اخبارِ ادب

252

ڈاکٹر نثار احمد نثار
بزم علم و ادب کا دوسرا ماہانہ مشاعرہ ڈاکٹر عقیل رشید لکھنوی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جس کی صدارت اعجاز رحمانی نے کی۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت الحاج یوسف اسماعیل نے حاصل کی جب کہ نعت رسولؐ عقیل احمد عباسی نے پیش کی۔ نظامت کے فرائض حامد علی سید نے ادا کیے اس موقع پر بزمِ علم و ادب کی جانب سے اعجاز رحمانی اور فیاض علی کو ’’میر تقی میر ایوارڈ‘‘ پیش کیے گئے۔ صاحب صدر اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ عبدالوحید تاج‘ علی اوسط جعفری‘ فیاض علی فیاض‘ عبدالمجید محور‘ نشاط غوری‘ تنویر سخن‘ عقیل عباسی‘ یوسف اسماعیل‘ اخلاق درپن‘ چاند علی چاند‘ زاہد علی سید‘ ذوالفقار حیدر پرواز اور ڈاکٹر عقیل رشید لکھنوی نے کلام پیش کیا۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب سے کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے تب سے ادبی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے جو لوگ ادب کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں لیکن جن سرکاری اداروں کو ادب کی ترویج و اشاعت کا فریضہ سونپا گیا ہے وہ ستائش باہمی کی بنیادوں پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے باوجود نفاذِ اردو میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ بیورو کریسی نہیں چاہتی کہ اردو زبان سرکاری سطح پر نافذ العمل ہو‘ اس سلسلے میں تمام قلم کاروں کو آگے آنا ہوگا۔ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
…٭…
ڈاکٹر مختار حیات سینئر شاعر ہیں شعر و ادب کی محفلیں سجاتے ہیں اور لوگوں کو Get to gather کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنی رہائش گاہ میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا۔ رسا چغتائی نے صدارت کی امریکا سے آئے ہوئے شاعر رفیع الدین راز‘ برطانیہ سے تشریف لائے شاعر و ادیب یشب تمنا مہمانانِ اعزازی تھے۔ مختار حیات نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ چھوٹی چھوٹی شعری نشستیں بھی ہمارے لیے ضروری ہیں ان نشستوں میں پڑھا جانے والا کلام انتہائی توجہ سے سنا جاتا ہے۔ آج کی یہ نشست بھی کامیاب ہے اور ہر شخص نے بہت عمدہ کلام پیش کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں ادب روبہ زوال نہیں ہے البتہ معیاری ادب کی تخلیق میں کمی آرہی ہے۔ گروہ بندیوں سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے حکومتی ادارے قلم کاروں کے مسائل کے حل میں کوتاہی کر رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مفادات کی حفاظت کریں اور متحد ہو جائیں۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ وہ بنیادی طور پر کراچی کے باشندے ہیں امریکا میں رہتے ہوئے بھی ہم پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور امریکا سیاسی تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے لیکن ادیبوں اور شاعروں کے تعلقات سرحدوں کے محتاج نہیں۔ اردو ہماری پہچان ہے ہم امریکا میں بھی اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور اکثر و بیشتر مشاعرے اور مذاکرے ہوتے رہتے ہیں۔ امریکا میں رہتے ہوئے ہم وہاں کے معاشرے کے حالات بھی نظم کرتے ہیں اور غزل کے روایتی مضامین بھی باندھتے ہیں۔ یشب تمنا نے کہا کہ مختار حیات محبتوں کے آدمی ہیں ان کی مہربانی کہ انہوں نے آج میرے لیے محفل سجائی میں جب بھی کراچی آتا ہوں میرے دوست اور احباب میرے محفلیں سجاتے ہیں۔ میں ان تمام کی محبتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ کراچی میں نوجوان نسل بھی شاعری کر رہی ہے ان شعرا کے یہاں جدید لفظیات‘ نئے استعارے استعمال ہو رہے ہیں اور نئے نئے مضامین بھی سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے نوجوان شعرا کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ اساتذہ کے کلام سے استفادہ کریں اور مطالعہ کی عادت ڈالیں اچھی شاعری کے لیے معاشرتی ماحول کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے۔ زمینی حقائق نظم کرنے سے شاعری میں رچائو آتا ہے۔ اس نشست میں جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں صدر‘ مہمانانِ خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ ناصر شمسی‘ اکرم کنجاہی‘ سلمان صدیقی‘ شاعر علی شاعر‘ حامد علی سید‘ ڈاکٹر عبدالمختار اور نثار احمد نثار شامل تھے۔
…٭…
رانا خالد محمود قیصر کے شعری مجموعے ’’ہندسوں کے درمیان‘‘ کی دوسری تعارفی تقریب لائنز کلب کے زیر اہتمام ڈیفنس کلب کراچی میں منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت صبیح قاضی نے کی۔ ظفر اقبال‘ سلطان مسعود اور عقیلہ حق‘ مہمانان خصوصی تھے۔ اس موقع پر عقیلہ حق نے کہا کہ رانا خالد محمود قیصر کا شمار پڑھے لکھے افراد میں ہوتا ہے وہ ایک بینک کار ہیں لیکن شعر و ادب کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں ان کی شاعری کا مجموعہ منظر عام پر آگیا ہے جو کہ ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ظفر اقبال نے کہا کہ رانا خالد قیصر ایک کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نفیس انسان بھی ہیں۔ وہ 30 سال سے شاعری کر رہے ہیں انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں وہ سہل ممتنع میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ صبیح قاضی نے صدارتی خطاب میںکہا کہ شاعری خداداد صلاحیتوں کا نام ہے اس وقت کراچی میں بہت شعرا موجود ہیں ان میں ایک اہم نام رانا خالد محمود قیصر کا ہے۔ آج ہم ان کی کتاب کی تقریب میں موجود ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں معاشرتی رویوں کو برتا ہے غمِ جاناں کا تذکرہ کیا ہے وہ جدید لب و لہجے میں بات کرتے ہیں لیکن غزل کے روایتی مضامین بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں رونق حیات نے کہا کہ رانا قیصر کی شاعری موجودہ عہد کی آواز ہے وہ زندگی کے مسائل و حادثات کو لکھ رہے ہیں وہ لوگوں کو خوش رنگ مستقبل کے خواب دکھاتے ہیں‘ ان کی شعری اٹھان اس بات کی غماض ہے کہ وہ بات آگے جائیں گے۔ سحر تاب رومانی نے کہا کہ رانا خالد محمود کو مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کا شعری مجموعہ ادب کا سرمایہ ہے ان کی شاعری میں غنائیت ہے‘ گہرائی و گیرائی ہے‘ ان کے استعارے ہمارے معاشرے کی زبان ہیں۔ صاحبِ تقریب رانا خالد نے اس موقع پر اپنی غزلیں سنائیں اور داد وصول کی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اردو ادب کے طالب علم ہیں‘ شاعری ان کا شوق ہے‘ وہ بہت مصروف زندگی گزارتے ہیں لیکن شاعری نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی زمانہ شاعری کے مضامین بدل گئے ہیں کیونکہ ہم جدید سائنسی دور میں جی رہے ہیں جدید الیکٹرانک سہولیات نے تمام دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے‘ نئے نئے الفاظ و استعارے اردو زبان میں داخل ہو رہے ہیں اس وقت وہ شاعر کامیاب ہے جو حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھے ہوئے ہے کیوں کہ شاعری زندگی سے مشروط ہے۔ انہوں نے لائنز کلب کے اراکین و عہدیداران کا شکریہ بھی ادا اور تمام مہمانوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر محفل کو پُر رونق بنایا۔
…٭…
گجرات اور کراچی سے شائع ہونے والا غیر سیاسی رسالہ ’’سہ ماہی غنیمت‘‘ اکرم کنجاہی کی زیر ادارت ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ اکرم کنجاہی سینئر شاعر و صحافی ہیں انہوں نے اکتوبر 2016ء سے مشاعروں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے اس کے ساتھ انہوں نے راغب مراد آبادی ایوارڈ کا اجرا بھی کیا ہے جس میں ’’نقد رقم‘‘ بھی شامل ہے اس سلسلے کا پہلا ایوارڈ اور کیش اختر سعیدی کو پیش کیا گیا۔ اکرم کنجاہی کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے شہروں یا دوسرے ممالک سے آنے والے قلم کاروں کے لیے محفلیں سجاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر رفیع الدین راز نے سہ ماہی غنیمت کے تحت ہونے والے مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے اکرم کنجاہی کی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کراچی کی ادبی فضائوں میں نئی روشنی پھیلائی ہے اب امریکا میں بھی ان کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ امریکا میں رہتے ہوئے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں پڑھتے ہیں خدا کا شکر ہے کہ اب نوجوان نسل بھی شاعری کے میدان میں داخل ہوچکی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا کیوں کہ نوجوان مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ برطانیہ سے تشریف لائے ہوئے شاعر و ادیب یشب تمنا اس مشاعرے کے مہمان خصوصی تھے جنہوں نے اپنا کلام سنانے سے قبل اکرم کنجاہی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اتنی شان دار محفل سجائی انہوں نے مزید کہا کہ کراچی علم دوست شہر ہے یہاں فنونِ لطیفہ کے تمام شعبے فعال ہیں۔ کراچی میں متعدد تنظیمیں شعر و ادب کے فروغ میں مصروف ہیں یہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ اکرم کنجاہی نے خطبہ استقبالیہ اور کلماتِ تشکر ادا کیے جب کہ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں ڈاکٹر مختار حیات مہمان اعزازی تھے۔ مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ یشب تمنا‘ مختار حیات‘ اختر سعیدی‘ اکرم کنجاہی‘ حنیف عابد‘ سلمان صدیقی‘ نثار احمد نثار‘ شاعر علی شاعر‘ حامد علی سید‘ شاہد اقبال شاہد‘ خالد محمود قیصر‘ ظفر بھوپالی‘ کشور عدیل جعفری‘ افضل ہزاروی‘ محسن سلیم‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ مہتاب شاہ‘ علی بابا‘ آزاد حسین آزاد‘ نثار محمود تاثیر اور یاسر سعید نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
…٭…
لیاقت علی پراچہ ادبی و سماجی شخصیت ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب وہ سیاسی رہنما کی حیثیت سے بھی بہت فعال تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر سال اپنی رہائش گاہ میں نعتیہ مشاعرہ اور نعت خوانی کی محفل سجاتے ہیں امسال بھی انہوں نے بزمِ جہانِ حمد کے تعاون سے 3 دسمبر 2017ء کو نعت خوانی اور نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا جس میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ فیروز خسرو‘ پروفیسر خیال آفاقی‘ یامین وارثی‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ رفیق مغل‘ راقم الحروف‘ طاہر سلطانی‘ گل انور‘ ظفر محمد‘ نعیم انصاری‘ حامد علی سید‘ سعدالدین سعد‘ عبدالوحید تاج‘ رشید خان رشید‘ شارق رشید‘ یوسف اسماعیل‘ تنویر سخن اور نصراللہ غالب نے اپنا اپنا نعتیہ کلام نذرِ سامعین کیا۔ رشید خان نے نعتیہ مشاعرے کی نظامت کی۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے۔ نماز مغرب کے نعت خوانی شروع کی گئی جس کی صدارت جاوید بحریہ سوسائٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق نے کی۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حافظ نعمان طاہر نے حاصل کی۔ محمد زبیر اسحاق اور حافظ نعمان طاہر نے انتہائی خوش الحانی کے ساتھ نعتیں پڑھیں جس کے بعد نماز عشا باجماعت ادا کی گئی پھر عشائیہ کا اہتمام کیا گیا اس کے بعد نعتیہ مشاعرہ ہوا۔ پہلے دور میں طاہر سلطانی نے نظامت کے افرائض انجام دیے اس موقع پر صاحبِ صدر اپنے خطاب میں کہا کہ لیاقت علی پراچہ نے آج روح پرور محفل سجائی ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس کام کا اجرِعظیم عطا فرمائے کیونکہ نعت سننا‘ نعت پڑھنا اور لکھنا باعث ثواب ہے۔ جہاں نعت خوانی ہوتی ہے وہاں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ جو لوگ ذکرِِ نبیؐ کرتے ہیں وہ صاحبِ ایمان ہوتے ہیں۔ نعت خوانی کی محفلوں میں شریک ہو کر ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے ہم سیرتِ رسولؐ کے مختلف گوشوں سے آشنا ہوتے ہیں خوش الحانی سے نعت سن کر سرور و کیف طاری ہوتا ہے اور ثواب بھی ملتا ہے۔ طاہر سلطانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے بزم حمد و نعت کے زیر اہتمام حمدیہ نعتیہ‘ منقبتی‘ طرحی اور غیر طرحی مشاعروں کی تعداد 350 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماہنامہ ارمغانِ حمد کے 125 شمارے شائع ہوچکے ہیں جلد ہی اس شمارے کی تعارفی تقریب آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری انجمن مالی مشکلات کا شکار ہے ہم صاحبانِ ثروت سے درخواست گزار ہیں کہ ہمارے ادارے کے ساتھ تعاون فرمائیں تاکہ ہمارے زیر التواپراجیکٹ مکمل ہوسکیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل پیرا ہیں اور ہر ماہ اپنے شیڈول کے مطابق اپنے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ ہمارے پروگرام میں لیاقت علی پراچہ کا پروگرام بھی شامل ہے امید ہے کہ یہ سلسلہ قائم و دائم رہے گا۔ میزبانِ تقریب لیاقت علی پراچہ نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک نعت گوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت کا ایک اہم ذریعہ ہے نعت لکھنا اس حوالے سے بہت مشکل ہے کہ اس میں غلو کی گنجائش نہیں ہوتی۔ حب رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی۔ نعت کہنے کے لیے سیرتِ مصطفی کا مطالعہ ضروری ہے۔ نعت کے مضامین میں شمائل رسولؐ اور مناقب رسولؐ کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے‘ باالفاظ دیگر نعت نگاری فروغ اسلام کا اہم جز ہے اب جدید نعت کا آغاز ہوچکا ہے جس میں امتِ محمدی کے حالات و واقعات‘ اپنے دلی جذبات و کیفیات‘ مدینے کی حاضری کی آرزو جیسے عنوانات بھی شامل ہیں۔ نعتیہ ادب ترقی کی جانب رواں دواں ہے اب نعت پر مطالعاتی ریسرچ ہو رہی ہے‘ پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جارہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں حمدونعت کے فروغ میں مصروف ہیں ان میں جہانِ حمد و نعت بھی شامل ہے جس کے روحِ رواں طاہر سلطانی ہیں۔ ہم نے آج اس ادارے کے تحت نعتیہ مشاعرہ اور نعت خوانی کی محفل سجائی ہے اللہ تعالیٰ اس ادارے کی خدمات قبول فرمائے۔

حصہ