اس ماہ مبارک میں اپنے دلوں کو سنت سے منور کریں

198

افروز عنایت
ویسے ہی ربیع الاوّل کا مقدس مہینہ دنیائے اسلام کے لیے معتبر اور اعلیٰ ہے، اس باسعادت مہینے میں آپؐ کی ولادت بھی ہوئی جس کی وجہ سے دنیائے کائنات پر تجلیوں کے نور بکھر گئے۔ آپؐ سے محبت، آپؐ کی سنتِ مبارکہ پر عمل ہمارے ایمان کی دلیل ہے۔ اس ماہِ مبارک میں شہروں اور گلیوں کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، جگہ جگہ محافلِ میلاد اور محافلِ نعت کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ اپنے نبیؐ سے محبت کا اقرار کیا جائے۔ بے شک اہلِ ایمان کی آپؐ کی ذاتِ اقدس سے محبت اور عقیدت سے انکار نہیں، ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان جائیں… کیا ہماری آپؐ سے محبت کی دلیل صرف یہیں تک محدود ہوجاتی ہے کہ ہم ان محفلوں میں شریک ہوں اور ان کا انعقاد کریں، اور شہروں اور گلیوں کو قمقموں سے سجائیں! اصل محبت تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ آپؐ کی سنتوں پر عمل کریں، اللہ رب العزت کا جو پیغام آپؐ نے دنیا تک پہنچایا اُس کی پیروی کرنا دین اور ایمان کی دلیل ہے۔ آپؐ کائنات کے لیے سرچشمۂ ہدایت اور سراپا رحمت تھے، کائنات کا ذرہ ذرہ آپؐ کی ذاتِ اقدس کو سلام و درود کا نذرانہ پیش کرتا ہے، شجر و حجر آپؐ کے گن گاتے ہیں۔ آپؐ کی ذاتِ اقدس تھی ہی ایسی کہ ذرّہ ذرّہ آپؐ کی محبت و عقیدت سے سرشار ہے۔ آپؐ کی 63 سالہ زندگی میں آپؐ سے کسی جان دار اور بے جان شئے کو بھی ایذا نہ پہنچی۔ اپنے تو گن گاتے ہی ہیں دشمن بھی آپؐ سے مرعوب تھے، کیونکہ آپؐ کی ذاتِ اقدس سے دشمنانِ اسلام کے لیے بھی کبھی بددعا تک نہ نکلی۔ دشمنانِ اسلام سے آپؐ کی ذاتِ اقدس کو بارہا تکلیف پہنچی، جسمِ مبارک سے خون رِسنے لگتا کہ پائے مبارک تک لہو سے تر ہوجاتے، لیکن سبحان اللہ آپؐ نے طاقت ہونے کے باوجود کبھی اُن سے بدلہ نہ لیا۔ آپؐ کی زبانِ مبارک اور ہاتھوں سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچی۔ یہی تلقین آپؐ نے اہلِ ایمان کو کی کہ ’’مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا محفوظ رہے‘‘۔ ذرا چند لمحوں کے لیے سوچیے کہ کوئی آپ کو ایذا پہنچائے، زبان سے برے القابات سے آپ کو نوازے، زدو کوب کرے تو آپ اُس کا کیا حشر کریں گے؟ طاقت نہ ہونے کے باوجود آپ اُس کو برا بھلا کہیں گے، بددعا دیں گے، گالیاں دیں گے، اس سے ناتا توڑ لیں گے، آس پاس کے لوگوں میں بیٹھ کر اُس کے لیے برے الفاظ استعمال کریں گے اور ہمیشہ کے لیے اُسے دل سے نکال دیں گے۔ مگر قربان جائوں اُس ذاتِ اقدس کی الفت و محبت و شفقت بھری شخصیت پر کہ دشمنوں کو فراخ دلی سے معاف فرماتے، انہیں گلے لگاتے، ان کے حق میں دعا فرماتے۔ آپؐ کے حُسنِ سلوک کا یہ ثبوت ہے کہ کافر بھی آپؐ کے گن گانے پر مجبور ہوگئے اور آہستہ آہستہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔
آپؐ کی رحم دلی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کی نگاہیں چلتے ہوئے زمین پر رہتیں کہ مبادا کہیں کوئی چیونٹی آپؐ کے پائے مبارک کے نیچے آکر کچل نہ جائے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے اکثر آپؐ کی اس ایک سنت کی پیروی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس ایک سنت پر عمل کرنے سے بھی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، ہر ایک سُکھ و چین کی زندگی جی سکتا ہے۔ ذرا اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں… شاہراہوں، دفتروں، گھروں، تعلیمی اور دینی اداروں اور سیاست کے اکھاڑوں تک کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں۔ گالی گلوچ اور دوسرے کے لیے فحش کلمات کی یلغار، نفرتیں، حسد سے بھرے دل، انتقام سے سلگتی سانسیں، لڑائی جھگڑا، قتل و غارت… یہی سب چاروں طرف کے نظارے ہیں۔ آپؐ کی ذاتِ اقدس سے تو کسی کافر تک کو تکلیف نہ پہنچی، جکہ یہاں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو آسانی سے ’’کافر‘‘ کے لقب سے نوازنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ کر گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔ عزتیں اور پگڑیاں اچھالنے میں دیر نہیں لگتی، جبکہ ہر لمحے ہم میں سے ہر ایک دعویدار ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کا پاسدار ہے۔ آپؐ کے ہر عمل و قول سے واضح ہے کہ گالی دینے والے کو ناپسند فرمایا گیا ہے۔ جبکہ آج نہ صرف سامنے والے کو بلکہ اُس کے والدین کو بھی گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص والدین پر لعن طعن کرے‘‘۔ پوچھا گیا: ’’یا رسولؐ اللہ! آدمی بذاتِ خود اپنے والدین پر کیسے لعن طعن کرسکتا ہے؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص دوسرے کے والد کو گالی دے گا تو دوسرا شخص بھی جواب میں اس کے والد اور والدہ کو گالی دے گا۔‘‘ (گویا پہلا شخص اپنے والدین کو گالی دلوانے کا خود سبب بنا)
صحیح مسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے:
’’ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ ناراض رہنا حرام ہے‘‘۔ جبکہ آج ہم ایک دوسرے سے بغض وعداوت میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ قطع تعلق تک پہنچ جاتے ہیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو دشمنوں کو معاف کردیتے، ان کی بڑی سے بڑی کوتاہی پر درگزر فرماتے۔ آئیے اس ماہِ مبارک میں عہد کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل کریں گے۔ صرف اس ایک سنت پر ہی عمل کرنے سے معاشرے کی بہت سی غلاظتیں صاف ہوسکتی ہیں۔ دوسروں پر رحم کریں، ان سے الفت و محبت کا رویہ رکھیں گے تو خودبخود درگزر، ہمدردی، مدد کا جذبہ بھی اجاگر ہوجائے گا۔ اس ایک سنت کی پاسداری آپ کے ماحول کو خوشگوار بنا سکتی ہے۔ آپ کو بہت پیارے، مخلص، ہمدرد دوستوں کا ساتھ نصیب ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں آپ کو عزت اور مقام مل سکتا ہے۔ آج اس تحریر کو پڑھ کر غور کریں کہ آپ کے اس ایک قدم سے، ایک سنت پر عمل کرنے سے کتنے فوائد آپ کو پہنچ سکتے ہیں، کتنی الجھنیں سلجھ سکتی ہیں، کتنے لوگوں کے دلوں کے دروازے آپ کی اس ایک دستک پر وا ہوسکتے ہیں۔ قربان جائوں آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر کہ ایک خوبی کو اپنانے سے اتنا کچھ حاصل ہوسکتا ہے تو باقی تمام سنتوں پر عمل کرنے کا اجرو ثواب اور دنیاوی فیض کس قدر حاصل ہوسکتا ہے۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا ہے کہ آج اپنے دلوں کو نبیؐ کی اس سنت سے منور کریں، یعنی لوگوں سے پیار و الفت، محبت، ہمدردی اور رحم کا تعلق استوار کریں۔ شہروں میں چراغاں کرنے کے بجائے دلوں کو چراغاں سے منور کریں، جس سے یہ معاشرہ حقیقتاً اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے۔

حصہ