کے بعد گھر واپس آگئے۔
اس موقع پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ خود مولانا مودودی نے بچوں کے اصرار پر اپنے ایامِ اسیری کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا کہا؟
’’جب مجھے لاہور سے ملتان جیل لایا گیا تو دوپہر کا وقت تھا۔ جو کمرہ دیا گیا تھا اُس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا۔ اور نلکے کی جگہ ہینڈ پمپ تھا۔اس اے کلاس قیدی کوارٹر میں ’سی کلاس‘کا ایک مشقتی [ قیدی یا ملازم ] دیا گیا تھا، جو بیٹھا انتظار کررہا تھا۔ وہ تقریباً 40 سال کا تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے مجھے غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا اور ہینڈ پمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگا ’’میاں جی نہا لیجیے‘‘۔ جب میں غسل خانے سے نکلا تو دیکھا پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر، چارپائی بچھاکر بستر لگا دیاگیا ہے۔ میں نے پوچھا ’’پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی، یہ کیوں بچھائی ہے؟‘‘ تو وہ کہنے لگا ’’گرمی بہت ہے، میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا، تاکہ کمرہ ٹھنڈا رہے، اور آپ دوپہر کو آرام کرسکیں۔‘‘
ایک دن اس مشقتی نے مجھ کو بتایا ’’جب آپ کے ساتھ میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آرہا ہے، جس نے حکومت کو سخت پریشان کررکھا ہے، اس کو راہِ راست پر لانا ہے۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامے پر دستخط کردے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے، بس تمہارا کام اسے ہر طرح سے تنگ کرنا ہے۔ کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔ بس جی، میں یہاں بیٹھا آپ کا انتظار کررہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں تو سہی کہ آج کس شخص سے پالا پڑتا ہے؟ آخرکار میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں، کسی سے کم تو نہیں ہوں! پھر جب آپ اندر آئے تو میں آپ کو دیکھ کر بس سوچتا ہی رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کسی کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے؟ میاں جی، آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا۔‘‘
مولانا مودودی نے بتایا کہ’’جیل سپرنٹنڈنٹ کئی مرتبہ خیر خیریت کے بہانے کمرے میں آتے اور معافی نامے پر دستخط کرنے کا کہتے، اور ہر بار میرا انکار سن کر مایوس لوٹ جاتے۔ یوں معافی نامے پر دستخط کی ’’ہمدردانہ‘‘ کوششیں ناکام ہوگئیں۔‘‘
’’جب میں تفہیم القرآن لکھنے میں مصروف ہوتا تھا، یا جب نماز پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ وہ مشقتی ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھتا رہتا ہے۔ کچھ عرصے بعد بقرعید آگئی۔ اتفاق سے جو راشن دیا جاتا تھا وہ بھی ختم ہوچکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہوگئیں۔ یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہوچکا تھا۔ وہ سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں، اب آپ کو ناشتا کیسے دوں؟ یہاں تک بات کرتے کرتے اور میرے منع کرتے کرتے اس کے منہ سے جیل انتظامیہ کے لیے دو سخت قسم کی مغلظات نکل چکی تھیں۔
میں نے اس سے کہا کہ رات جو چنے کی د ال اور روٹی بچی تھی، وہی گرم کرکے لے آؤ۔ کہنے لگا ’’وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا۔ بھلا عید کے دن بھی کوئی رات کی باسی دال اور روٹی کھاتا ہے!‘‘ میں نے اس سے کہا ’’بھائی میری فکر نہ کرو، میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھالوں گا۔‘‘
بے چارے مشقتی نے احتجاجاً ناشتا نہیں کیا (اگرچہ اس کے لیے بھی وہی دال روٹی موجود تھی)‘‘
مولانا مودودی رہا ہوچکے تھے۔ سازشی عناصر اپنی تمام سازشوں کے باوجود ان کو پھانسی کے پھندے پر نہیں لٹکا سکے۔ سیدہ حمیرا مودودی (صاحبزادی مولانا مودودی) کے مطابق ’’جو لوگ بھی ابا جان کو سنگین سزائیں دینے اور بلاوجہ جیلوں میں رکھنے کے ذمے دار تھے، وہ حضراتِ گرامی جب کبھی بعد میں ابا جان سے ملنے آتے تو ابا جان اُن سے بھی اسی خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے ملتے۔ ایک روز ایک صاحب ابا جان سے سفارشی خط لینے آئے۔ وہ اب ریٹائر ہوچکے تھے، اور ہاتھ تنگ تھا۔ مالی دشواریوں کی وجہ سے دبئی یا ابوظہبی جانا چاہتے تھے۔ حسبِ معمول ابا جان نے سفارشی خط دے دیا جو اُن کے بہت کام آیا۔ اچھی ملازمت مل گئی۔ یہ صاحب کون تھے؟ یہ وہی صاحب تھے جنھوں نے ابا جان کو دورانِ ملازمت مارشل لا جج کی حیثیت سے پھانسی کی سزا سنائی تھی اور ان کے دستخط آج تک فیصلے پر ثبت ہیں۔ جنرل محمد اعظم خان جن کے زمانے میں ابا جان کا کورٹ مارشل ہوا تھا، وہ بعد میں اکثر ملنے آیا کرتے تھے۔‘‘
جن سازشیوں نے مولانا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازش تیار کی، ان کو تکلیف دینے کے لیے تانے بانے بُنے، اُن کے ساتھ قدرت نے بہت بھیانک انتقام لیا، وہ اس طرح کہ سیدہ حمیرا مودودی مزید ایک جگہ لکھتی ہیں کہ ’’اماں جان نے ایک مرتبہ دادی جان سے التجا کی کہ ’’آپ کسی کو بددعا نہ دیں کہ آپ کی دعا اور بددعا حرف بہ حرف لگتی ہیں‘‘۔ یہ وہ موقع تھا جب 1953ء میں ابا جان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا ’’جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے، یا اللہ تُو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ آدھا دھڑ گل جائے‘‘۔ اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں یہ خبر لگی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہوگیا ہے۔‘‘
گورنر جنرل کے فالج اور فالج زدگی کے ایام کس طرح گزرے اس بارے میں اگر کسی کو مزید تفصیل جاننی ہو تو قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامے‘‘ کا ضرور مطالعہ کرے۔
گورنر جنرل غلام محمد نے انتہائی بیماری کے عالم میں اپنا آخری وقت گزارا۔ اپنے آخری وقت میں سبک دوشی سے پہلے کے حال احوال کا جو نقشہ قدرت اللہ شہاب نے کھینچا وہ اس طرح کا ہے ’’چند ہفتوں کے اندر اندر مسٹر غلام محمد کی سبک دوشی کا مسئلہ طے ہوگیا۔ پہلے انھوں نے کچھ چھٹی لی اور پھر مستعفی ہوگئے‘‘۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’’مجھے حکم ملا کہ ان کی طرف سے قوم کے نام ایک پیغام لکھوں اور ریڈیو سے اسے براڈ کاسٹ بھی کروں۔ یہ بڑا مشکل کام تھا، کیونکہ گورنر جنرل کے طور پر مسٹر غلام محمد نے کوئی ایسا تعمیری کارنامہ سرانجام نہ دیا تھا جسے اُن کے الوداعی پیغام میں فخر کے ساتھ بیان کیا جاسکتا۔ میں نے پانچ منٹ کا ایک رسمی سا پیغام لکھا جو پرانی دہرائی ہوئی عامیانہ، فرسودہ اور پیش پا افتادہ باتوں اور اقوال پر مشتمل تھا… اور اسی غیر منظور شدہ ڈرافٹ کو شام کے وقت نیشنل ہک اپ میں ریڈیو سے براڈ کاسٹ کروادیا۔‘‘
گورنر جنرل کے عہدے سے سبک دوشی کے بعد وہ اپنی بیٹی کے بنگلے کلفٹن میں منتقل ہوگئے تھے اور اسی کے گھر پر بیماری کے عالم میں انتقال کیا۔
حوالہ جات: شجر ہائے سایہ دار… سیدہ حمیرا مودودی
شہاب نامہ: قدرت اللہ شہاب
(جاری ہے )

حصہ